پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی

نام : پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی پسر گنگا پرشاد کول ۔
تخلص : نسیمؔ
ولادت : 1811ء کشمیر
وفات : 1843ء ( کل عمر 33)

تصانیف

(1)گلزار نسیم (2) گل بکائولی
(۳) دیوان نسیم:دیوانِ نسیم بہت مختصر ہے۔ اس میں مکمل ونا مکمل غزلوں کی تعداد کم و بیش48؍ ہے۔
اُردو میں دو ہی مثنویوں نے بے پناہ شہرت حاصل کی ہے ایک میر حسن کی مثنوی ’’سحرالبیان‘‘ نے دوسری پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی’’گلزار نسیم‘‘نے۔ ’’سحرالبیان‘‘ میں سادگی کا حسن ہے اور ’’گلزار نسیم‘‘ میں پرکاری کا جادو ہے، غر ضیکہ دونوں میں ساحری اور عشوہ طرازی موجود ہے۔

مثنوی’’گلزار نسیم‘‘ پنڈت دیا شنکر نسیم کی وہ مثنوی ہے جس نے انہیں حیات جاوید عطا کی اور یہی وہ مثنوی ہے جسے لکھنؤ کے دبستان شاعری کی پہلی طویل نظم کا شرف حاصل ہے۔ دیا شنکر نسیم حیدر علی آتش کے شاگر دتھے اور اس مثنوی کی تصنیف کے دوران شاگرد کو قدم قدم پر استاد کی رہنمائی حاصل رہی آتش کی ہدایت پر ہی نسیم نے مثنوی کو مختصر کرکے نئے سرے سے لکھا او ر ایجاز و اختصار کا معجزہ کہلایا۔گلزارنسیم1254ھ/ 1838ء میں مکمل ہوئی اور نسیم کی وفات سے ایک سال پہلے 1842ء میں شائع ہوئی۔

گلزار نسیم کے ماخذ

دیا شنکر نسیم نے خوداپنی مثنوی کے تین شعروں میں مآخذ کی طرف اشارہ کر کے یہ بتایا ہے کہ ؎
افسانہ گلِ بکاولی کا
افسوں ہو بہارِ عاشقی کا
ہر چند سنا گیا ہے اس کو
اردو کی زبان میں سخن گو
وہ نثر ہے داد نظم دوں میں
اس مے کو دو آتشہ کروں میں
نسیم کا یہ اشارہ افسانہ گلِ بکاولی کے اردو نثر میں اس ترجمے کی طرف ہے جسے منشی نہال چند لاہوری نے فورٹ ولیم کالج کے ڈاکٹر گل کرسٹ کی فرمائش پر عزت اللہ بنگالی کے فارسی قصے کو ’’ مذہبِ عشق‘‘ کے نام سے کیا تھا۔نسیم نے نہال چند لاہوری کے اسی نثری قصے کو اُردونظم میں حسبِ ضرورت ڈھال کر گلزارِ نسیم کے نام سے لکھا۔ گلزارِ نسیم کابنیادی مآخذ یہی نثری داستان ’’مذہبِ عشق ‘‘ ہے اور خودمذہبِ عشق سے عزت اللہ بنگالی کے فارسی قصہ افسانہ گل بکاولی پر مبنی ہے۔ نسیم کے اتنے واضح اشاروں کے بعد مآخذ کی بحث ختم ہونی چاہیے تھی لیکن جب گلزارِ نسیم منظرِ عام پر آئی تویہ بات سامنے آئی کہ نسیم نے ریحان الدین کی اردو مثنوی ’’خیابانِ ریحان‘‘ سے بھی استفادہ کیا تھا۔

گلزار نسیم کا خلاصہ

مثنوی میںہے کہ پورب میںزین الملوک نام کا ایک بادشاہ تھا۔ اس کے چار بیٹے تھے کچھ عرصہ بعد پانچواں بیٹا پیدا ہواجس کا نام ’’تاج الملوک‘‘ تھا۔ اس بیٹے کے بارے میں نجومیوں نے پیش گوئی کی کہ اگر بادشاہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ بینائی سے محروم ہوگااو ر ایسا ہی ہوا۔ چنانچہ طبیبوں نے اس کا علاج یہ تجویز کیا کہ ایک پھول ہے’’ گل بکاولی‘‘ اُس سے اس کی بینائی واپس آسکتی ہے بس اس طرح سارے قصے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی کتاب ’’اُردو کی بہترین مثنویاں‘‘کے صفحہ 93؍تا 96؍پر اس مثنوی کا مکمل خلاصہ موجود ہے ۔

گلزار نسیم کے کردار

یورپ کا بادشاہ زین العابدین، پانچواں بیٹاتاج الملوک ، دلبر نامی بیسوا ، دیو، حمالہ دیونی (دیو کی بہن) ، حمالہ کے پاس محمودہ نامی آدم زاد لڑکی، نابینا جوگی، بکائولی مردانہ لباس پہن کر فرخ وزیر بنی، بکائولی کی ماں جمیلہ، روح افزا پری، روح افزا کی ماں حسن آرا، راجہ اندر، چتراوت ، سراندیپ ( سنگلدیپ ) کی رانی، تاج الملوک کے وزیر کا بیٹا ، بہرام ، دلبربیسوا کا غلام ساعد ۔

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!