Afsana

دروازے از: سید محمد اشرف

Darwaze Afsana by Syed Md Ashraf

دروازے

از:سید محمد اشرف

اُس دِن آسمان پر کہرا چھایا ہوا تھا اور گلیوں میں بھی سفید چمکتا کہرا دھیرے دھیرے بہہ رہا تھا۔ سردی کچھ کم ہو گئی تھی۔ ہوائیں کہرے کے مرغولوں کو اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے تھیں۔ دریا کنارے اس قصباتی بستی کے نسبتاً کم گھنی آبادی والے حصے میں کہرے کو چیرتا وہ شخص جس کے چہرے پر داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور لباس ملگجا تھا، گلی کے دہانے سے آگے بڑھا۔ وہ رُک کر کبھی زمین کودیکھتا کبھی آسمان کو۔ پھر اُس نے مکانوں کے در و دیوار کو دیکھا اور پھر ہاتھ بلند کر کے کہرے کو محسوس کیا۔ چہرے پر ہاتھ پھیرا تو نمی کا احساس ہوا۔ اس نے ایک لمحے کو سوچا یہ نمی باہر سے آئی ہے کہ اندر سے۔ پھر ایک نعرے کی طرح پڑھا۔

آنکھیں رو رو کے سجانے والے
جانے والے نہیں آنے والے

وہ مسلسل اسی شعر کا وِرد کرتا رہا اور گلی میں آگے کی طرف بڑھتا رہا۔ اچانک ایک دروازے کا پَٹ کُھلا۔ایک عورت نے اِک ذرا سا چہرہ نکالا اور شعر پڑھتے اس شخص کو دیکھا جو اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ چہرا اندر کر کے وہ ذرا بلند آواز میں بولی۔
’’شاہد بیٹے – اس بد نصیب کو باہری کمرے کے چبوترے پر لاکر بٹھالو۔‘‘
’’وہ بد نصیب کیوں ہے امّاں۔‘‘ ایک بچے کی آواز آئی تھی۔
کچھ دیر خاموشی رہی۔
’’اس کا کوئی قریبی عزیز مر گیا ہے شاید۔‘‘
بچے نے مکان سے نکل کر آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھاما۔ وہ شخص مکان سے آگے نکل چکا تھا۔
’’امّاں کہتی ہیں آپ چبوترے پر آکر بیٹھ جائیے۔‘‘
’’کیوں۔‘‘ یہ پوچھتے وقت بھی اس نے بچے کی طرف نہیں دیکھا تھا۔
’’شاید پانی پلائیں گی۔‘‘ وہ فقیروں کو پانی پلاتی ہیں اور اگر بھوکے ہوں تو کھانا کھلاتی ہیں۔ چلیے آئیے نا۔‘‘ بچہ ضد کرنے لگا۔
’’لیکن میں بھکاری نہیں ہوں۔ تھیلا دیکھو۔ اس میں میرے کئی لباس ہیں اور روٹیاں بھی ہیں۔ یہ میں نے اپنی محنت سے کمائی ہیں۔‘‘
بچہ اس کا ہاتھ تھامے رہا۔ ماں باہر کے کمرے کی کھڑکی پر پٹری چلمن کے پیچھے آکر کھڑی ہو گئی تھی۔
’’کون ہے آپ کا جو چلا گیا ہے اور اب نہیں آئے گا؟۔‘‘
وہ بچے کا سوال سن کر چُپ رہا۔ ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر کہرے کے مرغولوں کو محسوس کرتا رہا۔
’’کب انتقال ہوا؟‘‘ بچے نے پوچھا–
’’خدا نہ کرے۔‘‘ وہ بے تابی کے لہجے میں بولا۔
’’آئیے‘‘۔ بچہ اسے تقریباً کھینچتا ہوا باہری کمرے کے سامنے چبوترے تک لایا۔
ماں نے دھیمے سے بچے کو اندر آنے کو کہا۔
ماں نے باہری کمرے کا دروازہ اندر سے کھول دیا تھا۔ بچہ اندر گیا اور سینٹھوں کا ایک مونڈھا لے کر بر آمد ہوا۔
’’اماں کہتی ہیں۔ اس پر بیٹھ جائیے۔‘‘
وہ شخص خاموشی سے مونڈھے پر بیٹھ گیا اور اپنا رُخ گلی کی طرف کرلیا۔ اس نے اپنا تھیلا گود میں رکھ لیا تھا۔
’’سلام علیکم!‘‘ عورت نے دھیمی آواز میں اُسے سلام کیا اور تب اسے معلوم ہوا کہ کھڑکی کی چلمن کے پیچھے بچے کی ماں ہے۔
اس نے آہستہ سے جواب دیا۔ گلی میں سناٹا تھا۔ شاید سب اپنے اپنے گھروں میں لحافوں میں دُبکے پڑے تھے۔
