ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesBiographyNotesResearch PapersSHAKHSIYAAT

پروفیسر حسین الحق کی حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

Hussain Ul Haque

پروفیسر حسین الحق کی حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

از: عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)

ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی، اورنگ آباد،مہاراشٹر

پروفیسر حسین الحق ایک نابغۂ روزگا شخصیت کے مالک تھے۔آپ کی پیدائش سہسرام، بہار، ہندوستان کے صوفی گھرانے میں ہوئی۔ موصوف فکشن نگار، مصنف، اردو نقاد، نظریہ نگار، محقق، ناول نگار، مترجم اور کلاسیکی تصنیف کے خالق ہیں جو اپنی فکر اور تحریروں میں صوفیانہ نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ انھیں اپنے ناول ’’اماوس میں خواب‘‘ کے لیے اُردو میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا ہے۔ آپ کے زیر نگرانی 16 ریسرچرس نے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔

پروفیسر حسین الحق تعلیمی شعبے میں درج ذیل عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں:

پروفیسر انچارج (فارسی) دسمبر 1990 ء سے جنوری 1995 ء تک (مگدھ یونیورسٹی، بودھ گیا)، امتحان کے سپرنٹنڈنٹ، سلیکشن کمیٹی کے ممبر اور پٹنہ یونیورسٹی، کلکتہ یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی وغیرہ کے اسکریننگ بورڈ کے بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔آپ کے ادبی خدمات کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی 200 سے زیادہ کہانیاں اُردو دنیا کے معیاری ادبی رسائل میںشائع ہوئی ہیں۔ ان میں سے درجنوں کا ہندی، انگریزی اور پنجابی میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔

 ولادت:

پروفیسر حسین الحق صاحب کا تعلق شیر شاہ سوری کے شہر سہسرام کے عظیم صوفی خاندانِ مشائخ سے ہے۔ ان کے والد حضرت مولانا انوارالحق شہودی نازش سہسرامی تھے جو خود ایک مشہور عالم دین، خطیب، شاعر اور ادیب تھے۔ ان کی والدہ محترمہ شوکت آرا کا بھی تعلق سہسرام سے ہی تھا۔ حسین الحق صاحب 2 نومبر1949 کو سہسرام میں پیدا ہوئے۔

 تعلیم و تربیت:

پروفیسر حسین الحق کی ابتدائی تعلیم خانوادے کی روایات کے مطابق ان کے والد کے زیر سایہ دینی تعلیم سے ہوئی۔اس کے بعد انھوں نے مدرسہ کبیریہ سے مولوی کا امتحان پاس کیا، بعدازاں آرا ضلع اسکول آرا سے1963ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1968ء میں ایس پی جین کالج سے گریجویشن مکمل کیا اور یونیورسٹی میں اوّل ہوئے۔اس کے بعد پٹنہ یونیورسٹی سے 1970ء میں اُردو میں ایم. اے. کیا اور اس میں بھی ٹاپ پوزیشن حاصل کی۔ 1972ء میں مگدھ یونیورسٹی بودھ(گیا )سے فارسی میں بھی ایم. اے. کی سند حاصل کی۔فراغت کے بعد گورو گووند سنگھ کالج، پٹنہ میں عارضی طور پر بحیثیت لیکچرار ملازمت بھی کی۔ یو جی سی سے جونیئر فیلوشپ ملی اور غالباً 1974ء تک ریسرچ فیلو کی حیثیت سے پٹنہ یونیورسٹی میں تحقیقی و تدریسی کاموں میں مصروف رہے، ان کے اس زمانے کے شاگردوں میں پروفیسر شاداب رضی، ڈاکٹر انیس صدری، ڈاکٹر نعیم فاروقی اور آج کے کانگریسی لیڈر شکیل الزماں کا نام قابلِ ذکر ہے۔

 خانگی زندگی:

