خلاصہ نظم آدمی نامہ از: نظیر اکبر آبادی
Nazeer Akbarabadi ki Nazm Aadmi Nama ka Khulasa
نظم آدمی نامہ از: نظیر اکبر آبادی
آدمی نامہ نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم ہے جس میں آدمی کے دکھ درد و غم اور تکلیفوں و دیگر پریشانیوں کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اردو میں نظم کے دو معنی ہوتے ہیں۔ پہلے معنی میں تمام شاعری یعنی موزوں کلام کو نظم کہا جاتا ہے اور دوسرے معنی میں شاعری کی خاص صنف کو نظم کہا جاتا ہے۔ نظم کے لیے کسی موضوع یا مضمون کی قید نہیں ہوتی۔ نظم میں زندگی کے ہر قسم کے تجربات، احساسات اور خیالات بیان کیے جاتے ہیں۔ اردو میں نظم کا آغاز اٹھارہویں صدی عیسوی سے ہوتا ہے لیکن نظم نگاری کا باقاعدہ فروغ انیسویں صدی کے آخر میں ہوا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نظم کی تکنیک اور ہیئت شکل و صورت میں بہت سی تبدیلیاں بھی ہوئی۔
شاعر نظیر اکبر آبادی کا تعارف
نظیر اکبر آبادی اردو کے اولین نظم نگاروں میں سب سے اہم ہیں۔ان کا پورا نام ولی محمد تھا اور تخلص نظیر کرتے تھے۔ نظیر اکبر آبادی ۱۷۳۷ میں پیدا ہوئے دہلی پر احمد شاہ ابدالی کے حملے کی وجہ سے وہ اپنی ماں اور نانی کے ساتھ آگرہ آگئے اور تاج محل کے قریب محلہ تاج گنج میں رہنے لگے۔نظیر اکبرآبادی کی تمام عمر یہی پر گزری۔نظیر کی ابتدائی تعلیم اس وقت کی عام تعلیم کے مطابق ہوئی نظیر کو اردو زبان کے ساتھ فارسی زبان میں بھی مہارت حاصل تھی۔نظیر اکبر آبادی کا مزاج صوفیانہ تھا۔نظیر نے اپنی زندگی میں بہت سی نظمیں لکھیں ان کا کلام جتنا مل سکا اسے کلیات نظیر کے نام سے شائع کیا جاچکا ہے۔وہ ایک عوامی شاعر تھے جن کو بڑے لوگوں سے کوئی تعلق نہ تھا وہ ہر طرح کے لوگوں سے ملتے جلتے اور ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔ میلے ٹھیلے کھیل تماشے نوٹنکی بٹیر بازی پتنگ بازی کبڈی ہر طرح کے کھیل تماشوں میں ان کی دلچسپی تھی اس لیے عوامی مزاج کی ان کی تمام چیزوں کو نظیر اکبر آبادی نے اپنی نظم نگاری کا موضوع بنایا ہے۔
اسی کے ساتھ نظیر ایک کھلے ذہن اور بڑے دل کے شاعر تھے ہندو مسلم ہر مذہب کے لوگوں سے ان کا تعلقات گہرا تھا اور ہر مذھب کا وہ بہت احترام کرتے تھے اس لئے ہولی دیوالی شب برات عید وغیرہ پر انہوں نے خوب صورت نظمیں لکھی ہے امیر خسرو کے بعد نظیر اکبر آبادی قومی یکجہتی اور بھائی چارگی کی ایک بڑی مثال ہے آدمی نامہ بنجارہ نامہ روٹی نامہ اور ہولی نظیر اکبر آبادی کی مشہور اور اہم نظمیں ہیں۔ نظیر نے بچوں کے لیے نظمیں لکھیں کبوتر بازی پتنگ بازی اور اور تربوج بغیرہ ان کی کچھ نظمیں جانوروں پر ہے جیسے ریچھ کا بچہ بلبل کی لڑائی وغیرہ ۱۸۳۰ میں نظیر اکبر آبادی کا انتقال ہوا۔
دنیا میں پادشہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
زردار بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ابدال، قطب و غوث، ولی آدمی ہوئے
منکر بھی آدمی ہوئے اور کفر کے بھرے
کیا کیا کرشمے کشف و کرامات کے لیے
حتٰی کہ اپنے زہد و ریاضت کے زور سے
خالق سے جا ملا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
فرعون نے کیا تھا جو دعویٰ خدائی کا
شداد بھی بہشت بنا کر ہوا خدا
نمرود بھی خدا ہی کہاتا تھا برملا
یہ بات ہے سمجھنے کی آگے کہوں میں کیا
یاں تک جو ہو چکا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
کل آدمی کا حسن و قبح میں ہے یاں ظہور
شیطاں بھی آدمی ہے جو کرتا ہے مکر و زور
اور ہادی رہنما ہے سو ہے وہ بھی آدمی
مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآن اور نمازیاں
اور آدمی ہی ان کی چراتے ہیں جوتیاں
جو ان کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
