ArticlesISLAMIC KNOWLEDGE
Hamari Energy Kaha Barbad Ho rahi Hai ?
ہماری انرجی کہاں برباد ہو رہی ہے
تحریر:- خالد ایوب مصباحی شیرانی
khalidinfo22@gmail.com
سن شعور میں قدم رکھنے کے بعد سے ہی ہم نے مذہبی طبقے کو چند مسائل پر باہم دست و گریباں ہوتے، پھر اس دشمنی میں کافی دور تک جاتے اور انجام کار کے طور پر اپنی کافی انرجی اور وقت برباد کرنے کے بعد ٹھنڈے ہوتے دیکھا ہے۔ ماضی میں تصویر اور ٹیلی ویژن کے جواز اور عدم جواز کا مسئلہ، چین والی گھڑی پہن کر نماز پڑھنے کا حکم، نماز میں مائک کا استعمال کرنے یا نہ کرنے، چلتی ٹرین میں پڑھی ہوئی نماز کے اعادہ یا عدم اعادہ، ملی مسائل کے حل کے لیے مسلکی اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک مجلس میں بیٹھنے یا نہ بیٹھنے جیسے کوئی درجنوں مسائل دیکھے جن میں علما متخالف رہے، کچھ وقت تک یہ مسائل عروج پر رہے، دونوں طرف سے محاذ آرائی ہوئیں، کتابیں لکھی گئیں، اسٹیج سجائے گئے لیکن آخر میں نتیجہ یہ نکلا کہ کسی ایک متفقہ فیصلے پر پہنچے بنا ہی دونوں گروپ تھک ہار کر اور اپنی انرجی اور وقت ضائع کرنے کے بعد ٹھنڈے پڑ گئے اور آج بھی جب کسی سنجیدہ فکر فقیہ کے سامنے یہ مسائل آتے ہیں، وہ ایک متفقہ فیصلہ لیتے ہوئے ہچکچاتا ہے۔
ہم نے ایسا کبھی نہیں دیکھا کہ کسی ایک گروپ نے سرینڈر کر دیا ہو یا دوسرے فریق کا موقف تسلیم کر لیا ہو بلکہ ان اختلافات میں تو یہ بھی نہیں دیکھا کہ دلائل کی قوت جیت ہو گئی ہو اور علمی کم زوریاں شکست کھا گئی ہوں بلکہ ہر بار شخصیت کا جھنڈا ہی اونچا دیکھا اور چرب زبانی کو ہی پیش پیش پایا۔ ممکن ہے علما کی علم مزاجی کی بنیاد پر ان کے لیے یہ مسائل الجھن یا اکتاہٹ کا سبب نہ بنے ہوں اور بہت ممکن ہے علما یا مشائخ سے گہری وابستگی رکھنے والے عوام کے لیے بھی دل چسپی کا موضوع رہے ہوں لیکن ہمیں یہ سچ تسلیم کرنا چاہیے کہ عوام میں ہمیشہ بڑی تعداد ایسے لوگوں کی رہتی ہے جو اپنے مزاج کے اعتبار سے آزاد طبع ہوتے ہیں، نہ وہ کسی عالم دین سے متعلق ہوتے ہیں، نہ کسی شیخ طریقت سے، نہ انھیں بہت زیادہ شریعت کے بارے میں معلومات ہوتی ہے اور نہ وہ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں، نماز جمعہ کے بعد وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ انہیں موٹے انداز میں عمل کرنے کے لیے شریعت کا حکم معلوم ہو جائے اور بس۔ اس طرح کے اختلافات کا اور کوئی نقصان نہ بھی ہوا ہو تو یہ نقصان کم نہیں کہ اس مزاج کا طبقہ جو اتفاق سے مسلم آبادی کا بڑا طبقہ ہے علما، مشائخ اور پھر نتیجتا شریعت مطہرہ سے دور ہوتا چلا گیا اور آج وہی طبقہ الحاد بے دینی اور مادیت کی طرف راغب ہے یا دشمن کی منصوبہ بند سازشوں نے انہیں اپنا سافٹ ٹارگٹ بنا رکھا ہے۔ اس کی دلیل کے طور پر موجودہ مرکزی حکومت کے بر سر اقتدار ہونے کے بعد سے لے کر اب تک ٹیلی ویژن پر چل رہی مذہبی ڈبیٹس اور طلاق جیسے متنازع مسائل کو پیش کیا جا سکتا ہے جن کی سب سے زیادہ زد اسی طبقے پر پڑی اور وہ آج گلمہ گو ہوتے ہوئے بھی اسلام کی حقانیت پر ریمارک کرتا ہے۔