اس درمیان بچے نے اندر سے پانی کا بھرا ہوا کٹورہ لا کر دیا۔ اس نے آہستہ آہستہ تین گھونٹ میں پانی پیا۔ اس کے چہرے پر شکر گزاری کا جذبہ آیا۔ وہ مونڈھے کے ہتّھوں پر ہاتھ ٹیک کر اٹھنا چاہتا تھا کہ اندر سے کانپتی ہوئی آواز میں عورت نے کہا۔
’’سردی بہت ہے۔ کچھ دیر یہیں بیٹھئے۔‘‘
’’جی !۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’کھانا کھا لیجئے۔ آپ بھوکے ہوں گے۔‘‘
’’جی شکریہ- میں بھوکا نہیں ہوں۔‘‘
’’میرے شوہر کاروبار کے کام سے باہر گئے ہیں۔ کل واپسی ہوگی۔ وہ ہوتے تو میں آپ کو باہری کمرے کے اندر بٹھاتی۔‘‘
’’نہیں میں یہاں بھی ٹھیک ہوں۔‘‘
باہری کمرے سے اب بچے کے پہاڑے یاد کرنے کی آواز آرہی تھی۔
’’آپ کو کس بات کا افسوس ہے ، کیا کسی عزیز کا انتقال ہوا ہے۔؟‘‘
’’جی نہیں ۔ خدا نہ کرے۔‘‘اس نے تھوڑی دیر پہلے بھی یہ جملہ کہا تھا۔
’’پھر یہ گیت کیوں گاتے ہیں۔‘‘
’’نہیں یہ گیت نہیں غزل کا شعر ہے۔‘‘
’’یہ شعر کیوں گاتے ہیں۔؟‘‘
’’گاتا نہیں، یہ شعر پڑھتا ہوں۔‘‘
’’بار بار اتنی درد بھری آواز میں کیوں پڑھتے ہیں؟ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں۔؟‘‘
وہ شخص خاموش رہا۔
’’آپ یہ شعر کیوں پڑھتے ہیں۔؟‘‘
وہ خاموش رہا۔ اس نے سر جھکا لیا تھا۔
’’آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ اس قصبے میں کیسے آنا ہوا۔؟‘‘
’’میں آگرہ کے پاس ایک قصبے کا رہنے والا ہوں۔ میں برسوں سے اسی طرح شہروں شہروں قصبوں قصبوں گھومتا رہا ہوں۔ کسی شہر کسی قصبے میں دوبارہ نہیں جاتا۔‘‘ پھر کچھ رُک کر بولا۔
’’جب رِزق ختم ہو جاتا ہے (اس نے تھیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا)تو کسی شہر یا قصبے کے چوراہے پر صبح سویرے مزدوروں کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہوں۔ مزدوری کرتا ہوں اور رِزق کا انتظام کر کے آگے بڑھتا ہوں۔‘‘
’’اس شہر کا نام جانتے ہیں۔‘‘
’’نہیں معلوم نہیں کیا۔ آج ہی آیا ہوں۔‘‘
آپ کیوں ایسے واہی تباہی گھومتے ہیں۔؟‘‘
وہ پھر خاموش بیٹھا گلی میں چکراتے کہرے کو دیکھتا رہا۔
’’آپ کو کس کے جانے کا غم ہے۔‘‘
’’کوئی تھا۔‘‘ وہ بمشکل بول سکا۔
’’کوئی رشتے دار؟‘‘
’’نہیں – عزیز۔۔۔‘‘
’’کوئی لڑکی۔؟‘‘
وہ سرجھکائے بیٹھا رہا۔
’’کون تھی وہ آپ کی۔؟‘‘
’’پڑوس میں رہتی تھی۔‘‘
’’پھر کیا ہوا۔؟‘‘
’’اُس کی شادی ہو گئی۔‘‘
’’آپ اس سے شادی کرنا چاہتے تھے۔؟‘‘
’’جی‘‘۔
’’تو اس سے کہتے بھاگ کر آجائے پھر نکاح کر لیتے۔‘‘
’’اس میں بد نامی ہوتی۔‘‘
’’کس کی۔؟‘‘
’’اُس کی‘‘
یہ سن کر ماں بچے کو ڈانٹے لگی تھی۔ ڈانٹتے ڈانٹتے اس کی آواز بھرّا گئی۔
’’میں اب جاسکتا ہوں؟۔آپ سے میں نے جتنی باتیں کر لیں اس سلسلے میں اتنی باتیں اپنے والد کے علاوہ کسی سے نہیں ہوئیں۔‘‘ اس کے چہرے پر پشیمانی کا سایہ لرز رہا تھا۔
’’کیا آپ اپنے والد سے بھی اس لڑکی کے بارے میں باتیں کرلیتے تھے؟۔‘‘
’’اُن سے ہی کرتا تھا۔ والدہ گزر چکی تھیں۔‘‘
