Urdu ke Mashhoor Naqid Gopichand Narang
اُردو زبان کے ہمہ صفت استاد، ادیب و ناقد ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا انتقال
اُردو زبان کے ہمہ صفت استاد، ادیب و ناقد ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا انتقال
ممبئی:16 جون (ندیم صدیقی) گنگا جمنی تہذیب کے ممتاز تر تشخص کے حامل اور اُردو زبان و ادب کی اپنی مثال آپ ہمہ جہت استاد (91 سالہ) ڈاکٹر گوپی چند نارنگ گزشتہ کل امریکہ میں انتقال کر گئے۔
نارنگ اِن دنوں اپنے ڈاکٹر بیٹے کے پاس امریکہ میں تھے، موصولہ اطلاع کے مطابق ان کے ایک بیٹے ہی نے اپنے والد کی سناونی دی جس میں بتایا گیا ہے کہ اُن کی موت نیند کی حالت میں ہوئی۔
پدم بھوشن گوپی چنگ نارنگ بلوچستان کی تحصیل دُکی ضلع لورالائی میں 11 فروری 1931 کو پیدا ہوئے تھے ( ان کی جنم پتری میں سنہ 1930 درج ہے۔)
گوپی چند نارنگ کے والددھرم چند نارنگ بلوچستان میں ریوِ نیوسروس میں افسر اعلیٰ کے عہدے پر فائز تھے۔
جب وہ ڈیڑھ سال کے تھے تو اُن کے والدین موسیٰ خیل چلے گئے۔ نارنگ کے بزرگوں کا آبائی وطن مغربی پنجاب میں لیہ ضلع مظفرگڑھ ہے( جو، اب پاکستان میں واقع ہے)۔ لیہ ضلع مظفرگڑھ میں ان کے اجداد صدیوں سے آباد تھے۔
ایک روایت کے مطابق گوپی چند نارنگ نے اُردو کا پہلا قاعدہ عبد العزیز نامی ایک اُستاد سے پڑھا۔ نارنگ نے خود لکھا ہے کہ’’(عبد العزیز صاحب) ماسٹر، ہیڈ ماسٹر اور کلرک سبھی کچھ وہی تھے مَیں اُستاد سے کچھ کچھ ڈرا کرتا تھا اور اُس سے بھی زیادہ ڈر امتحان کا تھا جس کے بارے میں معلوم ہی نہیں تھا کہ (امتحان) ہے کیا بلا ؟ جب پہلی جماعت کا امتحان ہوا تو مَیں گھر میں دُبکا رہا۔ بعد میں والد صاحب اور بڑے بھائی صاحب پکڑے پکڑے لائے اور( اُستاد سے) کہا، بیچارے کا سال برباد ہو نے سے بچا لیجیے ، عبد العزیز صاحب نے (اُردو) قاعدے کا دوسرا صفحہ کھولا اور قدرے سختی سے کہا:
یہاں سے سناؤ، دہشت تو طاری تھی ہی، مَیں نے بد حواسی میں قاعدہ بند کیا اور بجائے پڑھ کے سنانے کے، جیسے جماعت میں رٹا کرتا تھا، زبانی ہی سنانا شروع کیا، ابھی پورا سبق نہ سُنا پایا تھا کہ انھوں نے کہا: بس بس تم پاس، نہ صرف پاس بلکہ اوّل۔
والد صاحب نے گلے لگا لیا۔ آنسو پونچھے اور کندھے پر بٹھا کر گھر لے آئے، وہ دن اور آج کا دن، کتاب میری بہترین رفیق اور دم ساز بن گئی۔‘‘
نارنگ ابھی تیسری جماعت میں تھے کہ دوسری جنگِ عظیم چھڑ گئی اُس وقت بلوچستان کے قبائلی علاقوںمیں حکومت کی طرف سےبے دریغ لٹریچرتقسیم ہوتا تھا اور یہ سارا لٹریچرپشتو اوراُردو میں ہوا کرتا تھا۔ اُردو پڑھنے کا چسکا گوپی چند نارنگ کو یہیں سے پڑا۔