یاں آدمی پہ جان کو وارے ہے آدمی
اور آدمی پہ تیغ کو مارے ہے آدمی
پگڑی بھی آدمی کی اتارے ہے آدمی
چلا کے آدمی کو پکارے ہے آدمی
اور سن کے دوڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
چلتا ہے آدمی ہی مسافر ہو لے کے مال
اور آدمی ہی مارے ہے پھانسی گلے میں ڈال
یاں آدمی ہی صید ہے اور آدمی ہی جال
سچا بھی آدمی ہی نکلتا ہے میرے لال
اور جھوٹ کا بھرا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
یاں آدمی ہی شادی ہے اور آدمی بیاہ
قاضی وکیل آدمی اور آدمی گواہ
تاشے بجاتے آدمی چلتے ہیں خواہ مخواہ
دوڑے ہیں آدمی ہی تو مشعل جلا کے راہ
اور بیاہنے چڑھا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
یاں آدمی نقیب ہو بولے ہے بار بار
اور آدمی ہی پیادے ہیں اور آدمی سوار
حقہ صراحی جوتیاں دوڑیں بغل میں مار
کاندھے پہ رکھ کے پالکی ہیں دوڑتے کہار
اور اس میں جو پڑا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
بیٹھے ہیں آدمی ہی دکانیں لگا لگا
اور آدمی ہی پھرتے ہیں رکھ سر پہ خونچا
کہتا ہے کوئی لو کوئی کہتا ہے لا رے لا
کس کس طرح کی بیچیں ہیں چیزیں بنا بنا
اور مول لے رہا ہے سو ہے وہ آدمی
طبلے مجیرے دائرے سارنگیاں بجا
گاتے ہیں آدمی ہی ہر اک طرح جا بجا
رنڈی بھی آدمی ہی نچاتے ہیں گت لگا
اور آدمی ہی ناچے ہیں اور دیکھ پھر مزا
جو ناچ دیکھتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
یاں آدمی ہی لعل و جواہر میں بے بہا
اور آدمی ہی خاک سے بد تر ہے ہو گیا
کالا بھی آدمی ہے کہ الٹا ہے جوں توا
گورا بھی آدمی ہے کہ ٹکڑا ہے چاند سا
بد شکل بد نما ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اک آدمی ہیں جن کے یہ کچھ زرق برق ہیں
روپے کے جن کے پاؤں ہیں سونے کے فرق ہیں
جھمکے تمام غرب سے لے تا بہ شرق ہیں
کم خواب تاش شال دو شالوں میں غرق ہیں
اور چیتھڑوں لگا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
حیراں ہوں یارو دیکھو تو کیا یہ سوانگ ہے
اور آدمی ہی چور ہے اور آپی تھانگ ہے
ہے چھینا جھپٹی اور بانگ تانگ ہے
دیکھا تو آدمی ہی یہاں مثل رانگ ہے
فولاد سے گڑھا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
مرنے میں آدمی ہی کفن کرتے ہیں تیار
نہلا دھلا اٹھاتے ہیں کاندھے پہ کر سوار
کلمہ بھی پڑھتے جاتے ہیں روتے ہیں زارزار
سب آدمی ہی کرتے ہیں مردے کے کاروبار
اور وہ جو مر گیا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اشراف اور کمینے سے لے شاہ تا وزیر
یہ آدمی ہی کرتے ہیں سب کار دل پذیر
یاں آدمی مرید ہے اور آدمی ہی پیر
اچھا بھی آدمی ہی کہاتا ہے اے نظیرؔ
اور سب میں جو برا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
نظم آدمی نامہ کی تشریح
آدمی نامہ نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم ہے جس میں آدمی کے دکھ درد و غم اور تکلیفوں و دیگر پریشانیوں کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس نظم کے ذریعے نظیر اکبر آبادی نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ایک آدمی کو اپنی زندگی میں کن کن پریشانیوں اور دشواریوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔اس کے ساتھ ہیں ہیں نظیر اکبر آبادی نے اس نظم میں آدمی کی مختلف قسمیں اور صفات کا بیان بھی بڑے ہی دلچسپ انداز میں کیا ہے۔
دنیا میں پادشہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی،
اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی،
زردار بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی،
نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی،
ٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی!