’’سردی کا موسم ہے۔ جب دھوپ چڑھ جائے تب جانے کی جلدی کیجئے گا۔ تب تک مجھے اپنے بارے میں سب بتائیے۔ آج جب پہلی بار آپ کے شعر پڑھنے کی آواز آئی تو میں سمجھ گئی تھی کہ کوئی غمزدہ ہماری گلی میں آیا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص کسی کو برسوں نہ بھول سکے اور اپنی زندگی کو مسافروں کی طرح گزار دے؟۔‘‘
’’میں اپنے قصبے میں شیشہ گری کا کام کرتا تھا۔ فجر کے وقت سے بہت پہلے جاگ کر بھٹّی پر پہنچ جاتا تھا۔ ایک بڑے سے چھپّر نما کار خانے میں بڑی سی بھٹی ہوتی ہے جس کے گرد آٹھ کاریگر بیٹھ کر کام کر سکتے تھے۔ ان میں شیشے کو تپا کر شیشے کا تار کھینچا جاتا ہے۔ میں اپنے قصبے کا سب سے مشاق شیشہ گر تھا۔ شیشے کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو بڑی سی بھٹی میں تپا کر ان کا لوم بناتا تھا۔ پھر اس لوم سے برابر کا، بالکل برابر کا تار کھینچتا تھا۔ تار کھینچتے وقت تار کو بل دیا جاتا ہے تو میں بل دینے میں بہت ماہر تھا۔ اس بیچ پانی کے رنگ کے شیشے پر رنگ کی پٹّیاں چڑھائی جاتی تھیں۔ ہری، نیلی، لال اور پیلی اور انہیں رنگوں سے بہت سے دوسرے رنگ بن جاتے تھے۔ شیشے میں رنگ ملانے کے کام میں میری مہارت کی قصبے بھر میں دھوم تھی۔ دور دور کے لوگ میری اس مہارت سے واقف تھے۔ ہم لوگ آٹھ نو گھنٹے کام کرتے تھے۔ واپسی میں دوپہر کے وقت ظہر کے بعد جب میں اپنے گھر کے پڑوس کی گلی سے گزرتا تھا تو کام مکمل ہونے کی سر خوشی میں میلاد کا کوئی شعر پڑھتا جاتا تھا۔ ہمارے قصبے میں میلاد کا بہت رِواج تھا۔ کبھی کبھی میری بلند اور گونج دار آواز کی وجہ سے میلاد کی جماعت والے مجھے بھی اپنے ساتھ بٹھا لیتے تھے۔ ہم لوگوں کی کوشش ہوتی تھی کہ ہماری پڑھی ہوئی نعت کی طرز کسی فلمی گانے سے متأثر نہ ہو۔ میں اس کام میں بہت ماہر ہوگیا تھا کہ فجر سے پہلے بھٹّی پر جانے کے بعد جب بھٹّی کے چاروں طرف فجر کی اذان کی آوازیں گونجتی تھیں تب پیکار ہمیں کام سے روک دیتے تھے اور جب اذان کی آوازیں قصبے کے سناٹے کو توڑتی ہوئی ایک نور جیسا راستہ بناتی ہوئی میرے کانوں میں آتیں اور آپس میں مدغم ہوتیں تو ایسا لگتا جیسے مدھم اور اونچے سروں میں کوئی نغمہ اُبھر رہا ہے جس کی طرز مجھے فوراً یاد ہو جاتی۔ جب میں میلاد پارٹی میں جاتا تو نعت کے شعروں کو اسی طرز پر بٹھاتا اور لوگ سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ کر مجھے سینے سے لگا لیتے۔ مجھے دو ہی شوق تھے ایک شیشہ گری اور ایک نغمہ گری۔ قصبے کے اسکول سے میں نے انٹر میڈیٹ پاس کیا تھا اور اردو والے ماسٹر صاحب سب سے زیادہ شوق سے مجھی کو پڑھاتے تھے۔
ایک دِن جب میں ظہر کے وقت گلی سے گزرتا ہوا اپنے گھر واپس آرہا تھا تو میں کوئی شعر گنگنا رہا تھا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ گلی کے ایک مکان کے دروازے کے پیچھے چوڑیاں بجی ہیں اور ایک کھنکتی ہوئی زیر لب ہنسی کی آواز- مجھے اندازہ نہیں ہو پایا کہ چوڑیاں بچنا کب بند ہوئیں اور ہنسی کی آواز کب شروع ہوئی۔ لیکن یہ دونوں آوازیں ایک مختصر وقفے کے لیے تھیں اور ان آوازوں میں ایک تسلسل بھی تھا اور تعلق بھی۔ اس مکان میں یہ کرائے دار نئے نئے آئے تھے۔
