ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesBiographyISLAMIC KNOWLEDGESHAKHSIYAAT
Hazrat Zainab ke Karbala me Khutbaat سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے حکیمانہ خطبوں اور تقریروں سے کربلا کے انقلاب کوحیاتِ نَو عطا کی
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی لاڈلی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے حکیمانہ خطبات
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے حکیمانہ خطبوں اور تقریروں سے کربلا کے انقلاب کوحیاتِ نَو عطا کی
از:عطاءالرحمن نوری ،مالیگاﺅں (ریسرچ اسکالر)
حضرت زینب رضی اللہ عنہ مکتب اہل نبوت و ولایت کی ممتاز و عظیم اور منفرد و یگانہ نمونہ کامل بی بی حضرت فاطمةالزہرارضی اللہ عنہا کی آغوش میں پلی ہیں اور پیغمبر اسلام ﷺ اور حضرت علی جیسی ہستیوں کے دامان فضیلت میں پروان چڑھی ہیں۔ علم و عبادت ، عفت و تقویٰ ، فصاحت و بلاغت ، ثابت قدمی ، حق کا مخلصانہ دفاع ، عزت نفس اور وفاداری اس گراںقدر خاتون کے نمایاں صفات و کمالات میں شامل ہیں۔ تاریخ اسلام کے تقدیر ساز معرکے میں حضرت زینب کبریٰ رضی اللہ عنہا کا جاوداں کردار اُفق فضل و کمال پر آج بھی جگمگا رہا ہے۔ کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پُر شکوہ انقلاب کے ساتھ ثانیِ زہرا کا نام ہمیشہ کے لیے جڑ گیا ہے۔ تاریخ کربلا میں ہر ہر قدم پر جناب زینب کا مثالی کردار موجود ہے، چاہے وہ بھائی کی آخری رخصت وجدائی کا دلخراش منظر ہو یا عصرعاشورہ کی تنہائی و بے بسی کی روداد یا ظالم کے دربار میں حق و حقیقت کے دفاع کا مرحلہ ۔ آپ کی بے مثال شخصیت تاریخ کے ہر دور اور ہر زمانے کے لیے نمونہ و اسوہ ہے۔ایسے بحرانی حالات اورمصا ئب و آلام کے ماحول میں جہاں ہر انسان کے قدم متزلزل ہوجایا کرتے ہیں حضرت زینب رضی اللہ عنہ ثابت قدم رہیں ، ظالموں اور جابروں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا اورموقع و محل کے مطابق گوناگوں حالات میں بہترین کردار کامظاہرہ کیا۔
خانوادہ نبوت کے ممتاز افراد اور رفقائے قافلہ کی شہادت کے بعد شمراور ابن سعد نے خیموں کو آگ لگا دی ، سامان لوٹ لیا اور پردہ نشینان ِحرم کی چادریں چھین لیں۔ ایسے نازک وقت میں ہمت وجواں مردی کامظاہرہ کرتے ہوئے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا :”شمر ! تیری آنکھیں پھوٹ جائیں تو رسول اللہﷺ کی بیٹیوں کو بے پردہ کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے چہروں کے محافظ شہید ہوگئے ۔اب دنیا میں ہمارا کوئی نہیں ہے۔ یہ مانا کہ ہماری بے بسی نے تجھے دلیربنا دیا ہے لیکن کیا کلمہ پڑھانے کا احسان بھی تو بھول گیا؟ سنگ دل ظالم !ناموس محمد ﷺکی بے حرمتی کرکے قہرخداوندی کوحرکت میں نہ لا۔ تجھے اتنا بھی لحاظ نہیں ہے کہ ہم اسی رسول کی نواسیاں ہیں جس نے حاتم طائی کی قیدی لڑکی کو اپنی چادر اُڑھائی تھی۔“ (کربلا کامسافر، ص48)
شہادت کے دوسرے دن اونٹنی کی ننگی پیٹھ پر سیدانیوں کورسیوں سے جکڑ کر بٹھایا گیا۔ خاندان رسالت کا یہ تاراج قافلہ جب مقتل سے گزرنے لگا تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی لاڈلی بیٹی حضرت زینب نے روتے ہوئے فرمایا: ”یامحمداہ! آپ پر آسمان کے فرشتوں کا سلام ہو۔ یہ دیکھیے آپ کا لاڈلا حسین ریگستان میں پڑا ہے، خاک وخون میں آلودہ، تمام بدن ٹکڑے ٹکڑے ہے، نعش کو گوروکفن بھی میسر نہیں ہے۔ نانا جان! آپ کی تمام اولاد قتل کردی گئی، ہَوا اُن پر خاک اُڑا رہی ہے ،آپ کی بیٹیاں قید ہیں، ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، مشکیں کَسی ہوئی ہیں، پردیس میں کوئی ان کا یاوروشناسا نہیں۔ نانا جان! اپنے یتیموں کو فریاد کو پہنچے۔“ ابن جریر کا بیان ہے کہ دوست ودشمن کوئی ایسا نہ تھاجو حضرت زینب کے اس بیان پر آبدیدہ نہ ہوگیا ہو۔(مرجع سابق،ص50)
