سیزر:ولادت کے وقت کیاجانے والاآپریشن یاڈاکٹرس کی کمائی کا بہترین ذریعہ؟
سیزر:معنی ومفہوم،تاریخی حقائق،اسباب ووَجوہات اور موجودہ حالات
از:عطاءالرحمن نوری،(ریسرچ اسکالر)مالیگاوں
سیزیرین سیکشن یا سی سیکشن ایک جراحی کا عمل ہے۔سیزر ولادت کے وقت کیاجانے والا آپریشن ہے۔اس آپریشن کو سیزر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ روم کے بادشاہ کے یہاں بچے کے ولادت کی خوش خبری آئی، نجومیوں نے پہلے ہی بیٹے کے آنے کی خبر دے دی۔اکلوتے ہونے کی وجہ سے بادشاہ نے پیدائش سے پہلے ہی بچے کا نام ’’جولیس سیزر‘‘(Julius Caesar) رکھا اورولی عہد کے مرتبے پر فائز کر دیا۔جب زچگی کا وقت قریب آیا تو ماہر ترین دائیاں بلائی گئیں تا کہ زچگی کے عمل کو آسان اور محفوظ بنایا جا سکے۔یہ زچگی ماں کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہوئی اور بچہ ماں کے کولہے کی ہڈی کے تنگ ہوجانے کی وجہ سے نارمل ڈیلیور نہ ہو پایا۔درد کی شدت سے جولیس سیزر کی والدہ کی حالت انتہائی تشویشناک ہوئی تووالد(روم کے بادشاہ )نے دائیوں کو پیغام بھجوایا کہ میرے تخت کے وارث کو کچھ ہوا تو تم سب کا زن بچہ کولہو میں پلوا دیا جائے گا۔ اسی دوران سیزر کی والدہ نے آخری سانس لی اور ختم ہوگئی،اب کوئی اور راستہ باقی نہ تھا، سب سے بڑی دایا نے ایک بہترین فیصلہ کیا اور وقت ضائع کرنے کی بجائے خنجر سے ملکہ کا پیٹ چاک کر کے زندہ بچہ باہر نکال لیا ۔اس زمانے میں بچہ پیدا ہوتے ہوئے ماں یا بچہ یا دونوں کا جان سے گزر جانا عام بات تھی لیکن سیزر کے معاملے میں ولی عہد کی جان بچانے کے لیے یہ طریقہ استعمال کیا گیا ۔اس طرح سیزر کی پیدائش کا ذریعہ بننے والا طریقہ کار دنیا کی ان گنت ماں اور نوزائیدہ بچوں کی جان بچانے کا سبب بن گیا۔اس طریقے وضع حمل کو جولیس سیزر کے نام کی مناسبت سے’’ سیزر‘‘اورایسے بچے کو’’سیزیرین‘‘ کہا جانے لگا۔دنیا میں پہلا سیزیرین جو ریکارڈ پر ہے وہ 320 قبل مسیح میں ہندوستان کے موریا سمراٹ’’ بندوسرا‘‘ کی پیدائش کا ہے ۔بندوسرا کی پیدائش سے کچھ وقت قبل اس کی ماں نے زہر پی لیاتھا، اس وقت چانکیا نے خنجر استعمال کرکے بندو سرا کو ماں کا پیٹ چاک کرکے نکالا۔ بندو سرا، مشہور شہنشاہ اور موریا خاندان کے بانی مہاراجہ چندرا گپتا موریا کا بیٹا اور مہاراجہ اشوک کا باپ تھا۔
سی سیکشن آپریشن کی وجوہات
سیزر میں کم از کم دو زندگیاں شامل ہوتی ہیں یعنی ماں اور بچہ۔ دونوں کے حوالے سے الگ الگ وجوہات ہو سکتی ہیں۔
ماں کی وجوہات
(1)ماں بہت کم عمر ہو یا ضعیف العمر۔
(2)ماں کی کولہے کی ہڈی کا تنگ ہونا۔
(3) ماں کا بلڈ پریشر انتہائی زیادہ ہونایا دورے پڑنا۔اس میں بلڈ پریشر ہائی ہوتا ہے جسم پر سوجن اور پیشاب میں پروٹین کا اخراج ہوتا ہے۔یہ انتہائی سیریس ایمرجنسی ہے جو ماں اور بچے کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔
(4) پچھلے دو یا دو سے زیادہ آپریشن کاہونا۔
(5)پرانے زخم میں درد کا ہونا۔
(6)ماں میں درد کو برداشت کرنے کی ہمت ختم ہو جانایاتھک جانا۔
(7) درد کے باوجود رحم کا منہ نہ کھلنا۔
(8) پیدائش کے راستے میں رکاوٹ کا ہونا۔
(9) آنول کا آگے آ جانا۔
(10) ماں کی خواہش پر بھی آپریشن کیا جاتا ہے جب وہ نارمل ڈیلیوری کروانا ہی نا چاہے۔
بچہ کی وجوہات
(11)پہلا بچہ اُلٹا ہونا۔
(12) بچے کی پوزیشن ترچھی یا مکمل ٹیڑھی ہونا۔
(13) بچہ کی دل کی دھڑکن کا بہت تیز یا بہت مدھم ہو جانا۔
(14) بچے کا رحم میں پاخانہ کر دینا۔
(15) بچہ اگر زیادہ پل جائے یعنی زیادہ وزن اور بڑے سائز کا ہو۔