1977ء میں ان کی شادی سیّد محمد اسرارالحق کی صاحبزادی نشاط آرا خاتون سے ہوئی۔ اللہ نے انھیں دو بیٹی اور دو بیٹوں سے نوازا۔ اسی درمیان ایس پی کالج( دمکا) میں ان کی پوسٹنگ ہوئی اور 1981ء میں شعبۂ اُردو پوسٹ گریجویٹ مگدھ یونیورسٹی بودھ گیا (بہار) میں ان کا تبادلہ ہو گیا۔ مگدھ یونیورسٹی بودھ گیا سے ہی صدرشعبہ کی حیثیت سے2013 ءمیں وظیفہ یاب ہوئے۔

 ادبی زندگی کا آغاز :

والد صاحب کی رہنمائی میں لکھنے کا کام تو دس برس کی عمر سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ حسین الحق صاحب کی پہلی کہانی ’’عزت کا انتقال ‘‘ 1965 ء میں ماہنامہ’’ کلیاں‘‘ لکھنؤ میں ’’صوفی بلیاوی‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اسی سال ماہنامہ’’ جمیلہ‘‘ دہلی میں ان کا پہلا افسانہ ’’پسند‘‘ شائع ہوا۔ 1966ء میں انھوں نے بچّوں کا ایک رسالہ’’ انوار صبح‘‘ سہسرام سے نکالا۔ 1969 ء میں ان کا پہلا مضمون بعنوان’’ اُردو شاعری پر گاندھی جی کے اثرات‘‘ بہار کی خبریں پٹنہ میں شائع ہوا۔

 حسین الحق کی افسانہ نگاری:

آپ تقریباً دو سو سے زائد افسانوں کے خالق ہیں۔ان کے منتخب افسانوں میں نیو کی اینٹ، ندی کنارے دھواں، زخمی پرندے، مردہ راڈار، چپ رہنے والا کون، لڑکی کو رونا منع ہے،جلیبی کا رس، کریلا، گونگا بولنا چاہتا ہے،کُہاسے میں خواب،سبحان اللہ، وقنا عذاب النار، ایندھن، ناگہانی وغیرہ ہیں جو اُردو فکشن میں لازوال مقام رکھتے ہیں۔
آپ کے طویل تخلیقی سفر میںسات افسانوی مجموعے ہیں۔
(1) پسِ پردئہ شب (1981ء)

(2) صورت حال (1982ء)

(3) بارش میں گھرا مکان (1984ء)

(4) گھنے جنگلوں میں (1989ء)

(5) مطلع(1995ء)

(6) سوئی کی نوک پر رُکا لمحہ (1997ء)

(7) نیو کی اینٹ (2009ء)

یہ سبھی مجموعے شائع ہو کر مقبول خواص و عام ہو چکے ہیں۔ انھوں نے جب افسانے لکھنے کا آغاز کیا تووہ عہد، جدید تجربات اور علامت نگاری کا تھا جہاں نئے نئے افسانے وجود میں آرہے تھے جن پر شعور کی رو کی تکنیک کے واضح اثرات تھے ۔آپ نے روایت سے انحراف نہ کیا بلکہ اس میں اپنے منفرد اسلوب و زبان کے حسین امتزاج سے اپنی فکشن فہمی کا ثبوت پیش کیا۔آگے چل کر ان کا یہی لب و لہجہ اور انداز بیاںجدید افسانہ نگاری میں ایک دستخط کاحامل بنا۔فکشن کا قاری اس بات کو کیسے فراموش کر سکتا ہے جب عالمی تنقید نگار وارث علوی نے کبھی مشہور فکشن نگار عبدالصمد بشمول رضوان احمد کی افسانوی زبان پر سخت اعتراضات کیے تھے اور ساتھ ہی خطۂ بہار کے نئے واردان کی زبان و اسلوب پر سوالیہ نشان قائم کیا تھا۔ اسی زمانے میں حسین الحق اور شوکت حیات نے اپنی تخلیقیت کے ذریعے باور کرایا کہ ان کی زبان فکشن کے تئیں نہ صرف موافق ہے بلکہ معتبر بھی ہے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر کہانیاں لکھیں جو قابل ستائش و تحسین ہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے تنقیدی و صوفیانہ و مذہبی موضوعات پر بھی گراں قدر مضامین لکھے ہیں جن کا تعلق مطالعے سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے مزاج میں تصوف آمیزسادگی ہے۔

