مجاہد حرّیت، قطب مالیگاوں حضرت مولانا محمد اسحق نقشبندی (صدر: امدادالاسلام)

حافظ محمد غفران اشرفی (جنرل سکریٹری سنّی جمعیۃ العوام)

 

سرزمین مالیگاوں پر ولایت کا آفتاب،جس کی نوری شعاع سے خطہ مالیگاوں جگمگا اُٹھا۔ جس کا آستانہ بافیض و باکرامت ہے۔جن کے در سے ہزاروں لوگ دلی مرادیں پاکر لوٹتے ہیں۔ جن کے آستانے پر ہمیشہ عقیدت مند منگتوں کا ہجوم رہتا ہے۔ اُس ذات کو اہلیان شہر مجاہد حُرّیت، قطب مالیگاوں حضرت مولانا محمد اسحق نقشبندی علیہ الرحمہ کے نام سے جانتے ہیں۔ آپ کا آبائی وطن الہ آباد ہے۔ 1844 میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی، والد کا نام میراں بخش تھا۔ آپ کا گھرانہ بڑے پیر اور اولیاے کرام کا گرویدہ رہا۔ آپ کے بچپن ہی میں والد میراں بخش کا سایہ عاطفت سر سے اٹھ گیا، والدہ مشفقہ نے اپنے ہونہار لائق و فائق فرزند کی پرورش میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نا رکھا۔

 

ہمارے ممدوح کی عمر چند برس کی تھی کہ اُن کی والدہ نے مولانا محمد اسحق علیہ الرحمہ کی ابتدائی تعلیم و تربیت کے لیے اپنے برادر حافظ مراد علی کے حوالے کر دیا۔ ابتدائی تعلیم اور فن شاعری کے نشیب و فراز وغیرہ حافظ مراد علی صاحب (آپ کی قبر شریف سمکسیر قبرستان میں داخل ہوکر دائیں طرف ہے) کے پاس رہ کر طے کیے۔ راہِ سلوک میں آپ اپنے پیر و مرشد حضرت مولانا سید محمد برکت علی نقشبندی علیہ الرحمہ کے پیرو تھے۔ آپ بہترین عالم،فن شاعری میں یدِ طولیٰ رکھنے والے اور سیاسی بصیرت کے حامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ آزادی ہندوستان کے لیے جب خلافت تحریک کا قیام ہوا تو اُس میں آپ ایک عالم ہونے کے لحاظ سے ہر محاذ پر سرپرستی کرتے رہے۔

 

آپ کو 1920 میں تحریک خلافت کی ذیلی شاخ امدادالاسلام (بیت المال) کے صدر کی حیثیت سے منتخب کیا گیا۔ مالیگاوں میں جس وقت جنگ آزادی کی آواز بلند ہوئی تو مجاہد حُرّیت حضرت مولانا محمد اسحق نقشبندی علیہ الرحمہ اپنے رُفقا کے ساتھ پورے انہماک سے تحریک میں جُڑ گئے۔ جہاں بھی تحریک خلافت کا جلسہ ہوتا آپ اُس میں بنفس نفیس حاضر رہتے۔ 25 اپریل 1921 عرب چوک نیاپورہ میں جو جلسہ ہوا اُس میں آپ بحیثیت صدر جلسہ کے حاضر رہے۔ اِس کے علاوہ حفیظ مالیگانوی صاحب خلافت تحریک کے ایک اور جلسہ کا تذکرہ کرتے ہوے لکھتے ہیں، کہ بھاجی بازار (اردو لائبریری کی جانب) میں تحریک خلافت کا جلسہ ہوا اُس میں آپ نے یادگار تقریر فرمائی،اور کہا کہ

 

’’ انگریزوں کا جنازہ اٹھ چکا ہے،عنقریب تجہیز و تکفین بھی ہوگی،وطن آزاد ہوگا،اللہ کے بھروسے جنگ آزادی کو تیز کرنا چاہئے،فتح و ظفر ان شاء اللہ ہمارے قدم چومے گی۔‘‘

 

الفاظ اتنے جرات مندانہ تھے کہ حکومتی محکمہ لرز گیا، جب مجاہدین آزادی کی گرفتاری شروع ہوئی تو اُس میں آپ کو بھی گرفتار کر کے جھوٹی گواہی کے سہارے مقدمہ چلایا گیا۔ مگر گواہان ناسک سیشن کورٹ میں جب مسٹر مرفی کے سامنے آئے اور آپ کو لایا گیا، ساتھ ہی ولی محمد پہلوان بھی تھے۔جج  نے گواہان سے کہا مولوی اسحق کی شناخت کرو، تو گواہوں نے بجاے مولانا محمد اسحق کے ولی محمد پہلوان کو مولانا اسحق کہہ کر کھڑا کر دیا، جس سے پورا دربار قہقہہ زار ہو گیا۔ تین مرتبہ شناخت کے لیے کہا گیا ہر مرتبہ گواہوں  نے ولی محمد پہلوان کو مولانا اسحق کہہ کر کھڑا کیا، ثبوت نا ہونے پر آپ کو رہا کردیا گیا۔

 

عبدالحلیم صدیقی صاحب کی روایت کے مطابق آپ کے جاہ و جلال کے باعث کوئی گواہی نا دے سکا اِس لیے آپ کو بری کردیا گیا۔ آپ کا وصال با کمال 1928 کو 84 سال کی عمر میں ہوا تدفین سنّی بڑا قبرستان میں ہوئی۔ اِس طرح آزادی ہندوستان کا ایک اور سورج مجاہد حُرّیت حضرت مولانا محمد اسحق نقشبندی علیہ الرحمہ کی صورت میں قبر کی اوٹ میں روپوش ہوگیا۔بعد وصال آپ کی قبر شریف کسی وجہ سے کُھلی تو لوگوں  نے ماتھے کی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ آپ کا جسم اطہر صحیح و سالم ہے۔ آپ کا با فیض آستانہ سنّی بڑا قبرستان میں مرجع خلائق بنا ہوا ہے، جو قبرستان میں ہر داخل ہونے والے صاحب نسبت کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!