ArticlesBiographyNEWS/REPORTS/PROGRAMMESSHAKHSIYAAT

Professor Saheb Ali ka Inteqal

ممبئی یونیورسٹی شعبہ اُردوکے سابق صدر پروفیسر صاحب علی کے لیے چندتعزیتی جملے

ایسا کہاں سے لاوں کہ تجھ سا کہیں جسے

ممبئی یونیورسٹی شعبہ اُردوکے سابق صدر پروفیسر صاحب علی کے لیے چندتعزیتی جملے

ممتاز علمی و ادبی شخصیت اور ممبئی یونیورسٹی شعبہ اردوکے سابق صدر پروفیسر صاحب علی 24 جنوری بروز جمعہ2020 ءکو اچانک اس دارِ فانی سے رحلت فرما گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس دکھ بھری خبر نے ادبی حلقے سے وابستہ افراد کواندرونی طور پر ہلا کر رکھ دیا۔ ممبئی یونیورسٹی کے لیکچرار پروفیسر قمر صدیقی صاحب نے اس سانحہ کی خبر سنائی تو میں نے ڈاکٹر رفیق زکریا وومینس کالج اورنگ آباد کے صدر شعبہ اُردو ڈاکٹر شرف النہار صاحبہ سے اس بابت بذریعہ فون بات کی۔ ڈاکٹر شرف النہار صاحبہ کو اس سانحہ کی خبر محترم عبدالستار دلوی صاحب کے ذریعے پہلے ہی مل چکی تھی۔ موصوفہ نے بتایا کہ اس دارِ فانی سے تو ہر ذی روح کو جانا ہے مگر اس طرح جانا کہ انسان کو سوچنے کی مہلت بھی نہ ملے ، انتہائی تعجب خیز ہے، کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس طرح کا سانحہ ہو جائے گا ۔ یہ قانون الٰہی ہے کہ ہر ذی روح شئے کو ایک دن موت کا مزہ چکھنا ہے مگر پروفیسر صاحب علی کے متعلق اس طرح سوچنا نہ دل قبول کر رہا ہے ، نہ دماغ اور نہ ہی فکر قبول کر رہی ہے مگر قانون قدرت پر یقین کرتے ہوئے اس دل دہلا دینے والے حادثے کو قبول کرنا ہی پڑے گا ۔ کچھ حقیقتیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کرنا ہوتا ہے ، یہ سانحہ ایسی ہی حقیقتوں میں سے ایک حقیقت ہے۔
میڈم نے بتایا کہ پروفیسر صاحب علی سے ان کا تعلق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے رہا ہے،آپ انتہائی خوش اخلاق ، ملنسار،منکسرالمزاج، ادبی ذوق رکھنے والی قدآور شخصیت کے مالک تھے۔ہر انسان اپنی شخصیت، ادبیت اور علمیت سے پہچانا جاتا ہے ، ایسے معدودے چند لوگوں میں ہی پروفیسر صاحب علی صاحب کا شمار ہوتا ہے ۔ آہ ! آج وہ ہم سے دور بہت دور چلے گئے ہیں۔ خداان کی مغفرت کرے اور وارثین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین
دوران گفتگو میم نے بتایاکہ 30نومبر 2019ءکوالنکار ہوٹل( اورنگ آباد )میں میری ان سے ملاقات ہوئی تھی،  بڑے ہشاش بشاش تھے، انہوں نے ادب کے مختلف عناوین پر تبادلہ خیال کیااور چند روز بعد ان کے ساتھ اچانک اس طرح کا واقعہ پیش آ گیا۔بہرحال زندگی اور موت ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ۔اس ملاقات میں میم نے میری کتاب ” این آر سی : اندیشے ، مسائل اور حل “ سر کو نذر کی، سر نے نہایت خندہ پیشانی سے کتاب قبول کی اور مسرت کا اظہار فرمایا۔ کچھ دن بعد سر نے فون کر کے میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مبارکباد دی اور دعاوں سے نوازا۔ 17 جنوری 2020ءکو سر سے فون پر بات ہوئی تو میں نے گذارش کی کہ سر کتاب کا تیسرا ایڈیشن شائع ہونے والا ہے اگر آپ کتاب پر چند جملے قلمبند کر دیں ، نوازش ہوگی۔ سر نے کہا کہ بیٹا! مجھے چند روز کا وقت دو، میں لکھ کر واٹس ایپ کرتا ہوں۔ چند دن بعد واٹس پر تاثرات کی جگہ اس غمناک المیہ کی خبر ملی ۔ اللہ پاک وارثین کو سلامت رکھے، انھیں صبر جمیل عطا فرمائے اور مرحوم کے درجات بلند کرے۔ آمین
از قلم: عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)مالیگاوں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!