 حسین الحق کی ناول نگاری:

حسین الحق بنیادی طور پر افسانہ نگار تھے لیکن بحیثیت ناول نگار بھی ان کی انفرادیت مسلم ہے۔ تین ناول اشاعت کی منزل سے ہمکنار ہو چکے ہیں جن میں ان کا پہلا ناو ل ’’بولو مت چپ رہو‘‘ ہے جو 1990 ء میں شائع ہوا۔ اس ناول میں موصوف نے آزادی کے بعد تعلیمی نظام میں جو تبدیلیاںآئیں اور کس طرح افسر شاہی نے اس مقدس پیشے سے وابستہ افراد کی عزت کاکھلواڑ بنایا ہے ،اس کا بیان ہے۔اس کے ساتھ ہی نکسلیوں کی تحریک کو پیش کیا ہے۔ اس ناول کا ایک کردار سابق انقلابی اور موجودہ ہیڈماسٹر افتخارالزماں معاشرے سے کٹا ہوا فرد ہے۔ اس نے آزادی کی تحریک میں جمہوریت، مساوات اور معاشی عدل کے خوابوں کی تکمیل کے مقصدسے حصہ لیا تھا لیکن آزادی کے بعد اس کے دیکھتے ہی دیکھتے اس کے یاران ہم پیالہ وہم نوالہ کامیاب دنیادار بن جاتے ہیں۔ ماسٹر چوں کہ ایماندارہے اس لیے اپنے چاروں طرف پھلنے پھولنے والی بدعنوانی،ہوس اور لوٹ کھسوٹ کے درمیان وہ اپنے آپ کو قائم کردہ اسکول کے قلعے میں محفوظ کر لیتا ہے۔یہ ایک ایسا کردار ہے جوانسانیت،رواداری اور خدمت خلق کو اپنا شعارسمجھتاہے۔مگر افسوس ! تحریک آزادی کے زمانے کی حب الوطنی،انسان دوستی،فرقہ وارانہ یگانگت اور قربانی کے جذبات آزادی کے بعد کے چند ہی سالوں میں ہوس پرستی،لالچ،استحصال اور فرقہ واریت کی مہیب شکل میں تبدیل ہو گئے اور ماسٹر افتخار الزماں جیسے لوگ پرانی اور فرسودہ اقدار کے امین بن کررہ گئے۔

موصوف کادوسرا ناول ’’فرات‘‘ 1992 ء میں شائع ہوا۔یہ 296 صفحات پر مشتمل وسیع کینواس کا ناول ہے جس میں نئی نسلوں میں کس طرح ذہنی، جذباتی اور اخلاقی تبدیلیاں رونماں ہوتی ہیںاسے مصنف نے صداقت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہ ناول اپنے اسلوب اور موضوع کے حوالے سے اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے۔ اس میں نسلوں کے تصادم کو بڑی ہنر مندی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس کا مرکزی کردار وقار احمد کی ساری زندگی مجاہدے میں گزرتی ہے۔ یہ ناول یک کرداری ناول ہے جس میںمصنف نے اس ناول کے مرکزی کردار کے توسط سے پانچ نسلوں پر مشتمل ایک حقیقی کہانی قاری کے سامنے پیش کی ہے ،ساتھ ہی غوروفکر کرنے کے لمحات بھی فراہم کیے ہیں۔

الماس فاطمہ اپنے تحقیقی مقالے ’’مشرف عالم ذوقی کے ہمعصر ناول نگار: کشمیر عظمیٰ ‘‘میں رقمطراز ہیں کہ:

