10 ستمبر 2021ء بروز جمعہ بعد نمازعصر ہمارا مختصر سا قافلہ ہند وستان میں نگاہِ نبوت کے انتخاب اور اشاعت اسلام کے قافلہ سالار سید نا خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمة اللہ علیہ کی زیارت و دعا کے مقصد سے روانہ ہوا۔ سنیچر کو صبح سویرے ہمارا قافلہ دیارِغریب نواز میں وارد ہوا۔ زیارت کے تمام آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جب ہم درگاہ شریف پہنچے تو بارانِ رحمت کا نزول ہو رہا تھا۔ اجمیر شہر پہاڑیوں کے دامن میں بسا ہوا ہے ۔اس لیے موسلا دھار بارش ہونے پر پہاڑوں کا پانی جب دامن میں اُترتا ہے تو شہر کی گلیوں میں پنڈلیوں تک پانی بھر جاتا ہے۔ اسی عالمِ وارفتگی اور شوقِ جنوں میں مزار شریف میں حاضر ہوئے، قل شریف کے بعد تمام اُمت مسلمہ کے لیے دعائیں کی گئیں۔ یہاں دعا ایسی مقبول ہوتی ہے کہ امیر، غریب، بادشاہ ، وزیر جھولی پھیلائے کھڑے رہتے ہیں اور ان کے توسل سے خالی دامن مرادوںسے بھرکر لے جاتے ہیں آپ کا دربار محتاجوں کا ٹھکانہ ہے ۔امام احمد رضا فرماتے ہیں : ” خواجہ ہند کے مزار شریف پر دعا قبول ہوتی ہے“۔
(احسن الوعاءفی آداب الدعاء، ص50)
درگاہ سے متصل درجنوں چھوٹی بڑی دکانیں موجود تھیں جن میں راجستھانی لباس اور انتہائی خوبصورت ہینڈ ورک کے کپڑے موجود تھے۔ درگاہ میں باجماعت نمازکی ادائیگی کے بعد ایک مسلم ہوٹل میں کھانے کا آرڈر کیا گیا۔ مہاراشٹر سے تعلق ہونے کے سبب راجستھانی ذائقہ ذرا منفرد معلوم ہوا۔ اس کے بعد بغل میں موجود اسٹورس سے مٹھائیاں اوربچوں کے لیے تحفے تحائف خریدے گئے ۔ اسی اثناء میں لاﺅڈ اسپیکر پر زور و شور سے اعلانات شروع ہوگئے، پولس کی گاڑیاں گردش کرنے لگی، راجستھان انتظامیہ کی جانب سے رات آٹھ بجے درگاہ اور بازار کو وبائی مرض کے سبب احتیاطاً فجر تک کے لیے بند کر دیا جا رہا ہے۔ اسی سبب سے ہم اپنی قیام گاہ پر لوٹ آئے ۔
دوسرے دن تازہ دَم ہو کر ہمارا یہ قافلہ تارہ گڑھ اور اناساگر کی جانب روانہ ہوا۔ تارہ گڑھ قلعہ کو 1113ء میں اجے پال بادشاہ نے پہاڑ کی چوٹی پر تعمیر کیا تھا جس کے زیادہ تر حصے اب تباہ ہو چکے ہیں۔ اپنے عہد زریں میں تارہ گڑھ قلعہ سرنگوں کے لیے جانا جاتا تھا۔ اس کی سرنگیں پہاڑ کی تمام چوٹیوں تک جاتی تھیں۔ البتہ اب ان سرنگوں تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ انا ساگر مصنوعی جھیل ہے جسے پرتھوی راج چوہان کے آباواجداد مہاراجہ اناجی نے 1135 سے 1150 عیسوی کے درمیان تعمیر کیا تھا۔ بعد میں مغل حکمرانوں نے جھیل کو بڑھانے کے لیے بہت کچھ تبدیل کیا۔ جھیل کے قریب دولت باغ ہے ، جسے شہنشاہ جہانگیر نے قائم کیا تھا۔ شہنشاہ شاہجہاں نے بعد میں باغ اور جھیل کے درمیان پانچ پویلین ، جو کہ باراداری کہلاتے ہیں ، کو شامل کیا۔جھیل کے قریب ایک پہاڑی پر ایک سرکٹ ہاوس واقع ہے جو برطانوی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ جھیل میں بوٹنگ کے ذریعے بچے اور بڑوں نے خوب انجوائے کیا۔