اسیران حرم کا قافلہ اشکبارآنکھوں اور جگرگداز سسکیوں کے ساتھ کربلا سے رخصت ہوکرکوفے کی جانب روانہ ہونے لگا تو امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے ابن سعد سے کہاکہ ”باباجان کا سر میری گود میں دے دے تاکہ میں اسے سینے سے لگالوں۔“ ظالم ابن سعد نے زخموں پرنمک چھڑکتے ہوئے کہا: گود میں نہیں تیرے قدموں کی ٹھوکر پہ ڈال سکتا ہوں ۔اضطراب میں بجھی ہوئی آواز میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”بدبخت! نوجوانان جنت کے سردار سے گستاخی کرتا ہے۔ کیا تجھے خبر نہیں ہے کہ یہ کٹا ہوا سراب بھی دوجہان کا مالک ہے۔ ذراغور سے دیکھ، بوسہ گاہِ رسول پر انوارو تجلیات کی کیسی بارش ہو رہی ہے؟ صرف جسم سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے عرش کا رابطہ اب بھی قائم ہے۔“ (مرجع سابق،ص51)
قافلہ جب کوفہ پہنچا تو ابن زیاد نے حضرت زینب کومخاطب کرتے ہوئے کہا: خدا نے تیرے سرکش سردار اور تیرے اہل بیت کے نافرمان باغیوں کی طرف سے میرا دل ٹھنڈا کر دیا ہے۔ اس کے بعد ابن زیاد کی نظرعابد بیمار پرپڑی تو وہ انہیں بھی قتل کرنا ہی چاہتا تھا کہ سیدہ زینب بے قرار ہوکر چیخ اٹھیں اور فرمایا: ”میں تجھے خدا کا واسطہ دیتی ہوں اگرتواس بچے کو قتل کرنا ہی چاہتا ہے تو مجھے بھی اس کے ساتھ قتل کرڈال۔“ ابن زیاد پر سکتہ طاری ہوگیا اور اس نے پورے قافلے کو دمشق کی جانب روانہ کردیا۔ (مرجع سابق،ص54)
امام پاک ورفقائے کار کی شہادت پر دمشق میں خوشیاں منائی جارہی تھیں، یزید تخت نشین تھا، اسیرانِ حرم کا قافلہ دربار میں پہنچا، دربار میں یزید کے طرفداروں کی کثرت اور یزید کی موجودگی کے باوجود حضرت نعمان بن بشیر نے اہل بیت اطہار کی فضیلت اُجاگرکی، یزید نے بھانپ لیا کہ اس کا یہ قدم دنیاوآخرت میں ذلت ورسوائی کا باعث ہے ۔ یزید نے منافقانہ چال چلتے ہوئے کہا کہ اسیروں کی رسیاں کھول دی جائیں اور سیدانیوں کو شاہی محل میں پہنچا دیا جائے۔ یہ سن کر حضرت زینب روپڑیں اور انہوں نے گلوگیرآواز میں کہا: ”تو اپنی حکومت میں رسول زادیوں کو گلی گلی پھرا چکا اب ہماری بے بسی کا تماشہ اپنی عورتوں کو نہ دکھا۔ ہم خاک نشینوں کو کوئی ٹوٹی پھوٹی جگہ دے دے جہاں سر چھپالیں۔“ (مرجع سابق،ص56)
سیدہ زینب رضی اللہ عنہ نے کبھی دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے عظیم خطبوں کے وار سے ان کے دلوں پر کاری ضربیں لگائیں تو کبھی غمزدہ بیبیوں اور بچوں کی تسکین کے لیے نرم ومہربان مشفقانہ لہجے میں دلجوئی کی اور امام وقت سید سجاد حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی جان کی حفاظت کرتے ہوئے انہیں جلتے ہوئے شعلوں سے نکال کر امام حسین رضی اللہ عنہ کے بعد حسینی انقلاب کی قیادت و پاسبانی کے فرائض ادا کیے اور ایسے خطرناک مراحل میں صرف خداوند عالم سے مدد طلب کی۔ آپ نے کربلا سے کوفہ اورکوفہ سے شام کے سفر کے دوران ظالم و جابر ستم گروں کے درباراور لوگوں کے ہجوم میں اپنے حکیمانہ خطبوں اور تقریروں سے کربلا کے انقلاب کوحیات نو عطاکی۔ خطبوں اور تقریروں کی فصاحت و بلاغت آپ کے علم و کمال کے ساتھ دیگرشخصی خصوصیتوں کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ خطابت کے ساتھ آپ نے جگہ جگہ وقت و حالات کے مطابق بالکل صحیح و بجا مستحکم فیصلے کیے ہیں۔اللہ پاک سیدہ کے مزار پرانواروبرکات کی بارش فرمائے۔ آمین