’’ حسین الحق نے اپنے ناول میں دو تہذیبوں کے تصادم کے علاوہ جنسی، نفسیاتی اور معاشرتی پیچیدگیوں کی سچی تصویر کو پیش کیا ہے۔ انھوں نے اس ناول میں لفظوں کے ذریعے ایسی فضا کی تخلیق کی ہے جس کی آرائش و زیبائش، حسن و جمال، دلکشی اور دلفریبی، سادگی اور روانی کے سحر میں قاری ناول ختم کرنے کے بعد بھی گرفتار رہتا ہے۔ حسین الحق نے ہمارے آس پاس کی زندگی کو جس طرح محسوس کیا ہے ویسا ہی اس ناول میں بیان کیا ہے۔‘‘
(مضمون ، حسین الحق: فکشن کے ایک روشن باب کا خاتمہ ، مضمون نگار : محمد شارب ، ماہنامہ اُردو دنیا ، فروری 2022ء ، ناشر : قومی کونسل براے فروغ اُردو زبان)

مصنف نے فلیش بیک کی تکنیک کے ذریعے اپنے بچپن، والد کی زندگی، نظریۂ حیات اور تہذیبی و معاشرتی اقدار کی تصویرکشی کی ہے۔مرکزی کرداروقار احمد پٹنہ یونیورسٹی کا طالب علم ہے جہاں کلیم عاجز جیسے اُستاد کی صحبت ملی۔ ایم. اے. کے بعد نوکری لگ گئی۔اپنی محنت اور لگن سے ترقی کرتے ہوئے اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتے ہیںاور پرانی بستی کو خیر باد کہہ کر شہر کی ایک پَوش کالونی میں ذاتی خوبصورت مکان ’’سہسرام ہائوس‘‘ بنواتے ہیں۔ یہاں دو نسلوں اور دو تہذیبوں کے تضادو تصادم رونما ہوتے ہیں۔ اس میں وہی تکنیک استعمال کی گئی ہے جو اکثر فلموں میں دیکھنے کو ملتی ہے کہ کسی کردار کا ہمزاد اُس کے مد مقابل محو گفتگو ہوتا ہے، ٹھیک اسی طرح وقار کا ہمزاد بھی اس سے باتیں کرتا ہے۔ یہ تین نسلوں کے اقدار کا احوال بیان کرتا ہے جو آسان کام نہیں ہے۔ اس میں تمام رشتے جبلتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس کے کردار اس کریہہ صورت حال کو جھیلتے ہیں۔ روحانی، اخلاقی تعلقات کی پامالی کھل کر سامنے آتی ہے۔تبریز اور شبل کے کردار کے مابین بڑا فرق دیکھنے کو ملتا ہے۔ شبل تعلیم یافتہ اور روشن خیال لڑکی ہے۔ لیکن وہ تبریز کی مانند اپنی زندگی کو تعفن بھرے ماحول کا حصہ نہیں بننے دیتی۔اس کی روشن اور آزاد خیالی اس کی فکر سے جھلکتی ہے لیکن عملی طور پر وہ ان غلاظتوں میں ملوث نہیںہوتی جسے تبریز اپنی زبان میں تہذیب کا خون سمجھتا ہے۔
ناول کے متعلق انور پاشا ’’ معاصر اُردو افسانے کے تہذیبی و سماجی سروکار، کتابی سلسلہ 7، نیا سفر، دہلی‘‘ میں رقمطراز ہیں:

’’حسین الحق کا’’فرات‘‘معاصر ناول میں موضوعی اعتبار سے قدرے الگ جہتیں رکھتا ہے۔ یہ ناول جنریشن گیپ (Generation Gap) اور بدلتے تہذیبی و معاشرتی اقدار سے پیدا شدہ صورت حال کو مؤثر انداز میں لاتاہے۔ تین نسلوں کے درمیان موجود ذہنی اور معاشرتی تہذیبی و اخلاقی قدروں کے تصادم سے ناول کا ہیولیٰ تکمیل پاتا ہے۔ زبان و اسلوب میں رچائو اور چاشنی بیانیہ کو تازگی عطا کرتی ہے۔‘‘
(مضمون ، حسین الحق: فکشن کے ایک روشن باب کا خاتمہ ، مضمون نگار : محمد شارب ، ماہنامہ اُردو دنیا ، فروری 2022ء ، ناشر : قومی کونسل براے فروغ اُردو زبان)

