گیت
لغت میں گیت سے مراد ’’راگ‘‘، ’’سرور‘‘ اور’’نغمہ‘‘ کے ہیں اس لیے گیت کو گانے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔
گیت کا گہرا تعلق موسیقی سے ہے اس لیے اس میں سُر اور تال کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
گیت کو گایا جاتا ہے اور انسانی آواز جو کہ سُر میں ادا کی جاتی ہے، اس کے ساتھ آلات موسیقی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
بعض گیتوں میں آلات موسیقی کا استعمال ممنوع ہوتا ہے ۔
گیت کی قسمیں :
لطیف گیت، کلاسیکی گیت، پاپ گیت یا پھر لوک گیت۔
گیتوں کی درجہ بندی موسیقی کی صنف اور گیت کے مقصد کے تحت بھی کی جاتی ہے
جیسے ڈانس، ریپ، جاز، کنٹری وغیرہ۔
بہ طورِ مثال بیکل اتساہی کاگیت
’’میں کس کے گیت لکھوں ‘‘سے دوبند
صحرا صحرا من کا چرچا ، گلشن گلشن جنگ
میں کس کے گیت لکھوں
ڈالی ڈالی پھول پھول پر کروٹ لیں انگارے
شبنم شبنم ، پتّی پتّی ، شعلے بانہہ پَسارے
سانسوں سانسوں قید ہے خوشبو ، آنکھوں آنکھوں رنگ
میں کس کے گیت لکھوں
بنجر بنجر جشنِ بہاراں ، کھیت کھیت ویرانے
جھونپڑیوں میں پیاس چھلکتی محلوں میں پیمانے
باہر باہر چم چم چمکے بھیتر بھیتر زنگ
میں کس کے گیت لکھوں
گیت کسی بھی بحر میں لکھا جا سکتا ہے لیکن عموماً چھوٹی بحریں ہی استعمال کی جاتی ہیں۔
اُردو میں گیت کی روایت امیر خسرو کے عہد سے مانی جاتی ہے۔
امیر خسرو نے راگ راگنیوں کے ساتھ گیت کو پروان چڑھانے کے لیے راگوں کو ایجاد بھی کیا تھا ۔
گیت نگار شعرا:
امیر خسرو ، بہادر شاہ ظفر، حسرت موہانی، ساغر نظامی، ساحر لدھیانوی ، شکیل بدایونی ، جاں نثار اختر ، ندا فاضلی ، جاوید اختر وغیرہ ۔