ترائیلے
’’ترائیلے ‘‘ فرانسیسی شاعری کی ایک مقبول صنف ہے۔
یہ ایک آٹھ مصروں پر مشتمل نظم ہوتی ہے اس میں صرف دو قافیے ہوتے ہیں اور اس کی ایک خاص ترتیب ہوتی ہے۔
ترائیلے کے آٹھ مصرعوں میں پہلا ، تیسرا اور پانچواں مصرع ہم قافیہ ہوتا ہے ۔
ترائیلے کا دوسرا اور چھٹا مصرع بھی ہم قافیہ ہوتا ہے مگر پہلے ، تیسرے اور پانچویں مصرعوں کے قافیوں سے الگ ہوتا ہے ۔
ترائیلے کا پہلا ، چوتھا اور ساتواں مصرع ایک ہی ہوتا ہے ۔
اسی طرح دوسرا اور آٹھواں مصرع بھی ایک ہی ہوتا ہے مگر پہلے یکساں مصرعوں سے مختلف ۔
بہ طورِ مثال روف خیر کا ایک ترائیلے’’ٹائم کیپسول‘‘
بنو امیہ ہی باقی ، نہ ہیں بنو عباس
نہ اپنے آپ کو دہرا کے تھک سکی تاریخ
ہَوا و حرص بھلا کس کو آسکے ہیں راس
بنو امیہ ہی باقی ، نہ ہیں بنو عباس
سروں میں دفن ہوئی اقتدار کی بُو باس
ہر ایک حرفِ ہوس پر کھنچا خطِ تنسیخ
بنو امیہ ہی باقی ، نہ ہیں بنو عباس
نہ اپنے آپ کو دہرا کے تھک سکی تاریخ
عطا محمد شعلہ : اُردو کے پہلے ترائیلے نگار ۔
ترائیلے فرانسیسی شاعری کا ایک سانچہ ہے جس میں پانچ مصرعوں کے الٹ پھیر سے آٹھ مصرعے بنائے جاتے ہیں۔
فرانسیسی شاعری میں ترائیلے کا موجد اڈنس لے رائے کو قرار دیا جاتا ہے ۔
پیئٹرک کیرے نے 1651ءمیں انگریزی میں پہلی بار ترائیلے کا تجربہ کیا تھا ۔
اُردو کے ترائیلے نگار :
عطا محمد شعلہ ، احمد ندیم قاسمی، مظہر امام ، رؤف خیر ، حنیف کیفی وغیرہ۔