ArticlesBiographyBOOKS/ BOOK REVIEWSHAKHSIYAAT
Ertugrul Ghazi Biography in Urdu ارطغرل غازی کی حیات و خدمات تاریخی حقائق و قرائن کی روشنی میں
ارطغرل غازی کی حیات و خدمات تاریخی حقائق و قرائن کی روشنی میں
ارطغرل غازی کی حیات و خدمات تاریخی حقائق و قرائن کی روشنی میں
10 فروری 1258ء بمطابق 656 ھجری میں منگول فتنہ بغداد آیا تھا۔ منگولی بغداد میں بھوکے بھیڑیوں کی طرح ہنگامے کرنے لگے ، محل کی عورتوں کو گلیوں میں گھسیٹنے لگے۔ مسلمانوں کا قتل عام کیا اور خونریزی کی انتہا کردی – تقریبا 10 لاکھ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ شہر سے قریب واقع دریائے دجلہ خون سے سرخ ہوگیا ۔ منگولی اقتدار پر قابض ہوگئے ۔ کفر غالب آگیا اور اسلام کی طاقت وقتیہ طور پر کمزور ہوگئی ۔ مسلمانوں کے دل ٹوٹ گئے ، ہمتیں پست ہوگئ اور امت مسلمہ کا مرکزی محور ختم ہو گیا ۔
مسلمان مختلف قبیلوں میں بکھرے ہوئے تھے۔ انہی میں ایک کائی قبیلہ بھی تھا۔ کائی قبیلہ کا تعلق وسط ایشیاء سے تھا۔ اوغوز خان اس کے بانی تھے۔ اوغوز خان کو 12 بیٹے تھے جو 12 قبیلوں میں بٹیں ہوئے تھے۔ کائی قبیلہ کے سردار سلیمان شاہ تھے ، ان کے 3 بیٹے تھے جن میں ایک ارتغل (ارطغرل) غازی بھی تھے۔
ارتغل غازی ایک ایماندار ، نیک صالح اور انصاف پسند مجاہد تھے۔ ارطغرل غازی کے پیچھے اللہ پاک کی عطا اور حضور ﷺ کے کرم سے جن کی روحانی سرپرستی حاصل تھی وہ شیخ محی الدین ابن العربی علیہ الرحمہ تھے جو حضور غوث اعظم کے صاحب خرقہ و مرید تھے جو اندلس سے ارطغرل غازی کی روحانی مدد کو پہنچے تھے۔ اسلام کی اشاعت اور انصاف کی خاطر وہ ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے۔
جس وقت منگول فتنہ ہلاکوں خان کی سرپرستی میں بڑھتے جارہا تھا۔ خلافت عباسیہ کو ختم کرنے کے بعد سلجوقی سلطنت کے خلاف سازشیں رچی جارہی تھی۔ شام کے تخت پر سلطان صلاح الدین ایوبی کے پوتے سلطان ملک العزیز ایوبی کی حکومت تھی۔ عیسائی صلیبی جنگ کی سازشیں رچ رہے تھے۔ سلجوقیوں اور ایوبیوں کے بیچ آپسی جنگ چھیڑ کر مسلمانوں کو شکست دینا ان کا مقصد اولین تھا۔ مگر ارتغل غازی نے ان کے اس ناپاک منصوبہ کو خاک میں ملا کر عالم اسلام کے مختلف سلطنتوں اور قبائل کو متحد کر دیا۔ جس کی وجہ سے سلطان ملک العزیز کی سلطنت میں ارتغل غازی کی عزت اور بڑھ گئی ، ساتھ ہی سلجوق سلطنت کے سلطان علاؤالدین شاہ کو ارتغل غازی بہت پسند آۓ اور ان کے محبوب بن گئے۔