جہاں تک اسلوب بیان کامعاملہ ہے تو اس میں اظہار کی بے باکی، فکر کی ندرت اور لہجے کا توازن ناول کو ایک الگ انداز دیتا ہے۔ اس کے علاوہ مصنف شعری آہنگ سے اپنی نثر کو پُراثر بنانے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔اس کے ساتھ ہی تشبیہات و استعارات کے استعمال سے نثر میں بے ساختگی اور بے تکلفی بھی پیدا ہوئی ہے۔

ڈاکٹر شہاب اعظمی نے ناول ’’ فرات ‘‘ پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ’’ فرات ایک مطالعہ‘‘ ہے۔ شہاب ظفر اعظمی نے ا س ناول کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے ۔ ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

’’ حسین الحق نے ’’ فرات ‘‘ میں اظہار کے ان تمام وسائل سے کام لیا ہے جن سے اسلوب کو منفرد اور فن کو عظیم بنایا جا سکتا ہے ۔ مثلاً: نثر میں بے ساختگی و بے تکلفی کے ساتھ ساتھ زور اور اثر پیدا کرنے کے لیے خوبصورت تشبیہات اور استعارات استعمال کرتے ہیں۔ جواز کارِ رفتہ اور بے محل نہیں ہوتے بلکہ ہماری آس پاس کی زندگی سے لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ انھیں حسین الحق کا ذہن مکمل نزاکتوں اور لطافتوں کے ساتھ ذہنی اور جذباتی تجربہ بنا کر اس طرح پیش کرتا ہے کہ ہماری فکر ادھر منتقل نہیں ہو سکتی۔ یہ تشبیہات یا استعارات زیب داستاں کے لیے نہیں لائے گئے ہیں بلکہ ناول کی داخلی ضرورت بن کر سامنے آتے ہیں جن کے بغیر وہ جذبہ یا احساس قاری تک پہنچ ہی نہیں سکتا جس کو پہنچانا شاید ناول نگار کا مقصد ہے۔‘‘
(اُردو ناول کا تنقیدی جائزہ 1980کے بعد، ص 120،مصنف :احمد صغیر، ناشر : ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی،سن اشاعت :2015ء)

عام طور پر حسین الحق اسلامی استعاروںسے کام لیتے ہیں۔ اس ناول میں بھی فرات زندگی اور خوش حالی کی علامت ہے اورایک طرف انسانیت اس کے کنارے کھڑی پیاس سے نڈھال ہے۔ موصوف کے طرزِ نگارش کے ضمن میں یہ کہنا درست ہوگا کہ انھوں نے اس ناول میں اظہار کے ان تمام وسائل سے کام لیا ہے جن سے اسلوب کو منفرد اور فن کو عظیم بنایا جا سکتا ہے۔ناول کی اثرپذیری کی بحث سے قطع نظراس ناول میں معنوی اور اسلوبیاتی سطح پرتنوع کے ساتھ ساتھ وسعت بھی دکھائی دیتی ہے، جس کے حوالے سے قاری کو معلوم ہوتا ہے کہ عہد حاضر میں ہندوستانی معاشرتی تہذیب پر مغربیت کا کافی گہرا اثر ہے اور سیاسی وضع قطع تو بالکل فرنگی نقطۂ نظر سے مملو ہے۔اور انھیں وجوہات و علل سے انسانی اخلاقی اقدار کی پامالی رونما ہوئی ہے۔جدید مغربی تصورات و تفکرات نے انسانی فلاح و بہبود کے لیے فلسفیانہ موشگافیوںکی دقتیں بھی سہیںمگر کوئی بھی فلاحی فلسفہ انسانی معاشرے کے لیے حیات کا درماں نہ بن سکا۔

حسین الحق کا تیسر ا ناول ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ ’’اماوس میں خواب‘‘ (2017ء) ہے۔ اس ناول کا موضوع ملک کے موجودہ سیاسی و سماجی حالات تھے۔اس کا کینواس وسیع ہے جس میں آزادی کے بعد مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات و انقلابات کی ترجمانی کی گئی ہے۔