اس طرح کے اختلافات چوں کہ غیر معقول بھی تھے اور غیر نتیجہ خیز بھی جن کا انجام یہ ہوا کہ یہ ہماری عادت کا حصہ تو بن گئے لیکن علمیت نہ ہونے کی وجہ سے اندرونی سطح پر یہ نقصان ہوا کہ کم تعلیم یافتہ مذہبی طبقہ فرق مراتب نہ کر سکا جس کا منفی اثر یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ ایمان و کفر کے اختلافات بھی انھیں اسی طرح کے غیر معقول حربے اور علما کی چپقلشیں نظر آنے لگے، علمی معیارات، سنجیدگیاں اور حق و باطل کو پرکھنے کے شرعی پیمانے مزاج سے روٹھ گئے۔ یہ نقصان بجائے خود اتنا بڑا اور زبردست نقصان ہے کہ چند نسلیں گنوائے بنا اس کی تلافی کر پانا بڑا مشکل معلوم ہوتا ہے۔
اس طرح کی سورشوں کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہوا کہ ان اختلافات میں بے جا طرف داریوں کی وجہ سے ہمارے لیے شریعت و دیانت دوسرے درجے کی اور شخصیات عملاً پہلے درجے کی چیز بن گئے۔
تیسرا نقصان یہ ہوا کہ حق و باطل باہم ایسے مخلوط ہو گئے کہ اب ان کا امتیاز بھی دلائل کی قوت کی بجائے شخصیات کے چہروں سے طے ہونے لگا۔ اس کی مثال کے طور پر رافضیت اور خارجیت کی موجودہ بحث کو پیش کیا جاسکتا ہے جس میں ایک انصاف پسند کو سر تا سر تعصب نظر آتا ہے کیوں کہ ایک طبقہ وہ ہے جو چند گم کردہ راہ سادات کی پیروی کرتے ہوئے رافضی نظریات کو آنکھ بند کر کے سپورٹ کر رہا ہے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو دیکھتی آنکھوں چند تعصبات کی وجہ سے شعوری یا غیر شعوری طور پر خارجی نظریات کا حامی ہے۔ جبکہ انصاف کی بات یہ ہے کہ حق و باطل کو پرکھنے کے پیمانے دونوں کے پاس نہیں۔
ان روایتی اختلافات کا چوتھا نقصان یہ ہوا کہ دعوتی اور ملی مسائل جو ہماری ترجیحات میں شامل ہونے چاہیے، ہمارا موضوع گفتگو ہی نہ رہے اور ہم ان سے کافی دور ہوتے چلے گئے جس کا فائدہ ہماری حریف جماعتوں نے اٹھایا اور ملکی، تعلیمی، سیاسی اور دعوتی کاموں میں وہ ہم سے اتنے آگے چلے گئے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان کی گرد راہ کو پانا بھی ہمارے لیے مشکل ہو چکا ہے۔
اس موقع پر افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف ماضی کا رونا نہیں، ہمارا حال بھی انہیں آزمودہ اور نقصان دہ مسائل کے حوالے ہے۔ آج بھی امامت، تکفیر، صحابیت، خارجیت، رافضیت اور مسلک وغیرہ کی درجنوں غیر ضروری بحثوں میں ہماری نسل نو جہاد کی صورت اپنی محنتیں جھونک رہی ہے یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ماضی اورحال ہی برباد نہیں، موجودہ حالات کی روشنی میں مستقبل بھی تباہ تباہ ہے۔