سلطان علاؤالدین شاہ کی بھتیجی حلیمہ سلطان سے ارتغل غازی کی شادی ہوئی۔ ارتغل غازی نے صلیبیوں کو کئی محاذ پر شکست دی حتی کہ صلیبی قلعہ بھی فتح کرلیا۔ سلیمان شاہ کے انتقال کے بعد ارطغرل غازی کائی قبیلہ کے سردار بنیں۔ تاحیات پوری ایمانداری اور بہادری کے ساتھ اسلام کی خاطر جنگ کرتے رہے۔ ارتغل غازی کی ایمانداری ، بہادری اور انصاف پسندی کو دیکھ سلطان علاؤالدین شاہ نے انہیں تمام اوغوز قبائل کا سردار اعلی اور موجودہ ترکی کا نگراں بنا دیا تھا۔ ارتغل غازی نے صلیبیوں سے فتح کیۓ ہوئے علاقوں کو ریاست کی ایک شکل دی۔ اور انکی تعلیم و تربیت کیلئے دینی درسگاہیںں بنوائی۔
ارتغل غازی پوری عمر سلجوق سلطنت کے وفادار رہے۔ منگول سلطنت کا خاتمہ کرنے کیلئے فیصلہ کن جنگ کا ارادہ کیا۔ اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مصر کے سلطان رکن الدین سے مل کر ایک بڑی اور نا شکستہ فوج تیار کی۔ تمام ترک قبائل کے ساتھ مل کر اناطولیا (ترکی) میں جنگ کا آغاز کیا ، پوری بہادری سے حملہ آور ہوکر منگولوں کو بری طرح شکست دی اور فتح حاصل کی۔
ارتغل غازی مسلمانوں ایک ایسے مرد مجاہد کا نام ہیں جن کے نام سے آج بھی پوری دنیاۓ عیسائیت خائف ہیں۔ بالآخر یکم ستمبر 1281 ہجری بمطابق 610 عیسوی میں اسلام کا یہ مرد مجاہد اس دنیاۓ فانی سے اپنے رب کی طرف ہمیشہ کیلئے کوچ کرگیا۔ ارتغل غازی علیہ الرحمہ کے 3 بیٹے تھے۔ جن میں عثمان تیسرے نمبر کے بیٹے تھے۔ ارتغل غازی نے اپنے چھوٹے بیٹے عثمان کی خاص طور پر دینی اور جنگی تربیت کی۔ عثمان غازی بڑے ہوکر اپنے والد ارتغل غازی کے شانہ بشانہ جنگ میں شریک ہوتے رہے۔ اپنے والد کے وصال کے بعد عثمان غازی کائی قبیلہ کے سردار بنے۔ والد ارتغل غازی کی بہادری اور دیانت داری کی غیر معمولی خصوصیات کے ساتھ مسلمانوں کی رہبری کی۔ ریاست سوگوت کے سلطان کہلاۓ جاتے تھے۔
ارطغرل غازی کے تیسرے بیٹے غازی عثمان نے اپنے والد کے وصال کے 10 سال بعد 1291 عیسوی میں خلافت عثمانیہ قائم کی۔ جسے سلطنت عثمانیہ بھی کہا جاتا ہیں۔ سلطنت عثمانیہ اپنے عروج کے زمانہ میں 3 براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی۔سلطنت عثمانیہ کے سلاطین نے صدیوں تک امت مسلمہ کا دفاع کیا۔ مسجد نبوی، گنبد خضری اور مسجد حرام کی تعمیر کروائی۔ حضرت امیر حمزہ کے ساتھ کئی صحابہ اکرام کے مزارات بھی سلطنت عثمانیہ ہی میں تعمیر ہوئے۔ علاوہ ازیں مکۃالمکرمہ میں پانی کی نہر بنوائی اور ترکی سے مکہ و مدینہ شریف کا راستہ ریلوے راستہ بھی بنوایا۔ حتی کہ روضہ رسول کے اردگرد شیشہ پگھلا کر دیوار بھی سلطنت عثمانیہ کے دور میں بنائی گئی ۔ سلطنت عثمانیہ میں 623 سالوں میں 36 سلاطین نے فرماروائى کی۔ اور اسلام و امت مسلمہ کی خوب خدمت کی۔ یہودی و صلیبی خلافت عثمانیہ کے جاہ و جلال سے ہمیشہ خوفزدہ رہے۔