ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesISLAMIC KNOWLEDGE
کیایہ ضروری ہے کہ گیہوں یا گیہوں کی قیمت کے مطابق ہی صدقہ فطر دیا جائے؟
کیایہ ضروری ہے کہ گیہوں یا گیہوں کی قیمت کے مطابق ہی صدقہ فطر دیا جائے؟
کھجور،منقی یا اس کی قیمت کیوںصدقہ نہیں کی جاتی اور نہ ہی اس کی ترغیب دی جاتی ہے ؟
از:عطاءالرحمن نوری ،مالیگاﺅں(ریسرچ اسکالر)
دین اسلام نے ہر لمحہ غریب پروری، مفلسوں کی مدد اور یتیموں اور مسکینوں کی فریاد رسی کا درس دیا ہے، خصوصا عید کے دن انہیں نہیںبھولنا چاہیے۔ اسی لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے عید کی نماز ادا کرنے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم فرمایا تاکہ مسلمان اس خوشی کے موقعہ پر اپنے غریب بھائیوں کو بھی یاد رکھیں اور اپنی خوشی میں انہیں بھی شریک کر لیں۔ صدقہ فطر ہر مسلمان آزاد مالکِ نصاب پر جس کی نصاب حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہو، واجب ہے۔ اس میں عاقل بالغ ہونے کی شرط نہیں۔ نابالغین کا صدقہ ان کے ولیوں پر واجب ہے۔ عید کے دن صبحِ صادق طلوع ہوتے ہی صدقہ فطر واجب ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جو صبح صادق کے بعد پیدا ہوا یا کافر تھا مسلمان ہوا یا فقیر تھا مالکِ نصاب ہوا تو اس پر بھی صدقہ ¿ فطر واجب ہے۔صدقہ ¿ فطر انہیں کو دینا جائز ہے جن کو زکوٰة دینا جائز ہے، جن کو زکوٰة نہیں دے سکتے ،انہیں فطرہ بھی نہیں دے سکتے۔ (بہارِ شریعت)
ماہِ رمضان کے آخری عشرے میں یہی سنا اور مختلف مساجد میں یہی پڑھا کہ گیہوں ادا کیا جائے یا اس کے عوض رقم۔عوام وخواص کو اسی کی ترغیب بھی دی جاتی ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاصرف دو کلو دس گرام گیہوں دینا ہی کافی ہے یا یہ کم سے کم مقدار بیان کی گئی ہے ؟ ایک متوسط آدمی بھی سوا دو کلوگیہوں صدقہ کرے اور کروڑ پتی بھی۔ایک عام آدمی بھی پچاس روپے فی ممبر کے حساب سے صدقہ دے اور لکھ پَتی بھی۔کیا صرف سوا دوکلو گیہوں پر اکتفا کر لینا کافی ہے ؟اگر ایسا ہے تو امیرو غریب کے صدقہ میں کیا فرق باقی رہ جائے گا؟حالانکہ فقہ کی کتابوں میں اور صحابہ کی حیات میں منقّٰی /کشمش(جو اس وقت کافی مہنگا اور قیمتی تھا)،کھجور،جَواور گیہوں کا ذکر صدقہ فطر کی ادائیگی کے طور پر ملتا ہے۔حضرت ابوسعیدخدری بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم ایک صاع(چار کلو گرام) طعام یا ایک صاع (چارکلو) کھجور یں یا ایک صاع (چارکلو) جَو یا ایک صاع (چار کلو) کشمش صدقہ فطر ادا کرتے تھے۔ جب حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیاتو گندم آگیا۔انہوں نے فرمایاکہ میری رائے میں نصف صاع (دو کلو) گندم ان کے چار کلو کے برابر ہے۔ (صحیح بخاری،کتاب الزکوة،باب الصدقة الفطر صاع من تمر)اس ضمن میں بخاری ،ترمذی اور ابوداﺅد شریف میں مزید احادیث موجود ہیں۔
مذکورہ حدیث مبارکہ پر غور فرمائیں کہ جَو،کھجور اور منقّٰی لوگ دیتے تھے تو چار کلو مگر حضرت امیر معاویہ نے گیہوں کو دو کلو ہی ادا کرنے کا حکم دیا۔تب سے آج تک ہر خاص وعام دو کلو گیہوں پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ آخر حضرت امیر معاویہ نے ایسا حکم کیوںدیا؟اس کا سبب یہ ہے کہ حجاز مقدس میں گیہوں کی کاشت نہیں ہوتی تھی،یعنی عرب میں گیہوں درآمد کیا جاتا تھااور درآمد کی ہوئی چیزیں کاشت کی جانے والی چیزوں کے مقابلے میں مہنگی ہوتی ہیں ۔مطلب یہ ہواکہ عرب میں گیہوں کے دام کھجور کے مقابلے میں زیادہ تھے۔