اگر تاریخی قوموں کی طرح ماضی کے تلخ تجربات سے سبق لیتے ہوئے مستقبل کو تابناک بنانے کی ہمیں بھی کوئی فکر ہے تو اپنے مستقبل کے خطوط طے کرنے چاہیے اور اپنے ماضی کا صرف ان چند اصولوں کی روشنی میں فیصلہ کر لینا چاہیے کہ:
٭ہم تسلیم کریں یا نہ کریں شخصیت پرستی ہماری غیر شعوری تربیت کا اٹوٹ حصہ رہی ہے اور اتفاق سے یہی بیماری کبھی کبھار حقانیت سے دوری کا سبب بن جاتی ہے۔
تلخ نوائی کے لیے معافی! یہ ہندوستانی معاشرے کی وہ خطرناک بیماری ہے جس سے بچ پانا بہت کم لوگوں کا مقدر ہوا ہے۔ ہم نے یہ دیکھا ہے ایک طبقے سے نالاں ہو کر چند لوگ کسی دوسرے خیمے میں جا کر پناہ لیتے ہیں لیکن جیسے وہ یہاں شخصیت کے حصار سے باہر نہیں تھے، مشرب کے ساتھ بغاوت کرنے کے بعد بھی وہ جس خانے میں گئے، اس شخصیت کے ارد گرد ہی گھوم رہے ہوتے ہیں۔
ماضی قریب میں کچھ لوگ اعلی حضرت امام احمد رضا خاں محدث بریلوی علیہ رحمہ کی شخصیت سے دور ہو کر ایک الگ دوراہے پر کھڑے ہوئے کیوں کہ انھیں یہ پسند نہ تھا کہ اعلی حضرت کا وہ جاہلانہ انٹروڈکشن پیش کیا جائے جو ہمارے خطبا غیر سنجیدگی کے ساتھ پیش کر رہے ہیں، مانا جا سکتا ہے کہ اس حد تک وہ حق بجانب تھے، لیکن رونا یہ ہے کہ وہ علمی اور دیانت دارانہ معیار بر قرار نہ رکھ سکے اور خطبا، پیروں سے بیزار ہونے کی بجائے بارگاہ رسالت میں مقبول شخصیت سے بیزار ہو گئے اور اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج وہی افراد طواغیت اربعہ کی تکفیر کرنے کی بجائے ان کی طرف داری میں لا یعنی سعی کررہے ہیں۔ یعنی شخصیت پرستی سے بیزاری کے باوجود ایسی شخصیت پرستی کے حصار میں بند ہوئے کہ ایمان بچانا مشکل ہو رہا ہے۔
٭ایک حد تک طرف داری اور اپنے صحیح یا غلط جیسے تیسے موقف کے متعلق ضد پر اتر آنا ہمارے تربیتی معاشرے کا موروثی مرض رہا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی خدمات سے کسے انکار ہوسکتا تھا لیکن ان کے اسی مرض نے آج نہ صرف ان کو ان کی خدمات سے زیادہ متنازع بنا رکھا ہے بلکہ رواں صدی کے لیے کچھ عظیم فتنوں کا قائد بھی بنا رکھا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ سنجیدہ فکر لوگ جن کا اپنا ایک معیار ہوتا تھا ڈاکٹر صاحب کی حمایت میں یہ بھی بھولے جا رہے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب اپنی تمام تر دینی، علمی، سیاسی، سماجی، معاشرتی، اخلاقی بلکہ ان کے دیوانوں کے مطابق تجدیدی خدمات کے باوجود چند جگہوں پر صریح گم راہیوں سے نہیں بچ سکے جن کی گم راہی پر پاکستان کے لگ بھگ علمائے کرام متفق ہیں۔ لیکن بایں ہمہ اس تعصب کو کیا کہا جائے کہ وہ آج تک ان تمام چیزوں سے ان دیکھی کر رہے ہیں، کیا اس سے بڑی تعصب، بے جا طرف داری اور ہٹ دھرمی کی کوئی مثال ہو سکتی ہے؟ حالاں کہ دردمندی اور امت کی سچی خیر خواہی کے جذبے سے دیکھا جائے تو اس قسم کے مسائل کا سیدھا سا حل یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنی وجہ سے امت کے بہت بڑے طبقے کو آزمائش میں نہ ڈالیں اور یا تو اپنے ان مسائل کی معقول تاویل پیش کر کے علما کو مطمئن کر دیں یا پھر ایمانی شان کے ساتھ توبہ کر لیں، ایسا کرنے میں ان کی کوئی ہتک نہیں بلکہ جتنا ان کی خدمات کا دائرہ وسیع ہو گا ان شاء اللہ تعالی اتنا ہی ان کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوگا لیکن اسے قدرت کی خفیہ تدبیر ہی کہا جائے گا کہ مطمئن کرنا تو دور عالی جاہ بات کرنے بلکہ بات کرنے کے لیے وقت دینے کے بھی روادار نہیں اور ادھر کچھ سر مست ایسے ہیں جو آں جناب کو راضی کرنے کی بجائے علمائے حق کی اس بڑی تعداد کو ہی مطعون قرار دے رہی ہے۔ واللہ خیر الماکرین۔
٭مفتی سمیت کسی بھی شخص سے علمی اور فکری خطا ہو سکتی ہے، جیسے اپنی خطا پر اڑ جانا اور رجوع نہ کرنا یا تو کم ظرفی کی نشانی ہوتی ہے یا کم علمی کی۔ اسی طرح کسی علمی شخصیت کی خطاؤں کو اول نظر میں اچھالنا یا ان کی ہتک حرمت کرنا ایمان داری کی نشانی نہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کتمان حق کیا جائے یا کسی گم راہ کو اپنی گم راہی کا دائرہ وسیع کرنے دیا جائے بلکہ جیسے کسی کی حرمت کا خیال رکھنا مومنانہ ذمہ داری ہے، اسی طرح کسی گم راہ کی گم راہی کا پردہ چاک کرنا بھی امر بالمعروف کے تحت اہم فرض ہے بلکہ حدیث پاک کے مطابق ایسے موقع پر خاموش رہنے والا عالم گونگا شیطان ہے۔ موجودہ دور میں اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا اور مصلحت و حکمت اور حق بیانی میں فرق کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ فروعی مسائل میں اختلاف الگ حیثیت رکھتا ہے لیکن اصولی مسائل میں اختلاف بھی ضروری ہوتا ہے اور اس اختلاف کا اظہار بھی نا گزیر۔
٭آخر میں حدیث میں بیان کردہ اس زمینی حقیقت کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمیشہ سے علما میں حسد کا مادہ وافر مقدار میں پایا جاتا ہے، نہ اس سے کوئی چھوٹا عالم مستثنی ہے اور نہ کوئی بڑا عالم الا ما شاء اللہ تعالیٰ۔ جب ہماری شریعت نے اس چیز کے حق ہونے پر مہر لگا دی ہے تو اب ہمیں اپنی انرجی اس پر برباد کرنا کہ فلاں عالم حاسد ہیں، تحصیل حاصل اور غیر معقول کام ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے زمانے کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اپنی داعیانہ ذمہ داریوں کی تکمیل پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے اور کسی بھی ایک موقف یا ایک شخصیت کا دامن پکڑنے سے پہلے ان اصولوں کو نظر میں رکھتے ہوئے ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہم سے کسی شخصیت کے متعلق باز پرس نہیں ہوگی، حق و باطل کے متعلق باز پرس ہو گی اور وہی دنیا اور آخرت میں کامیابی کا معیار ہے۔