(16)بچے کا سر بڑا ہویا اس کے سر میں پانی ہو، ایسا عموما شوگر کے مریضوں میں ہوتا ہے یعنی بچہ کا سائز زیادہ بڑا ہو جاتا ہے۔ عام طور پر بچے ڈھائی سے تین کلو تک کے پیدا ہوتے ہیں لیکن شوگر مریض کا بچہ چار پانچ کلو تک کا بھی ہو سکتا ہے ۔
(17)بچے کا چہرہ سامنے ہونا ۔
(18)بچہ قیمتی ہونا۔
ویسے تو ہر بچہ قیمتی ہوتا ہے لیکن سات بیٹیوں کے بعد پیدا ہونے والا پہلا بیٹا یا شادی کے بیس سال بعد ملنے والی بیٹی ، چار پانچ حمل ضائع ہو جانے کے بعد ملنے والی اولاد کی کیا وقعت ہے ؟ یہ سب وہی جان سکتے ہیں جو اس سے گزرے ہیں ۔
دیگر وجوہات
ماں اور بچے کے علاوہ کچھ چیزیں اور بھی اہم ہیں ۔
(19) بچے کی تھیلی میں پانی کی مقدار بہت کم یا بہت زیادہ ہونا۔
(20) فوڈ پائپ کا بچے کی گردن میں لپٹ جانا یا کارڈ کا ٹوٹ یا اُکھڑ جانا ۔
(21) خون کا ضائع ہونا۔
(22)کارڈ کا بچہ کی پیدائش سے پہلے رحم سے باہر نکل آنا۔
(23)ماں کے رحم اور بچے کی پوزیشن کا ایک دوسرے کی سیدھ میں نہ ہونا۔
(24)درد کی حالت میں بچے کا غلط رُخ پر گھوم جانا جس کی وجہ سے نارمل کے طور پر شروع کیا جانے والا کیس سیزیرین میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
(25)ماں کی تکلیف کی شدت اور طوالت سے اقربا میں بے چینی کا پھیلنا۔
(26) مریض یا اقربا کا ڈاکٹر کی صلاحیت پر عدم اعتماد اور اس کا اظہار۔
(27) میڈیا کا ہر جگہ پہنچ جانا اور ہمیشہ ڈاکٹر کے خلاف پارٹی بننا، جس سے ڈاکٹر کو عزت خراب ہونے کا ڈر رہتا ہے۔ان وجوہات کی وجہ سے کسی برے نتیجہ سے بچنے کے لیے بھی آپریشن کا فیصلہ نسبتاً جلد لے لیا جاتا ہے۔
٭خلاصہ
مذکورہ اسباب ووجوہات کی موجودگی میں سیزر ہونا لازمی امر سمجھا جا سکتا ہے مگر روپیوں کی چمک دمک نے ڈاکٹر حضرات کو نابینا کر دیا ہے، اب ڈاکٹرس سند لیتے وقت کیے گئے خدمت خلق اور انسانیت کے وعدے کو بھی فراموش کرچکے ہیں، ایسے پختہ شواہد موجود ہیں کہ نارمل ڈیلیوری کو محض روپیوں کی لالچ میں سیزر کیا جاتا ہے۔ مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے مریض یا مریض کے رشتے داروں کو بہت زیادہ ڈر اور خوف میں مبتلا کر دیا جاتا ہے، زچہ یابچہ کی جان کوخطرہ بتایا جاتا ہے، ایسے نازک حالات میں رشتے دار سیزر کی اجازت دے دیتے ہیں اور اس پر اُفتاد یہ کہ پہلے ایک فارم پُر کروایا جاتا ہے کہ دورانِ آپریشن اگر کسی کی جان چلی جائے تو اس کے ذمہ دار ڈاکٹرس نہیں ہوں گے۔ راقم خود سال 2008ء سے فارماسسٹ کے فرائض انجام دے رہا ہے اور اس راہ کے پیچ وخم سے بخوبی واقف ہیں اس لیے اربابِ علم اور اہل سیاست سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ منصوبہ بند طریقے سے ایسے ڈاکٹرس کی جانچ کروائی جائے اور قوم اور انسانیت کو نقصان پہنچانے والے ایسے لالچی، مفاد پرست اور دغاباز لوگوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے، قانونی کاروائی کی جائے اور ایسے سلاٹر ہاؤس (اسپتالوں) کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ جن کے ساتھ ایسی گھناؤنی سازش ہوچکی ہے ان مریضوں کو بھی سامنے آکر پرنٹ میڈیا، الکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر نام نہاد ڈاکو صفت ڈاکٹروں کو بے نقاب کرنا چاہیے جو محض روپیوں کی ہَوس میں خواتین کی زندگیوں سے کھیل کر انھیں زندگی بھر کا زخم دے رہے ہیں۔ اس قدم کے لیے ہر شہری کو تیار ہونا ہوگا، علمائے کرام اپنے خطابات میں عوام کی رہنمائی کریں اور ڈاکٹرس کی اصلاح کریں اور اثرورسوخ رکھنے والے حضرات سخت ایکشن لینے کی کوشش کریں۔