نظم آدمی نامہ کے اس بند میں نظیر اکبر آبادی فرماتے ہیں کہ دنیا میں جو بادشاہ ہے وہ بھی آدمی ہی تو ہے اور جو غریب يا فقیر ہے وہ بھی تو آدمی ہی ہے۔ جس کے پاس مال و زر ہے وہ بھی ایک آدمی ہے اور جو بے یارو مددگار ہے وہ بھی آدمی ہی ہے۔ اور جو اچھی اچھی چیزیں اور نعمتیں کھا رہا ہے وہ بھی ایک آدمی ہی ہے اور جو سوکھے ٹکڑے کھا رہا ہے یا بھوکوں مر رہا ہے وہ بھی آدمی ہے۔
ابدال، قطب و غوث، ولی آدمی ہوئے،
منکر بھی آدمی ہوئے اور کفر کے بھرے،
کیا کیا کرشمے کشف و کرامات کے لیے،
حتٰی کہ اپنے زہد و ریاضت کے زور سے،
خالق سے جا ملا ہے سو ہے وہ بھی آدمی!
نظیر اپنی نظم آدمی نامہ کے اس بند میں فرماتے ہیں کہ جو اللہ کے نیک بندے ہیں مثلاً:قطب و غوث، ابدال اور ولی وغیرہ وہ بھی تو آدمی تھے اور جس نے خدا کی خدائی سے انکار کر دیا اور دنیا بھر میں کافر کہلاتے پھرتے ہیں وہ بھی آدمی ہیں۔ اور جن خدا کے نیک بندوں نے اپنے ہنر اور کمال کی خصوصیت سے خدا کے نیک بندوں کو فیض پہنچایا وہ بھی آدمی ہی ہے۔ یعنی اچھے اور برے دونوں قسم کے آدمی اسی دنیا میں موجود ہیں۔
فرعون نے کیا تھا جو دعویٰ خدائی کا،
شداد بھی بہشت بنا کر ہوا خدا،
نمرود بھی خدا ہی کہاتا تھا برملا،
یہ بات ہے سمجھنے کی آگے کہوں میں کیا،
یاں تک جو ہو چکا ہے سو ہے وہ بھی آدمی!
نظیر آدمی نامہ کے اس بند میں کہتے ہیں کہ وہ لوگ جو خدائی کا دعویٰ کرتے تھے وہ آدمی ہی تھے خواہ وہ فرعون ہو، نمرود ہو یا شدّاد جن نے دنیا میں جنت بنا کر اپنی خدائی کا دعویٰ کیا تھا یہ آدمی ہی تھے۔ اب میں آگے کیا لکھوں آپ ہی اس بات پر غور کرے کہ یہاں تک جو کچھ کیا یا کر رہے ہیں یہ لوگ بھی اللہ ہی کی مخلوق یعنی آدمی ہی ہیں۔
یاں آدمی ہی نار ہے اور آدمی ہی نور،
یاں آدمی ہی پاس ہے اور آدمی ہی دور،
کُل آدمی کا حُسن و قبح میں ہے یاں ظہور،
شیطان بھی آدمی ہے، جو کرتا ہے مکر و زُور،
اور ہادی رہنما ہے، سو ہے وہ بھی آدمی!
آدمی نامہ نظم کے اس بند میں نظیر اکبر آبادی فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں آگ کی مانند بھی آدمی ہیں۔ اور نور کے مانند بھی، یہاں آدمی آدمی کے پاس ہے اور دور بھی۔ اور آدمی کے عمل ہی سے اچھائی اور برائی ظاہر ہوتی ہے۔ آدمی کو دھوکا فریب دینے والا بھی آدمی ہے اور ان کو صحیح راستہ دکھانے والا بھی آدمی ہی ہے۔ مطلب یہ کہ اس دنیا میں دو قسم کے انسان ہیں ایک نیک اور دوسرا بد، نیک لوگ اپنے اچھے اعمال کی بدولت جنت کے حقدار ہیں تو برے لوگ برے اعمال کی بدولت جہنم کے حقدار ہیں۔ یعنی آدمی ہی جنت اور جہنم میں جانے والے ہیں۔
مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں،
بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں،
پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآن اور نماز، یاں،
اور آدمی ہی اُن کی چراتے ہیں جوتیاں،
جو اُن کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی!