ظہر کا وقت واپسی کا مقررہ وقت تھا کیوں کہ بھٹّی کا کام فجر سے بہت پہلے شروع ہو جاتا تھا اور ہم لوگ لگ بھگ آٹھ گھنٹے کام کر لیتے تھے۔ پیکار ہم لوگوں سے اسی قدر کام چاہتے تھے۔ تو جب میں اگلے دن گلی کی راہ سے اپنے گھر کو جا رہا تھا تو پھر چوڑیاں بجیں۔ میں نے شعر پڑھنا بند کردیا تو چوڑیاں اس انداز سے بجیں گویا اصرار کر رہی ہوں کہ شعر پڑھنا روکا نہ جائے۔ میں دھیمے دھیمے گنگناتا ہوا آگے نکل گیا۔ لیکن یہ کسی لڑکی سے ادھوری ہی سہی، ملاقات کا پہلا سابقہ تھا۔ میرے بدن میں ایک عجیب ہلچل سی مچ گئی جسے میں نے استغفار پڑھ کر دفع کیا۔ گھر پہنچ کر میں نے کچھ ہی دیر اس معاملے پر سوچا ہوگا کہ ذہن نے تصدیق کی کہ پڑوس کی یہ نووارِد لڑکی مجھ سے مانوس ہو رہی ہے۔ ذہن کی اس تصدیق نے دِل کو جو مسرت دی اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
اب معمول یہ بن گیا کہ اس وقت کیوں کہ عموماً گلی میں کوئی نہیں ہوتا تھا اور میں حسبِ عادت اور اب حسبِ شوق کچھ اونچی آواز میں پڑھتا ہوا جاتا تھا۔ اگر میں مسلسل پڑھتا رہتا تو چوڑیاں صرف ایک بار بجتیں اور اگر میں سہواً یا عمداً رُک جاتا تو چوڑیاں دوبارہ بج کر اصرار کرتیں۔
میں ان چوڑیوں کے بجنے کی آواز سے جان چکا تھا کہ یہ خاندان یہاں کا ہی نہیں قرب و جوار کا بھی نہیں ہے۔ قرب و جوار میں ہماری ہی بھٹّی کی چوڑیاں پہنی جاتی تھیں اور ان کی آواز چوڑیوں کے موٹے ہونے کی وجہ سے ذرا ٹھس سی تھی۔ وہ کھنک نہیں تھی۔اَوَدھ علاقے میں ایسی چوڑیاں بنائی جاتی ہیں۔
ایک دِن جب میں حسبِ معمول کچھ پڑھتا ہوا واپس آرہا تھا تو دروازے کے پیچھے سے ایک ہاتھ نکلا اس میں حلوے کی دو قتلیاں تھیں۔ اگر کی خوشبو سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ شب برات کی نیاز کے حلوے کی قتلیاں ہیں۔میری ہتھیلی کو لمس دیے بغیر صرف قتلیوں کو میرے سپرد کر کے وہ ہاتھ اندر ہوگیا۔ وہ گورا ہاتھ تھا اور اس کے ناخُن گلابی تھے۔
پھر تو اکثر یہ ہوتا کہ میں جیسے ہی برابر سے نکلتا چوڑیاں بجنا شروع ہوتیں اور میں ان کے بجنے کی آواز سے پہچان جاتا کہ آج اس آواز میں مزید کچھ پڑھنے کا اصرار ہے یا میری ہتھیلیوں کو کھانے کی کوئی چیز ملنے والی ہے–
میں اُس کی آواز کبھی نہیں سن پایا کیوں کہ دروازے کے پیچھے ایک اوٹ کی دیوار تھی اور اس کے معاً بعد آنگن اور دالان تھے۔ وہ غالباً یہ خطرہ نہیں مول لینا چاہتی تھی کہ کوئی سن سکے کہ وہ کسی سے بات کر رہی ہے۔
اُن شیشم کے پرانے دروازوں کے دَلوں کے درمیان مہین مہین درزیں تھیں جن میں کبھی کبھی دو متحرک آنکھیں سفیدی سی مارتی نظر آتیں۔ کبھی کبھی آنکھ کی سیاہی بھی نظر آجاتی۔ میں کتنا ہی دھیمے دھیمے گزرتا، وہ سیاہ پتلیاں صرف اُتنی ہی دیر نظر آتیں جتنی دیر میں پلک جھپکتی ہے۔ لیکن خدا جانے مجھے کیوں ایسا محسوس ہوتا کہ ان پتلیوں کے چہرے پر جو ہونٹ ہیں وہ سرخ ہیں اور ان پر ایک نرم سی اپنائیت بھری مسکراہٹ ہے۔
