رئیس المتغزلین جگر مرادآبادی کا مجموعہ کلام آتش گل کی ابتدائی دس غزلیں
Aatish-E-Gul az Jigar Muradabadi ki Ghazlen
رئیس المتغزلین جگر مرادآبادی کا مجموعہ کلام آتش گل کی ابتدائی دس غزلیں
(1)
ہر حقیقت کو باند از تماشا دیکھا
خوب دیکھا تیرے جلوؤں کو مگر کیا دیکھا
جستجو میں تری حاصلِ سودا دیکھا
ایک ایک ذرّے کا آغوشِ طلب وا دیکھا
آئینہ خانۂ عالم میں کہیں کیا دیکھا
تیرے دھوکے میں خو د اپنا ہی تماشا دیکھا
ہم نے ایسا نہ کوئی دیکھنے والا دیکھا
جو یہ کہہ دے کہ ترا حسنِ سراپا دیکھا
دلِ آگاہ میں کیا کہتے ہیں جگرؔ کیا دیکھا
لہریں لیتا ہوا اِک قطرے میں دریادیکھا
کوئی شائستہ و شایانِ غم دل نہ ملا
ہم نے جس بزم میں دیکھا اسے تنہا دیکھا
(2)
یادش بخیر جب وہ تصور میں آگیا
شعر و شباب و حسن کا دریا بہا گیا
جب عشق اپنے مرکزِ اصلی پہ آگیا
خود بن گیاحَسین دو عالم پہ چھا گیا
جو دل کا راز تھا اسے کچھ دل ہی پا گیا
وہ کر سکے بیاں، نہ ہمیں سے کہا گیا
ناصح فسانہ اپنا ہستی میں اڑا گیا
خوش فکر تھا کہ صاف یہ پہلو بچا گیا
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم وہ نہیں جن کو زمانہ بنا گیا
دل بن گیا نگاہ ،نگہہ بن گئی زباں
آج اِک سکوتِ شوق قیامت ہی ڈھا گیا
میرا کمالِ شعر بس اتنا ہے اے جگرؔ
وہ مجھ پہ چھا گئے میں زمانے پہ چھا گیا
(3)
کوئی جیتا کوئی مرتا ہی رہا
عشق اپنا کام کرتا ہی رہا
جمع خاطر کوئی کرتا ہی رہا
دل کا شیرازہ بکھرتا ہی رہا
غم وہ میخانہ، کمی جس میں نہیں
دل وہ پیمانہ کہ بھرتا ہی رہا
حُسن تو تھک بھی گیا لیکن یہ عشق
کارِ معشوقانہ کرتا ہی رہا
وہ مٹاتے ہی رہے لیکن یہ دل
نقش بن بن کر ابھرتا ہی رہا
دھڑکنیں دل کی سبھی کچھ کہہ گئیں
دل کو میں خاموش کرتا ہی رہا
تم نے نظریں پھیر لیں تو کیا ہوا
دل میں اِک نشتر اترتا ہی رہا
(4)
گدازِ عشق نہیں کم جو میں جواں نہ رہا
وہی ہے آگ مگر آگ میں دھول نہ رہا
نہیں کہ دل مرا وقفِ غم نہاں نہ رہا
مگر وہ شیوۂ فرسودۂ بیاں نہ رہا
زہے وہ شوق جو پابندِ این و آں نہ رہا
خوشا وہ سجدہ جو محدودِ آستاں نہ رہا
حجاب عشق کو اے دل بہت غنیمت جان
رہے گا کیا جو یہ پردہ بھی درمیاں نہ رہا
چمن تو برقِ حوادث سے ہو گیا محفوظ
مری بلا سے اگر میرا آشیاں نہ رہا
جنونِ سجدہ کی معراج ہے یہی شاید
کہ تیرے در کے سوا کوئی آستا ں نہ رہا
کمالِ قرب بھی شاید ہے عین بعد جگرؔ
جہاں جہاں وہ ملے میں وہاں وہا ں نہ رہا
(5)
دل کو سکون، روح کو آرام آ گیا
موت آگئی کہ دوست کا پیغام آگیا
جب کوئی ذکرِ گردشِ ایّام آگیا
بے اختیار لب پہ ترا نام آگیا
غم میں بھی ہے سرور وہ ہنگام آگیا
شاید کہ دورِبادۂ گلفام آگیا
دیوانگی ہو ، عقل ہو ، امید ہو کہ یاس
اپنا وہی ہے وقت پہ جو کام آگیا
دل کے معاملات میں ناصح شکست کیا
سو بار حسن پر بھی یہ الزام آگیا
صیّاد شادماں ہے، مگر یہ سوچ لے
میں آگیا کہ سایہ تہہ دام آگیا
دل کو نہ پوچھ معرکۂ حسن و عشق میں
کیا جانیے غریب کہاں کام آگیا
یہ کیا مقام ِ عشق ہے ظالم کہ اِن دنوں
اکثر ترے بغیر بھی آرام آگیا
احباب مجھ سے قطع تعلق کریں جگرؔ
اب آفتابِ زیست لبِ بام آگیا
(6)
شعر و نغمہ، رنگ و نکہت، جام وصہبا ہو گیا