 اختصاص:

اُردو فکشن کے آبرو جناب حسین الحق صاحب کو صرف کہانی کار کہنا شاید ان کے ساتھ زیادتی ہوگی، در حقیقت وہ ایک معلم، مفکر، فلسفی، تاریخ داں، متصوّف، ماہرنفسیات، مصلح اور عالمی ادبیات کے عارف بھی ہیں۔ ان کی شخصیت کے یہ پہلو ان کے ناولوں اور افسانوں میں بخوبی نظر آتے ہیں، یہی خصوصیات انھیں ہم عصر فکشن نگاروں سے الگ کرتی ہیں اور ان کی کہانیاں صرف کہانیاں نہیں رہتیں وہ ہمارے ادب عالیہ کا اہم فن پارہ بن جاتیں ہیں۔

 ایوارڈ:

گزشتہ دو تین عشروں میں حسین الحق فکر و فن اور علم و بصیرت کے اس بلند مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ان کے ہم عصروں میں بہت کم لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ حسین الحق صاحب کو شاعری سے بھی خوب لگاؤ رہا۔ انھوں نے لاتعداد غزلیں اور نظمیں لکھی ۔ان کی نظموں کا مجموعہ ’’آخری گیت‘‘1971ء میں شائع ہوا۔آج تک آپ کے تقریباً دو سو افسانے، ڈیڑھ سو مضامین، سات افسانوی مجموعے، تین عہدساز ناول، چار نثری کتابیں شائع ہو چکی ہیں، جس میں’’مطلع‘‘ کو بہار اُردو اکیڈمی نے پہلے انعام اور ناول ’’فرات‘‘ کو دوسرے انعام سے نوازا، اور افسانوی مجموعوں’ ’پس پردہ شب ‘‘ اور’ ’صورتِ حال‘‘ کو بھی دوسرے انعام کا مستحق سمجھا۔ 2017 ءمیں مغربی بنگال اُردو اکادمی کی طرف سے ان کو مغربی بنگال اُردو اکادمی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ حسین الحق صاحب کو 2018 ء کا غالب ایوارڈ برائے اُردو نثر، غالب انسٹی ٹیوٹ (دہلی) کی طرف سے بھی سرفراز کیا گیا، یہ ایوارڈ 12 دسمبر2018 ء کو بین الاقوامی غالب تقریبات کے افتتاحی جلسے میں عطا کیا گیا۔

 تالیفات:

پروفیسر حسین الحق نے تصوّف و روحانیت کے موضوع پر بھی مسلسل مقالات تحریر کیے۔ آپ کی مشہور تالیفات کے نام یہ ہیں :

(1) آثار حضرت وحید( تصنیف حضرت سرور اورنگ آبادی )

(2) غیاث الطالبین( تصنیف حضرت مولانا غیاث الدین اصدقی)

(3) فوز و فلاح کی گمشدہ کڑی (تصنیف مولانا انوار الحق شہودی )

(4) شرفِ آدم کا نقطۂ عروج (تصنیف مولانا انوار الحق شہودی )

(5) آثار بغاوت(برگزیدہ دینی و روحانی شخصیت حضرت وصی کی سوانح اور عظیم مجاہد بزرگ حضرت قاضی علی حق کا تذکرہ )

 تدوین:

پروفیسر حسین الحق نے اپنے والد حضرت مولانا انوار الحق شہودی سہسرامی کے دو شعری مجموعے مرتب کرکے شائع کیے۔ انھوں نے قاضی علی حق اکیڈمی کے نام سے باقاعدہ اشاعتی ادارہ ’’ آمڈاری ہاوس‘‘ سہسرام میں قائم کیا، جہاں سے اپنی اور اپنے والد محترم کی نگارشات کے علاوہ شعراء و ادباء کی معیاری کتابیں بھی شائع کیں۔ ان سب کے علاوہ اتحاد، اساتذہ کی اہمیت، نثر کی اہمیت، اور اُردو فکشن ہندوستان میں ان کی گراں قدر تنقیدی و تحقیقی تصانیف ہیں۔