میں دِن بھر ہرے نیلے لال اور پیلے اور ان رنگوں سے ملتے جلتے بیشمار رنگوں کو اپنے کام میں لاتا تھا اس لیے وہ تمام رنگ دِن بھر میرے ذہن میں گھومتے رہتے اور جب میں دوپہر کے وقت اس دروازے کے سامنے ہوتا تو اس کی درزوں سے جھانکتے اس لباس کو میں اپنے ذہن میں گھومتے بے شمار رنگوں سے اپنی مرضی کے موافق رنگ لیتا۔ میں دھیرے دھیرے اس بات پر بھی قادر ہو گیا تھا کہ پلک جھپکنے والے اس مختصر سے وقفے میں نظر آنے والے لباس کی پرچھائیں جیسی جھلک کو بیک وقت کئی رنگوں میں دیکھ سکتا تھا اور موسم کے مطابق وہ رنگ میری پسند کے ہوتے تھے۔ سرسراتے ہوئے لباس کی اس ایک جھلک کے لیے ہرا، کاہی، دھانی، آسمانی، فیروزی، گلابی اور کپاسی رنگ میرے بہت کام آتے۔ اکثر اپنے اس نئے فن پر مجھے حیرت انگیز مسرت کا احساس ہوتا اور اس مسرت کے احساس سے میرے چہرے پر ایک ایسی مسکراہٹ جم جاتی جِسے دیر تک دیکھتے رہنے سے میرے والد کے چہرے پر کچھ فکر کے آثار نظر آنے لگتے اور اس مسکراہٹ کے تسلسل کو توڑنے کے لیے وہ تقریباً اضطرابی انداز میں کوئی بے تُکا سا سوال پوچھ بیٹھتے۔ میں اُن کے سوال کا کوئی معقول سا جواب دیتا اور اپنے کمرے میں داخل ہونے کے بعد ان کی فکر اور اضطراب سے مزے لیتا۔
اتنا مجھے معلوم ہوچکا تھا کہ اس کے گھر ماں، باپ اور چھوٹی بہن کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔وہ لوگ حال ہی آکر ہماری پڑوس والی گلی میں آباد ہوئے تھے۔
اس کے باپ فرنیچر بنا کر بیچنے کا کاروبار کرتے تھے۔ قصبے میں فرنیچر کیا؟۔ کرسیاں، میز، اسٹول، تپائیاں اور نعمت خانے۔ حد سے حد کسی کے پاس بہت پیسہ ہوا تو اس نے دو پٹ کی الماری بنوالی۔ میں نے انہیں ان کے کار خانے نما دوکان میں کام کرتے دیکھا تھا۔ وہ ہر وقت ٹوپی پہنے رہتے تھے اور یکسوئی سے اپنا کام کرتے تھے اور ایک بڑی شیشے کی بوتل میں چائے کا پانی، سیاہی مایل بھورا پانی تھوڑے تھوڑے وقفے سے پیتے رہتے تھے۔ ان کی بیوی کو میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ البتہ کبھی کبھی دروازے کے پاس سے گزرتے وقت اتنا ضرور سنا کہ ایک نسبتاً عمر دراز عورت اپنی لڑکیوں کو گھریلو کاموں کے بارے میں کچھ ہدایات دے رہی ہے۔ میں خاموشی سے ان آوازوں کو سنتا ہوا ان کے دروازے کے سامنے سے گزر جاتا تھا۔ میرا جی چاہتا تھا کہ ان کی دونوں بیٹیوں خاص طور سے بڑی بیٹی کی آواز سن سکوں لیکن اس خواہش کو اتنی کامیابی بھی میسر نہ آئی کہ کبھی چھوٹی بیٹی کی ہی آواز سن سکوں حالاں کہ چھوٹی بیٹی کی آواز بعد کے دِنوں میں سنی بھی اور اس کا چہرا بھی دیکھا۔ لیکن یہ بات بعد میں بیان ہوگی۔
تقریباً روزانہ مجھے کوئی نہ کوئی میٹھی چیز اس ہاتھ سے نصیب ہو جاتی۔ خوبصورت گورا ہاتھ اور گلابی ناخُن۔ مجال ہے کہ ان انگلیوں کا لمس میری ہتھیلی کو ملا ہو۔ اس بات سے مجھے الجھن بہت ہوتی لیکن مجھے اتنا بھی خوش گوار لگتا جتنا نصیب ہو جاتا۔
وقت گزرتا رہا اور میں شب و روز اس نادیدہ پیکر کے دھیان میں گم رہتا تھا لیکن شیشہ گری اور نغمہ گری دونوں دوش بدوش چلتی رہیں۔ ان میں رُکاوٹ کا احتمال اسی صورت میں تھا جب مجھے کسی طرح کی محرومی کا سامنا کرنا پڑتا۔ وہاں تو یہ عالم تھا کہ تقریباً روزانہ چوڑی بجنے کی آواز، اس کے تسلسل میں ایک کھنکتی ہوئی ہنسی کی آواز اور اکثر گلابی ناخنوں والے، خوب اندر تک کھنچے ہوئے خوبصورت ناخنوں والے ہاتھ سے مجھے کوئی محبت بھری سوغات مل ہی جاتی تھی۔