زندگی سے حسن نکلا اور رُسواہو گیا
اور بھی آج اور بھی ہر زخم گہرا ہو گیا
بس کر اے چشمِ پشیماں کام اپنا ہو گیا
اس کو کیا کیجیے زبانِ شوق کو چپ لگ گئی
جب یہ دل شائستہ عرضِ تمنا ہو گیا
اپنی اپنی وسعتِ فکر و یقیں کی بات ہے
جس نے جو عالم بنا ڈالا وہ اس کا ہو گیا
ہم نے سینے سے لگایا دل نہ اپنا بن سکا
مسکرا کر تم نے دیکھا دل تمہارا ہو گیا
میںنے جس بت پر نظر ڈالی جنونِ شوق میں
دیکھتا کیاہوں وہ تیرا ہی سراپا ہوگیا
اُٹھ سکا ہم سے نہ بارِ التفاتِ ناز بھی
مر حبا وہ، جس کو تیرا غم گوارا ہو گیا
چمن میں جس روش سے ہو کے گزرے بے نقاب
دفعتاًہر ایک گُل کا رنگ گہرا ہو گیا
شش جہت آئینۂ حسنِ حقیقت ہے جگرؔ
قیس دیوانہ تھا ، محوِ روئے لیلیٰ ہو گیا
(7)
رو بروئے دوست ہنگامِ سلام آہی گیا
رخصت اے دیر و حرم ، دل کا مقام آہی گیا
منتظر کچھ رند تھے جس کے وہ جام آہی گیا
باش اے گردوں کہ وقتِ انتقام آہی گیا
ہر نفس خود بن کے میخانہ بجام آہی گیا تو
یہ جس سے کانپتی تھی وہ مقام آہی گیا
اللہ اللہ یہ مری ترکِ طلب کی وسعتیں
رفتہ رفتہ سامنے حُسنِ تمام آہی گیا
اوّل اوّل ہر قدم پر تھیں ہزاروں منزلیں
آخر آخر اِک مقامِ بے مقام آہی گیا
(8)
التفاتِ چشمِ ساقی کی سُبک تابی نہ پوچھ
میں یہ سمجھا جیسے مجھ تک دورِ جام آہی گیا
عشق کو تھا کب سے اپنی خشک دامانی کا رنج
ناگہاں آنکھوں کو اشکوں کا سلام آہی گیا
ہر نگہہ پر بندشیں، اِ ک اِک نفس کی پُر سشیں
ہو شیار اے عشق، وہ نازک مقام آہی گیا
اہلِ دنیا اور کُفرانِ زمانہ تا بہ کے
خود زمانہ بن کے تیغِ بے نیام آہی گیا
شوق نے ہر چندصدہا تفرقے ڈالے مگر
زندگی کو راس دُزدِ ناتمام آہی گیا
صحبت رنداں سے واعظ کچھ نہ حاصل کر سکا
بہکا بہکا سا مگر طرزِ کلام آہی گیا
بے جگرؔسونا پڑا تھا مدّتوں یہ میکدہ
پھر وہ دریا نوش رندِ تشنہ کام آہی گیا
(9)
یک لحظ خوشی کا جب انجام نظر آیا
شبنم کو ہنسی آئی دل غنچوں کا بھر آیا
یہ کون تصور میں ہنگامِ سحر آیا
محسوس ہوا جیسے خود عرش اُتر آیا
خیر اس کو نظر آیا، شراس کو نظر آیا
آئینے میں خود عکسِ آئینہ نظر آیا
اس بزم سے دل لے کر کیا آج اثر آیا
ظالم جسے سمجھے تھے، مظلوم نظر آیا
اُس جانِ تغافل نے پھر یادکیا شاید
پھر عہد محبت کا ہر نقش اُ بھرآیا
گلشن کی تباہی پر کیوں رنج کرے کوئی
الزام جو آنا تھا، دیوانوں کے سر آیا
یہ محفلِ ہستی بھی کیا محفلِ ہستی ہے
جب کوئی اٹھا پردہ میں خود نظر آیا
(10)
کچھ رات رہے ساقی جو اٹھا کہتا ہوا ہر میخوار اٹھا
کیا بات ترے میخانے کی، جو رند اٹھا ہوشیار اٹھا
مطرب ! وہ کہاں اب بزمِ طرب ، تکلیف ِ رہِ پُرخار اُٹھا
ساقی یہ زبانِ عیش نہیں ،شیشہ نہ اٹھا ، تلوار اٹھا
شاعر کو تھا جس کا اندیشہ وہ فتنہ بھی آخر کار اٹھا
اِک طیش میں ہر مظلوم بڑھا،اِک غیظ میں ہر فن کار اٹھا
کچھ اپنی گرہ سے کھو کر ہی اس بزم سے دل ناچار اٹھا
حالاں کی بہت بیدار رہا، ہر چند بہت ہشیار اٹھا
کوئی نہ اٹھا میخانے سے شائستۂ میخانہ بن کر
یہ مست شرابِ عجز اٹھا ،وہ مست مئیِ پندار اٹھا
زنداں میں تو مجھ کو ڈال دیا ،اے حاکم زنداں تونے مگر
پرواز مری جو روک سکے، ایسی بھی کوئی دیوار اٹھا