 تصانیف :

(1) پس پردہ شب( 1981ء)

(2) صورتِ حال( 1982ء)

(3) بارش میں گھرا مکان (1984ء)

(4) گھنے جنگلوں میں (1989ء)

(5) مطلع (1995ء)

(6) سوئی کی نوک پر رُکا لمحہ (1997ء)

(7) نیو کی اینٹ (2009ء)

(8) آخری گیت (شاعری1977ء)

(9) بولو مت چپ رہو (ناول 1990ء)

(10) فرات (1992ء)

(11) عصرحضرت وصی (سیرت 2001ء)

(12) عصرِ بغاوت (2008ء)

(13) نثر کی اہمیت (2009ء)

(14) اُردو افسانہ ہندوستان میں (2010ء)

(15) تفہیم تصوف (2012ء)

(16) اماوس میں خواب (2017ء)

(17) حسین الحق کے منتخب افسانے (2019ء)۔

حسین الحق اپنے دورکے اُن تخلیق کاروں میں سے تھے جن کے بغیر اُردو فکشن کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ بحیثیت ناول نگار ان کی انفرادیت مسلم ہے۔ تنقید پر بھی انھوں نے گہری نظر ڈالی ہے اور ان کا اسلوب بھی اپنے ہم عصروں سے مختلف ہے۔ ان کی تحریروں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے عہد اور ماحول کے تضادات کی ترجمانی کرتی ہیں جس میں افسانوی انفرادیت کے ساتھ ساتھ فکشن کی نئی جمالیات بھی شامل ہیں۔

ڈاکٹرشہاب ظفر اعظمی کو دیے ایک انٹر ویو میں وہ اپنے وسیلۂ اظہار کے طور پر فکشن کے انتخاب کے ضمن میں کہتے ہیں کہ:

’’میرے خیال میں لکھنے والا خود کسی صنف کا انتخاب نہیں کرتا۔شاید صنف لکھنے والے کا انتخاب کرتی ہے کیوں کہ اختر اورینوی، آل احمد سرور، کلیم احمد، احتشام حسین، شمس الرحمن فاروقی سب نے شاعری کے انتخاب کی کوشش تو کی اور اس کے نمونے بھی پیش کیے مگر جس صنف نے مذکورہ بالا حضرات کا انتخاب کیا وہ حضرات شاعر نہیں۔ معلوم ہوا کہ یہاں لکھنے والے کی مرضی نہیں چلتی۔ خود میرا بھی یہی معاملہ ہے۔ شاعری کی ہے اور جم کے کی ہے۔ میری کاپیوں میں کم از کم سو غزلیں اور ڈیڑھ سو نظمیں موجود ہیں۔ مضامین بھی لکھے اور چھپے بھی، واہ واہ بھی ہوئی مگر وہ مولوی مدن کی سی اگر افسانوں میں ہی پیدا ہوئی تو اس کا مطلب یہی ہے کہ شاعری اور مضمون تو میرا انتخاب تھا مگر میں دراصل فکشن کا انتخاب ہوں۔‘‘
(ایک انٹرویو، ماہنامہ ’’اردو دنیا‘‘، ناشر: قومی کونسل براے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی، دسمبر 2003ء)

حسین الحق کو دیر سے ہی سہی ان کے ناول ’’اماوس میں خواب‘‘ کے لیے ساہتیہ ا کادمی ایوارڈ 2020ء سے نوازا گیا۔ ان کی ادبی کاوشوں کے مد نظر انھیں غالب ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا۔

 وفات:

سینکڑوں افسانوں اور درجنوں کتب کے تخلیق کار ، مترجم ، مصنف ، نظریہ ساز اور نابغۂ روزگار شخصیت اپنے حصے کی خدمات پیش کرکے 23 دسمبر 2021ء کو پٹنہ میں ابدی نیند سوگئی۔ان کے جانے سے اردو فکشن میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کی بھر پائی اس صدی میں مشکل ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!