پھر وہ وقت آیا کہ میں نے اپنے دِل کی بات والد صاحب قبلہ کے روبہ رو کی۔ میں اُن سے قدرے بے تکلف تھا۔ اوّل تو اس لیے کہ وہ مجھے ایک سعادت مند بیٹا سمجھنے کے علاوہ بِن ماں کی اولاد بھی سمجھتے تھے۔ دویم یہ کہ ہر رات کھانے کے بعد میں ان کی فرمائش پر ان کو کچھ نہ کچھ ضرور سنایا کرتا تھا کبھی نعت، کبھی غزل، کبھی کوئی مقامی گیت جس میں بِرج کی چھاپ ہوتی تھی۔
والد صاحب فقط اتنا بولے کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن اس مختصر سے خاندان کے بارے میں تقریباً سبھی انجان ہیں۔ کیا برادری ہے، کیسا مشرب و مسلک ہے، کچھ نہیں معلوم — میں نے دبی آواز میں کہا کہ ان کے عمدہ انسان ہونے میں کوئی شک نہیں کہ محنت اور شرافت سے اپنا چھوٹا سا کاروبار چلاتے ہیں۔
والد صاحب خاموش ہو گئے لیکن اُن کی خاموشی میں ناراضی کا کوئی دخل نہیں تھا۔
وقت گزرتا رہا اور میرے دِل کی کسک بڑھتی رہی اور یہ خواہش تیز تر ہو تی گئی کہ وہ ہاتھ میرے ہاتھ میں آجائے۔
ایک روز میں کام سے واپس آرہا تھا تو دروازے پر چوڑیاں کھنکیں اور وہ ہاتھ باہر نکلا۔ اس دِن وہ خالی تھا۔ اس نے کلمے کی انگلی سے میری کھردری شیشے کو بل دینے والی ہتھیلی پر ایک ذرا طاقت سے ٹیڑھی سی لکیر کھینچ دی اور بے لوث سی کھنکتی ہوئی ہنسی کی آواز آئی۔ وہ پہلا اور آخری اظہارِ محبت تھا– ہاتھ پر کھنچی ہوئی اُس لکیر کو دِن بھر دِل میں چمکتا ہوا محسوس کیا اور رات میں اس ہتھیلی پر اپنا سر رکھ کر سوگیا۔
اس درمیان میں نے اس گھر میں کچھ ہلچل سی محسوس کی۔ دو مرد اور دو تین عورتیں اس گھر سے اُتر تے ہوئے نظر آئے۔ میں سمجھا ان کے عزیز ہوں گے۔
اس واقعے کے ٹھیک پندرہ دِ ن بعد جب میں دروازے کے پاس سے گزرا تو وہ خوبصورت گورا گلابی ناخنوں والا ہاتھ باہر نکلا۔ اس میں ایک مڑی تڑی کاغذ کی پرچی تھی اور ہاتھ میں لرزش بھی تھی۔ میں نے اُس پرچی کو مٹھی میں دبایا اور گھر آکر اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے اس پرچی کو کھولا–
سلام! عید کی بیس تاریخ کو میری شادی ہے۔ مایوں تک آپ گلی سے گزرتے رہیے گا۔ میں ہمیشہ کی طرح اس وقت دروازے پر رہوں گی۔ اس کے بعد پھر مت آئیے گا۔ شادی کے بعد رخصت کے وقت مجھے دیکھنے آجائیے گا کیوں کہ آپ نے آج تک مجھے دیکھا بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس کا موقع تھا۔ میں نے ہمت کر کے امّی سے بات کی۔ وہ کہتی ہیں کہ میرا رشتہ طے ہو چکا ہے اور اب اس میں کوئی رد و بدل ممکن نہیں ہے۔
میری شادی کے بعد آپ اس گلی سے مت گزرا کیجئے گا۔ خدا حافظ۔
میں رات بھر اپنے بستر پر نیم غنودہ حالت میں لیٹا رہا۔ والد صاحب نے بہت آواز دی۔ میں باہر نہیں نکلا۔ صبح اٹھ کر میں نے ان کو تمام واقعات سے آگاہ کیا۔ وہ خاموشی سے اُٹھے اور لڑکی کے والد کی دوکان پر چلے گئے۔ واپسی پر ان کا چہرا اُترا ہوا تھا۔
وہ لوگ رشتہ کرنے کے بعدتوڑنے کے قائل نہیں ہیں۔ صبر کرو۔ میں نے بھی جوانی میں صبر کیا تھا۔ انہوں نے اپنی جوانی کے صبر کے بارے میں کچھ نہیں بتایا لیکن اُن کی بوڑھی آنکھوں کے آنسوؤں نے سب کچھ کہہ دیا۔