اسی شام ہم جے پور کے لیے روانہ ہو گئے ۔ ہوٹل سے گائیڈ اور کار بُک کر کے صبح سویرے البرٹ ہال میوزیم پہنچے ۔ پہنچنے پر بڑی مایوسی ہوئی کیوں کہ پیر کو میوزیم بند رہتا ہے۔ اس میوزیم میں مصری ممی ، ہندوستانی تاریخ کے مختلف ادوار کے قدیم سکے ، پینٹنگز ،اٹھارہویں صدی کے ملبوسات اور بھی کئی نادر و نایاب چیزیں موجود ہیں مگر میوزیم بند ہونے کی وجہ سے تحقیق و تفتیش اور مشاہدوں کا سفر شروع ہوتے ہی رکاوٹ سے دوچار ہوگیا۔
اس کے بعد ہم سب البرٹ ہال میوزیم کے بالکل سامنے موجود جے پور چڑیا گھر دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے، ٹکٹ خرید کر اندر داخل ہوئے ۔ اس چڑیا گھر میں پرندے، رینگنے والے جانور اور دیگرکئی قسم کے جانورموجودہیں۔ اگر آپ بچوں کے ساتھ سفر کر رہے ہیں تو ، چڑیا گھر کا دورہ جے پور میں سب سے دلچسپ چیزوں میں سے ایک ہوگا۔
یہاں سے نکلنے کے بعد امبر یا آمیر قلعہ پر چڑھائی شروع کی گئی۔ آمیر قلعہ کی سیڑھیوں پر ہاتھی کی سواری کرنا بہت مشہور ہے مگر ہمارا قافلہ تقریباً تین بجے قلعہ کے پاس پہنچا ۔ حکومتی گائیڈ لائن کے مطابق صبح سے دوپہر تک ہی ہاتھی کی سواری لی جا سکتی ہے، اس لیے ہمیں کار کے ذریعے اوپر جانا پڑا۔ یہ قلعہ اراولی پہاڑی کی چوٹی پر واقع ایک آرکی ٹیکچرل شاہکار ہے۔ اسے اکبر کے سب سے قابل اعتماد جرنیلوں میں سے ایک ، مہاراجہ مان سنگھ اول نے 1592ء میں تعمیر کیا تھا۔ آمیر قلعہ راجپوت حکمرانوں کی مرکزی رہائش گاہ کے لیے جانا جاتا ہے ۔ قلعہ اتنا بڑا ہے کہ ہر ایک چیز دیکھنے کے لیے آپ کو کئی گھنٹوں کا وقت درکار ہوگا۔
واپسی پر جسمانی تھکان اس قدر تھی کہ ویکس میوزیم کے دروازے پر پہنچنے کے بعد بھی اندر جانے کی سکت نہیں ہوئی۔ ایم ایم خان ریسٹورنٹ میں پُر تکلف کھانے کا انتظام کیا گیا۔ جے پور کی چادر ، کپڑے اور بینگلس کی خریدی کے بعد ہوٹل پہنچے ۔ کچھ دیر بعد تحریک علماے ہند کے صدر محترم مفتی خالد ایوب مصباحی صاحب ہوٹل تشریف لائیں، تقریباً نصف شب تک مختلف امور پر طویل تبادلہ خیال کیا گیا اور پھر آدھی رات کو ہمارا قافلہ فتح پور سیکری کی جانب روانہ ہوا۔
راقم نے گائیڈ سے تاج محل اور معاشی کیفیت کی بابت دریافت کیا تو اس نے کہا کہ لوگوں کے لیے یہ جگہ حیرت واستعجاب کی علامت ہے مگر ہمارے لیے معاشی بدحالی اور کسمپرسی کا سبب ہے۔ جب میں نے وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا کہ تاج محل کے سبب آگرہ میں فیکٹریوں اورانڈسٹریز کے قیام کی اجازت نہیں ہے جس کے سبب اکثر لوگوں کے خاندان کی کفالت ٹورِزم پر منحصر ہے اور وبائی مرض کے سبب گذشتہ دو سالوں سے ہم بھکمری کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ خیر ! ہر شئے کو دیکھنے کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے۔ پورے سفر کو راقم نے کیمرے کی آنکھوں میں قید کیا ہے،تاریخی حقائق و قرائن سے آگاہی کے مقصد سے ان ویڈیوز کو ڈاکومینٹری کی شکل میں نوری اکیڈمی یوٹیوب چینل پر نشر کیا جا رہا ہے ۔
اس سفر میں راقم کی فیملی کے ساتھ مشفق دوست وہمدم عمر فاروق (انچارچ ہیڈ ماسٹر،ہارون انصاری جونیئر کالج )اور جے اے ٹی کیمپس کے فعال کارکن عزیز الرحمن اور ان کی فیملی موجود تھی۔ واپسی میں گوالیار کے پاس قیام کیا گیااور 16؍ ستمبر بروز جمعرات کو اللہ و رسول کے کرم سے انتہائی اطمینان کے ساتھ ہمارا قافلہ بخیر وعافیت شہر مالیگائوں واپس لوٹ آیا۔الحمدللہ۔