نظم آدمی نامہ نہ کے اس بند میں نظیر کہتے ہیں کہ اس دنیا میں مسجد بنانے والے، مسجد میں خطبہ پڑھنے والےاور نماز پڑھنے والے بھی آدمی ہی ہیں۔ اور ان کے علاوہ مسجد میں قرآن اور نماز پڑھنے والوں کی جوتیاں چرانے والے اور ان کو ایسا کرنے سے روکنے والے بھی آدمی ہی ہیں۔ یعنی اچھے برے نیک و بد سب آدمی ہی ہیں۔
یاں آدمی پہ جان کو مارے ہے آدمی،
اور آدمی ہی تیغ سے مارے ہے آدمی،
پگڑی بھی آدمی کی اتارے ہے آدمی،
چلا کے آدمی کو پکارے ہے آدمی،
اور سن کے دوڑتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی!
اس بند میں نظیر کہتے ہیں کہ انسان کی کئی چہرے ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں ایسے بھی آدمی ہوتے ہیں جو دوسروں کے لیے اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔ اور ایسے بھی آدمی ہوتے ہیں جو اپنے فائدے کے لیے دوسروں کا خون کر دیتے ہیں۔ آدمی ہی دوسرے آدمی کی بےعزتی کرتا ہے اور مدد کو پکارنے والا اور اس کی مدد کے لیے آنے والا بھی آدمی ہی ہوتا ہے۔
چلتا ہے آدمی ہی مسافر ہو لے کے مال،
اور آدمی ہی مارے ہے پھانسی گلے میں ڈال،
یاں آدمی ہی صید ہے اور آدمی ہی جال،
سچا بھی آدمی ہی نکلتا ہے میرے لال،
اور جھوٹ کا بھرا ہے سو ہے وہ بھی آدمی،
اس بند میں نظیر کہتے ہیں کہ اس دنیا میں سفر کرنے والا، گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال کر مارنے والا، آدمی کو اپنی بربریت(وحشی پن) کا شکار بنانے والا، آدمی کو اپنے جال میں پھنسانے والا بھی آدمی ہی ہے۔ جو سچا ہے وہ بھی آدمی ہی ہے اور جو جھوٹا ہے وہ بھی آدمی ہی ہے۔
یاں آدمی ہی شادی ہے اور آدمی بیاہ،
قاضی وکیل آدمی اور آدمی گواہ،
تاشے بجاتے آدمی چلتے ہیں خوامخواہ،
دوڑے ہیں آدمی ہی مشعلیں جلا کے واہ،
اور بیاہنے چڑھا ہے سو ہے وہ بھی آدمی!
اس بند میں نظیر کہتے ہیں کہ یہاں آدمی کی آدمی (مردو عورت) سے شادی ہوتی ہے اور اس شادی میں شرکت کرنے والے باراتی، وکیل، گواہ اور قاضی (نکاح پڑھانے والا) وہ بھی آدمی ہی ہوتے ہیں۔ اور بارات کے آگے ناچنے، گانے اور بجانے والے بھی آدمی ہی ہوتے ہیں۔ رات کے وقت مشعلیں (شمع/چراغ دان) جلا کر جو لوگ آگے آگے چلتے ہیں وہ بھی اور گھوڑے پر سوار ہوکر دلہن بیاہنے آتا ہے وہ بھی آدمی ہی ہوتا ہے۔
یاں آدمی نقیب ہو بولے ہے بار بار،
اور آدمی ہی پیادے ہیں اور آدمی سوار،
حقہ، صراحی، جوتیاں، دوڑیں بغل میں مار،
کاندھے پہ رکھ کے پالکی ہیں آدمی کہار،
اور اس پہ جو چڑھا ہے سو ہے وہ بھی آدمی!
اس بند میں نظیر نے اپنے زمانے کی سماجی حالت کا نقشہ بڑی خوبصورتی سے کھینچا ہے کہ جب رئیسوں اور امیروں کی سواری جاتی ہے تو نقیب (خبر دینے والا/مدح خواں/ہرکارہ) آگے آواز لگاتے جاتے ہیں اور راستے میں پیدل اور سواری پر چلنے والے ان کے ساتھ حقہ، صراحی اور جوتیاں بغل میں دباۓ دوڑتے چلے جاتے ہیں۔ جن کناروں کے کندھے پر پالکی رکھی ہوتی ہیں اور پالکی میں جو بیٹھا ہے وہ بھی آدمی ہی ہے۔
بیٹھے ہیں آدمی ہی دکانیں لگا لگا،
کہتا ہے کوئی لو کوئی کہتا ہے لا رے لا،
اور آدمی ہی پھرتے ہیں سر رکھ کے خوانچہ،
کس کس طرح سے بیچیں ہیں چیزیں بنا بنا،
اور مول لے رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی!
