ArticlesISLAMIC KNOWLEDGE
Dusro ke Rahem par palne wali Qaum
دوسروں کے رحم و کرم پر پٙلنے والی قومیں کبھی ترقی نہیں کرسکتی
درے گاوں(آگرہ روڈ)سے لگ کر سبزی مارکیٹ،دانہ مارکیٹ کا قیام ہونا چاہئے
محمد غفران اشرفی
7020961779
اگر انسان سلیم العقل اور دیدہ عبرت نگاہ ہو تو موجودہ حالات سے کئی سبق لینے کی کوشش ضرور کرے گا۔آئندہ سطور میں جو کچھ رقم ہوگا ہر ذی شعور اور سنجیدہ انسان میری بات کی تائید ضرور کرے گا۔مالیگاوں کی آبادی اور اِس کا رقبہ پہلے کی بنسبت بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔اِس لیے اہل سیاست کو اب سنڈاس،روڈ،گٹر،کی سیاست سے اوپر اٹھ کر مستقبل کو مدّنظر رکھ کر دُور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اِس جانب توجہ دینا ہوگا۔کہ مالیگاوں کے مشرقی علاقے میں سبزی مارکیٹ اور دانہ مارکیٹ کا وجود کتنا ضروری ہے؟کیوں کہ دٙور اور حالات بدل چکے ہیں۔اِس لیے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق تقاضے بھی بدل جاتے ہیں۔موجودہ حالات میں جو پریشانیاں ابھی سامنے آئی ہیں اُن کا واویلا نا کرتے ہوئے اِسی وقت اربابِ سیاست کو اس کا صحیح حل تلاش کرنا ہوگا۔زمام اقتدار جن کے ہاتھوں میں ہے مصیبت کے بادل چھٹنے کے بعد فورا مشرقی علاقے میں درے گاوں کی جانب آگرہ روڈ سے بالکل لگ کر سبزی مارکیٹ اور دانہ مارکیٹ کا قیام عمل میں لانے کے لیے ابھی سے اُنہیں انتظام کرنا ہوگا۔روڈ کے قریب کا مطالبہ اِس لیے ہے تاکہ مال بردار گاڑیوں کی نقل و حمل میں آسانی ہو یہ وقت کی اشدّ ضرورت ہے۔
مگر یہاں تو منظر نامہ یہ ہے کہ گلستاں کے ہر پیڑ کی ہر ڈال پر اُلّووں کا بسیرا ہے۔موقع کی نزاکت پر نظر نہیں ہے اس نازک وقت میں بھی سوشل میڈیا پر سیاسی دنگل ہے۔گزشتہ کئی دہائیوں سے سنڈاس،روڈ اور گٹر ہی بن رہی ہے جس کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یا تو ہماری لیڈر شِپ بوڑھی ہوگئی ہے یا بانجھ ہوگئی ہے جس میں سیاست کے تانے بانے بُننے کی طاقت نہیں ہے۔اور شاید یہ اُسی کمزور اور گھٹیا سیاست کا نتیجہ ہے کہ آج شہریان دوسروں کے رحم و کرم پر بے کٙسی کے عالٙم میں مجبور و لاچار انسان کی طرح ہاتھ پھیلائے پڑے ہیں اور عرضیاں دے رہے ہیں کہ اشیاے خورد و نوش کے لیے راستے کھولے جائیں۔ *کسی کے رحم و کرم پر پٙلنے والی قومیں کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتیں۔* ہمارے شہر کو اب تک قیادت سنبھالنے والے ہم درد،انسانیت پرور لیڈر کی تلاش ہے جو ہماری ضرورتوں کو محسوس کرکے بروقت اُس کے انتظام میں لگ کر اُسے پورا کرسکے۔ویسے بھی ہماری لیڈر شِپ ماضی میں بھی اور حال میں کتنی مضبوط رہی ہے اور ہے،اِس کا اندازہ مشرقی اور مغربی قیادتوں کا تقابل کرکے بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔کہ مغربی علاقے میں بڑے سے بڑے حادثات ہوجاتے ہیں مشرقی سمت والوں کو کوئی خبر تک نہیں ہوتی۔اور مشرقی علاقے میں کسی کو ٹٙھسکا بھی لگ جائے تو انتظامیہ پورے گھر والوں کو لے کر چلی جاتی ہے یہ فرق کمزور اور مضبوط لیڈر شِپ کا ہے۔خدارا اہل سیاست اپنے جھگڑوں کو بھول کر سیاست کے میدان میں خود کو مضبوط کریں۔اور اِس کام کو قوم کی ضرورت سمجھتے ہوئے متّحد ہوکر پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کریں۔تاکہ آنے والی نسلیں ہمارے کیے ہوئے کاموں پر کاربند رہ کر عزت کے ساتھ سر اٹھا کر غیروں کے شانہ بشانہ چل سکے۔
ہماری بھولی بھالی عقل کی ماری عوام سے بھی گزارش ہے کہ وہ اِن مطالبات کو سمجھیں دیوانگی کا لبادہ اتار کر ہوش میں آئیں۔کب تک ہم سنڈاس کی تعمیرات،روڈ کی چِپّی،گٹر کی درستگی پر غبارے کی طرح پھولتے رہیں گے؟کیا اہل سیاست سے اِس کا بات مطالبہ نہیں ہوسکتا کہ وہ مذکورہ دونوں مارکیٹ کے ساتھ ساتھ شہر کے مشرقی علاقے میں *آئی سی یو ہاسپیٹلس،کالیجیس،مٙول،بڑے بڑے گارمینٹس* کا قیام عمل میں لائیں؟جہاں ہماری ضرورتیں پوری ہوں۔وہ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو ایسے لوگوں کو قیادت سنبھالنے کا کوئی حق بھی نہیں ہے۔ایسے ناکارہ لیڈروں کے اندر اگر غیرت ہو تو خود سے معزول ہوجانا چاہئے ورنہ قوم کی ضرورتوں کو محسوس کرکے اسے پورا کرنا چاہئے۔
بِلا تحریف کیے اپنی قوم کے مفاد کی خاطر اِس تحریر کو ارباب اقتدار تک پہنچا کر اِسے ایک تحریک بنادیں۔
(جاری)
21/04/2020