اس لیے لوگ جتنی رقم میں چار کلوکھجور اور منقّٰی خریدتے تھے اتنی قیمت میں یا اس سے زیادہ کی قیمت میں صرف دو کلو گیہوں ملتا تھااور گیہوں کو خریدنا ہر ایک کی دسترس میں نہیں تھا۔مگر حضرت امیر معاویہ کے حکم سے ایک قیمتی اناج غریبوں کے حصے میں پہنچنے لگا ۔یعنی آپ کا دو کلو گیہوں مختص کرنا اس دور کی ضرورت اور تقاضہ تھا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب بھی وہی ضرورت اور تقاضہ قائم ہے؟اگر نہیں تو پھر وہی طریقہ کیوں برقرار ہے؟جب کہ ہمارے ملک ہندوستان میں گیہوں وافر مقدار میں ہوتا ہے اور کافی سستا بھی۔اتنا سستا کہ ایک لیٹر دودھ کی قیمت میں سوا دوکلو گیہوں خریدا جاسکتا ہے جب کہ گیہوں کے برعکس کھجور،کشمش وغیرہ مہنگاہے۔کیایہ ضروری ہے کہ گیہوںیا گیہوں کی قیمت کے مطابق ہی صدقہ فطر دیا جائے؟کیوں عجوہ کھجور یا اس کی قیمت صدقہ نہیں کی جاتی ؟اگر عجوہ کھجور نہیں دے سکتے تو ماہ رمضان میں جو جس قسم کی کھجور استعمال کرتا ہے اسے کے مطابق صدقہ کریں۔
بہت ممکن ہے کہ راقم کی اس سوچ پر ہر کوئی متفق نہ ہو اور یہ جواب دیں کہ شریعت نے واجب کی ادائیگی کی ایک مقدار بتائی ہے ،اسی کے مطابق عمل کر کے بری الذمہ ہواجاتا ہے۔صدقہ فطرکے فلسفے اور مذکورہ جواب کی حیثیت کو سمجھنے کے لیے عیدالاضحی کی مثال سامنے رکھیں۔معمولی فرق کے ساتھ صدقہ فطر بھی واجب ہے اور قربانی بھی واجب۔اگر کسی پر قربانی واجب ہے تو پانچ دس ہزار کے بکرے میں واجب ادا ہوجائے گا اسے بیس تیس ہزار کا بڑا جانور خریدنے کی حاجت نہیں۔ مگر کیا ایسا ہوتا ہے ؟بقرعید کے ایام میں تو مارکیٹ کو ٹٹولا جاتا ہے ،باہر سے جانوروں کو منگوایا جاتا ہے ،جو جتنی بڑی شان کا مالک ،جتنا بڑا نام اورجتنا بڑا کاروبار ہو،ہر ایک اپنی حیثیت کے مطابق بڑا بکرا،اورایک کی جگہ کئی بھینسوں کو ذبح کرنا اور کئی دنوں تک کھاناپینا،دعوتیں کرنا،فریج میں اٹھا کر رکھنااوربقرعید کے گوشت سے محرم میں کباب بناناوغیرہ کو فرض تصور کیاجاتا ہے ۔یہاں کیوں شریعت کے بتائے ہوئے نسخے پر عمل کرکے اکتفا نہیں کیا جاتا؟ تمثیل کا لب لباب صرف اتنا ہے کہ اسلام نیکیوں میں آگے بڑھنے کی ترغیب دیتا ہے ،مختص چیزوں کو ادا کرکے بری الذمہ ہونے کی تعلیم نہیں۔اگر بقرعید میں ہزاروں روپیوں کو راہِ خدا میں خرچ کیا جاتا ہے تو یہاں پچاس سو روپے پر کیوں اکتفا کیا جارہاہے؟کہیں ایسا تو نہیں بقرعید میں نام ونمود،جاہ وحشمت اور اثر و رسوخ کا خیال ہے اور یہاں صرف ادائیگی کا ؟ جس طرح قربانی میں تنوّع ہے یعنی جو جس حیثیت کا مالک ہو اس کے مطابق جانور خرید کر راہ خدا میں قربان کرتا ہے اسی طرح صدقہ فطر میں بھی تنوّع ہے کہ جو جس حیثیت کا حامل ہو اس کے مطابق صدقہ فطر نکالے تاکہ غریب بھی ان چیزوں کی لذت سے لطف اندوز ہوں جن اشیا کا تصور بھی وہ نہیں کرسکتے۔
حضرت امیر معاویہ کی یہی سوچ تھی کہ عرب میں تو کھجوروں کی کاشت ہوتی ہے اس لیے گیہوں تقسیم کیا جائے،آج گیہوں ہر گھر میں موجود ہے تو کیوں نہیں اعلیٰ اور عمدہ کوالیٹی کی کھجوریں اور کشمش تقسیم کی جائیںیا ان کی قیمت؟مگر افسوس ! ہم سب اصل سے ہٹ کر مراسم اور رواج کے پیچھے چلنے لگے اور ناسمجھی میں وہ کررہے ہیں جو ہمیں نہیں کرنا چاہیے۔ہم اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کریں تاکہ اصل دین سے آگاہی ہمیں حاصل ہوسکے۔اس تحریر کا مقصد قطعی یہ نہیں ہے کہ امت میں انتشار وافتراق پیدا ہو،اس لیے خدارا خدارا! اسے کوئی بھی شخص بدعت یا کسی بھی قسم کا کوئی فتویٰ دینے کی کوشش نہ کریں،یہ صرف نیکی کی ترغیب کا ایک طریقہ ہے جس پر عمل کرکے صرف غریبوں کا فائدہ ہے اور امیروں کا کوئی نقصان بھی نہیں۔اللہ پاک عقل سلیم عطا فرمائے۔آمین
٭٭٭