اس بند میں نظیر کہتے ہیں کہ دکان لگانے والے، دکان پر بیٹھنے والے، سامان خریدنے والے سبھی آدمی ہی ہیں۔ اور کچھ لوگ اپنے سروں پر چیزیں رکھ کر بیچ رہے ہیں وہ بھی آدمی ہی ہیں۔
یاں آدمی ہی لعل و جواہر ہے بے بہا،
اور آدمی ہی خاک سے بد تر ہی ہو گیا،
کالا بھی آدمی ہے اور اُلٹا ہے جُوں توا،
گورا بھی آدمی ہے کہ ٹکڑا سا چاند کا،
بد شکل و بد نما ہے سو ہے وہ بھی آدمی!
اس بند میں نظیر کہتے ہیں کہ اس دنیا میں لعل (شُرخ رنگ جواہر/معشوق کے ہونٹ) و جواہر (قیمتی پتھر/یاقوت/ہیرہ) سب سے زیادہ قیمتی ہیں اور آدمی ہی اس دنیا میں خاک سے بدتر ہو گیا ہے۔ مطلب یہ کہ انسان قیمتی لعل جواہر حاصل کرنے کے لیے بُرے سے بُرے کام کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ اس دنیا میں چاند کی طرح چمکنے والے خوبصورت آدمی بھی ہیں اور توے کی طرح کالے اور بدصورت چہرے والے آدمی بھی ہوتے ہیں۔
اک آدمی ہیں جن کی یہ کچھ زرق برق ہیں،
روپے کے ان کے پائوں ہیں سونے کے فرق ہیں،
جھمکے تمام غرب سے لے تا بہ شرق ہیں،
کمخواب، تاش، شال، دوشالوں میں غرق ہیں،
اور چیتھڑوں لگا ہے سو ہے وہ بھی آدمی!
اس بند میں نظیر کہتے ہیں کہ اس دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جن کے پاس روپے پیسے کی فراوانی ہے، ان کے قدموں میں روپیہ کے ڈھیر ہیں اور ان کی پیشانی سونے کے مانند چمکدار ہے۔ چاروں طرف ان کی شہرت کے چرچے ہیں۔ اور وہ قیمتی لباسوں میں ڈھکے ہوے ہیں۔ وہی دوسری طرف ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے جسم پر چیتھڑے (پھٹے پرانے کپڑے) پہن رکھے ہیں۔ مطلب اس دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جن کو عیش و آرام کی سب چیزیں حاصل ہیں۔ اور ایسے بھی لوگ ہیں جن کو دو وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا اور نہ پہننے کو کپڑے ملتے ہیں۔
مرنے میں آدمی ہی کفن کرتے ہیں تیار،
نہلا دھلا اٹھاتےہیں کاندھے پہ کر سوار،
کلمہ بھی پڑھتے جاتے ہیں روتے ہیں زار و زار،
سب آدمی ہی کرتے ہیں مردے کا کاروبار،
اور وہ جو مر گیا ہے سو ہے وہ بھی آدمی!
اس بند میں نظیر کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد کفن پہنانے والا، قبرستان لے جانے والیں، میت میں شرکت کرنے والے، اور میت کے ساتھ کلمہ پڑھتے ہوئے چلنے والے آدمی ہیں۔ اور مردے کی آخری رسومات ادا کرنے والے اور نمازِ جنازہ پڑھانے والا آدمی ہی ہوتا ہے۔ اور مرنے والا آدمی ہی ہوتا ہے۔
اشراف اور کمینے سے لے شاہ تا وزیر،
ہیں آدمی ہی صاحبِ عزت بھی اور حقیر،
یاں آدمی مرید ہیں اور آدمی ہی پیر،
اچھا بھی آدمی ہی کہاتا ہے اے نظیر،
اور سب میں جو برا ہے سو ہے وہ بھی آدمی!
نظم کے اس آخری بند میں نظیر کہتے ہیں کہ شریف سے لے کر بد معاش تک، اور بادشاہ سے لے کر وزیر تک سبھی آدمی ہی ہوتے ہیں۔ اور جو کمتر درجے (حقیر و فقیر) کے ہیں وہ بھی آدمی ہی ہیں۔ یہاں پیر اور مرید آدمی ہی ہیں۔ اور آخری دو مصرعوں میں نظیر اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اے نظیر اس دنیا میں اچھے اور بُرے دونوں قسم کے آدمی ہوتے ہیں۔