میں ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔ وہ انگلیوں سے بالوں میں کنگھی کرتے رہے۔ بولے کچھ نہیں۔ جب میں اٹھنے لگا تو صرف ایک جملہ کہا۔
’’افسوس کہ پڑوس کی یہ لڑکی بدمعاش بھی نہیں کہ تمہارے ساتھ بھاگ سکتی۔‘‘
اگلے دِن کام سے واپسی پر ٹھیک دروازے کے پاس ایک لڑکی چادر اوڑھے گلی میں کھڑی تھی۔
’’میں اُن کی چھوٹی بہن ہوں۔‘‘
’’آپا کہتی ہو؟‘‘
’’نہیں۔ میں اُن کو باجی کہتی ہوں۔ امی نے کہلایا ہے کہ آپ کل سے اس گلی سے نہ گزریں۔ رشتہ طے ہو چکا ہے بہت بد نامی ہوگی۔
’’کس کی بدنامی ہوگی؟‘‘ میں نے سر جھکا کر سوال کیا۔
’’باجی کی۔۔۔ اور آپ کی بھی۔ آپ بھی ایک شریف انسان ہیں۔‘‘
وہ اتنا کہہ کر دروازے میں چڑھ گئی۔ چادر میں اس کے چہرے کا تھوڑا سا حصہ نظر آرہا تھا جس سے میں اندازہ کر سکتا تھا کہ اس کی بڑی بہن کیسی ہوگی۔ اس کے ہاتھ پاؤں بھی خوبصورت تھے۔ میں براہِ راست لڑکیوں کو نہیں دیکھتا لیکن اس دِن میں نے کوشش کر کے اس کی شکل دیکھی کہ میں جاننا چاہتا تھا کہ اس کی بہن کا روپ کیسا ہوگا۔
میں مغرب بعد پیکار کے مکان پر پہنچا اور ان سے لال چوڑیوں کا ایک توڑا مانگا۔ ایک توڑے میں دو سو اٹھاسی چوڑیاں ہوتی ہیں۔ پیکار چوڑیاں گنتے جاتے اور میری آنکھوں میں دیکھتے جاتے۔ اِن آنکھوں نے کچھ دیکھا ہی نہیں تھا جو انہیں کچھ ملتا۔ سرخ تول کے کپڑے میں لال چوڑیوں کا توڑا باندھا اور عشاء کی اذان کے بعد جب محلے کے بیشتر مرد مسجدوں میں ہوتے ہیں ، اسے دھیرے سے گلی کے اس مکان کی چوکھٹ پر رکھ دیا جس کے سامنے سے مجھے اب نہیں گزرنا تھا۔ حالاں کہ میں شعر پڑھتا ہوا نہیں گزرا تھا لیکن مجھے شک ہوا کہ میرے کانوں نے دروازے کے پیچھے کسی لباس کی ہلکی سی سرسراہٹ سنی ہو۔ میں بھاری قدموں سے اپنے گھر آگیا۔
میں نے گلی سے نکلنا موقوف کردیا۔ بھٹّی پر میرا دِل نہیں لگتا تھا۔ جس دِن بل دیتے ہوئے شیشے کی پتلی چَھڑ چار بار ٹوٹی اس دن پیکار نے مجھے ظہر کے بعد روک لیا۔ اپنے گھر کے باہری کمرے میں مسہری پر بٹھا کر دیر تک میری آنکھوں میں دیکھتے رہے۔ بولے:
’’ایک ماہر شیشہ گر کے ہاتھ سے ایک دِن میں اگر شیشے کی چَھڑ بل دیتے وقت چار بار ٹوٹے تو سمجھنا چاہیے کہ کاری گر کسی آستانے پر اپنا دِل توڑ چکا ہے۔ بتاؤ کیا بات ہے؟‘‘۔ بات تو میں نے ان کو نہیں بتائی لیکن اسی وقت طے کر لیا کہ اب میں کام نہیں کروں گا۔
شادی میں رخصت کی رسم کا وقت رات کا تھا اور ایسا ہی کہرا پڑ رہا تھا جیسا آج ہے۔
میں ان کے گھر سے کچھ فاصلے پر اندھیرے میں کھڑا ہوگیا۔ مجھے معلوم تھا کہ دلہن اور دولہا سائیکل رکشہ میں گلی پار کریں گے۔ باہر سڑک پر بارات کی بس کھڑی تھی۔ وہ عورتوں کے ساتھ گھر کی سیڑھیوں سے اتری۔ وہ روشنی میں تھی اور میں اندھیرے میں۔ اس لیے اس کو واضح طور پر دیکھ سکتا تھا۔ لیکن اس کا سر اور چہرا ایک سفید اوڑھنی سے ڈھکا ہوا تھا جیسا کہ اس علاقے کا رِواج ہے وہ سرخ رنگ کی قمیص پہنے تھی جس پر سلمیٰ ستارے کا خوبصورت دوپٹہ تھا اور اس پر وہ سفید اوڑھنی تھی۔ وللہ میں نہیں دیکھ سکا کہ اس کا غرارہ کس رنگ اور کس وضع کا تھا۔عورتیں وِداعی گیت گا رہی تھیں جن میں ہندی بول زیادہ تھے۔ اُن ہندی بولوں نے ماحول کو بہت غمگین کردیا تھا۔ رکشہ میں سوار ہوتے وقت میں نے اس کے مہندی رچے پاؤں دیکھے جو بہت سُبُک اور خوبصورت تھے۔ کسی قصبائی لڑکی نے بہت رچا رچا کر سجا سجا کر مہندی لگائی تھی۔ اس کے ساتھ اس کا دولہا بیٹھا تھا جو ایک خوبرو نوجوان تھا اور مجھ سے عمر میں بہت کم تھا۔ اس کا مطلب وہ بھی مجھ سے عمر میں بہت کم تھی–
اس بات پر میں نے زیادہ غور نہیں کیا کہ والد صاحب نے ایک دِن کہا تھا کہ محبت کے معاملے میں عمر کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس معاملے میں ابتدا خالصتاً دِل سے ہوتی ہے۔
جس وقت بس روانہ ہوئی اور اس کے مکان کے برابر کی زمین کے قطعے سے کھانے کی میزیں اور کرسیاں اٹھائی جانے لگیں اور سجاوٹ کے چمکیلے کاغذ اُتارے جانے لگے تو اچانک ایسا لگا جیسے دِل پر گھونسا سا لگا ۔ محرومی کا ایک شدید احساس تھا جو سر سے لے کر پاؤں تک اتر تا چلا گیا۔
ہم لوگوں کو یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ بیاہ کر کہاں گئی ہے۔ ویسے بھی اس بات سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔ بس دِل بے تحاشہ چاہتا تھا کہ ایک بار اس کی شکل دیکھ سکوں۔ اندر والا دِل یہ بھی کہتا تھا کہ ایک بار شکل دیکھنے کے بعد تم اور زیادہ بے چین ہو جاؤ گے۔
گھر واپس آیا تو والد صاحب منتظر تھے۔ اس رات انہوں نے مجھے اپنے ساتھ پلنگ پر لٹایا جیسا کہ وہ میرے بچپن میں کرتے تھے۔
دوسرے دِن میں نے پیکار کی ملازمت سے استعفیٰ دیا اور والد صاحب سے کہا کہ میں کچھ دِن اس قصبے سے باہر رہنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے حسبِ استطاعت ایک معقول رقم میرے حوالے کی۔ میں آسایش کی تمام چیزوں کو چھوڑ کر صرف کپڑے کا ایک تھیلا لے کر گھر سے نکل لیا تھا۔
کبھی کبھی ان کو پوسٹ کارڈ لکھ دیتا ہوں۔ کسی بڑے شہر میں زیادہ رُکوں تو ان کا جواب بھی مل جاتا ہے۔ مجھے گھر واپس آنے کو کہتے ہیں۔
برسوں ہو گئے مسافری کرتے ۔ ہفتے میں دو دِن مزدوری کرتا ہوں باقی دِن سفر کرتا ہوں۔ سنا ہے مسافر پر وقت ذرا دیر سے گزرتا ہے۔ لیکن میرا وقت بہت جلد گزر گیا۔
بچے کی ماں نے چلمن کے پیچھے سے یہ سارا ماجرا سنا اور پوچھا: ’’اب دوپہر کا وقت ہے کھانا بھیج دوں؟‘‘۔
’’نہیں شکریہ کھانا میرے تھیلے میں موجود ہے۔ اب اجازت دیجئے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اٹھا اور اپنا تھیلا کندھے پر ڈال کر کھڑکی کی طرف ہاتھ کرکے الوداعی سلام کیا۔
بچہ اپنی ماں سے لپٹا کھڑا تھا۔
کہرا ابھی بھی اتنا ہی تھا۔ آسمان میں بادل بھی تھے اور دھوپ کہرے تک آنے سے عاجز تھی۔
جب وہ دوسری گلی کے دہانے میں کھو گیا تو ماں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے بچے کو لپٹا لیا۔
’’میں نے۔۔۔میں نے اس دِن سبز غرارہ پہنا تھا اور لمبے سرخ دوپٹے نے اسے بالکل چھپا دیا تھا۔ ‘‘
بچہ کچھ نہیں سمجھا۔ وہ ماں کے چہرے کو حیرت سے دیکھنے لگا۔ بچے خوش نصیب ہوتے ہیں کہ ایسی باتیں اُن کی سمجھ میں نہیں آتیں۔

سید محمد اشرف
22؍ اپریل 2022ء
20؍ رمضان ، شب قدر 1443ھ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!