پرائمری کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نارنگ لیہ ضلع مظفرگڑھ چلے گئے کیونکہ جس علاقے میں اُن کے والد کی ملازمت تھی وہاں ہائی اسکول نہیں تھے۔ اُردو اُن کا لازمی مضمون تھا اور سنسکرت اختیاری۔ مڈل کا امتحان انھوں نے اچھے نمبروں سے پاس کیا اور یہاں پراُردو کی تعلیم انھوں نے مولوی مرید حسین سے حاصل کی، اپنے استادمولوی مرید حسین کو وہ نہیں بھولے ،اس استاد کے بارے میں نارنگ لکھتے ہیں:
’’مَیں نے اُنھیں کبھی غصّے کی حالت میں آپے سے باہر ہوتے نہیں دیکھا،کسی کو بےجا پیٹتے بھی نہیں تھے۔ نہایت نرمی اور ہمدردی سے گفتگو کرتے اور پدرانہ شفقت سے پڑھاتے تھے۔خدا جانے وہ اب زندہ ہیں بھی یا نہیں!!۔ اقبالؔ اور چکبستؔ کی نظمیں انھوں نے جس انداز میں پڑھائی تھیں،ابتک یاد ہیں۔ نذیر احمد ، رتن ناتھ سرشارؔ اور راشد الخیری کی کتابیں انھیں بےحد پسند تھیں اور ہمیں بھی پڑھنے کو کہا کرتے تھے۔ مڈل کے بعد بھی مَیں مرید حسین صاحب سے اُردو پڑھنا چاہتا تھا،لیکن ہیڈ ماسٹر کے حکم سے سائنس کی جماعت میں بیٹھنا پڑا۔‘‘
اس کے بعد نارنگ نے گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ اس اسکول کے ہال میں سامنے کی دیوار پر آنرز بورڈ تھا۔جس پر ہر سال میٹرک میں اوّل آنے والے طالب علم کا نام اور نمبر لکھے جاتے تھے نارنگ اس بورڈکو حسرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، بہر حال اوّل آنے کی ان کی خواہش 1946 میں پوری ہوئی۔ اس کے بعدسب سے پہلے نارنگ سنڈے کالج کوئٹہ میں داخلے کے لیے پہنچے۔ یہاں اچھّے نمبروں سے پاس ہونے کی وجہ سے فیس تو معاف ہوگئی لیکن وظیفہ نہ ملا۔ اس کے بعد وہ لائل پو ر کے زراعتی کالج کی طرف بڑھے مگر وہاں پہنچنے سے قبل ہی داخلہ نمٹ چکا تھا۔ جب داخلے کی کوئی صورت نظر نہیں آئی تو 1947 میں وہ اپنی والدہ اور بھائی بہنوں کے ساتھ دہلی چلے آئے لیکن اُن کے والد وہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد 1956 میں دہلی آئے۔ کسی طرح سے انھوں نے ایف اے اور بی اے کی تعلیم حاصل کی۔ 1952 میں گوپی چند نارنگ نے دہلی کالج میں ایم اےاُردو میں داخلہ لیا اور پھر انھوں نے1958 میں یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے مقالے کا موضوع’’ اُردو شاعری میں ہندستانی
عناصر‘ تھا۔ دہلی کالج کےتذکرے میں وہ اپنے کرم فرما ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ یہیں ان سے ملاقات ہوئی جن کی محنت کوشی،ذوقِ مطالعہ اور کام کی دُھن نے میرے شوق کو مہمیز کیا۔ رسائل میں لکھنےکی لت لڑکپن سے پڑ چکی تھی،ابتدا افسانہ نگاری سے ہوئی ،میرا پہلا افسانہ جب کوئٹہ کے ہفتہ وار’ بلوچستان سماچار‘ میں شائع ہوا تو اُس دن پاؤں زمین سے کچھ اوپر ہی اوپر تھے۔ رائے دینے یا دِل بندھانے والا سوائے بڑے بھائی کے اور کوئی نہیں تھا اور ان ہی کو دِکھا کر یوں محسوس ہوا گویا____ ساری دُنیا کو دِکھا آیا۔ اس کے بعد دہلی آکر(دیوان سنگھ مفتوںؔ کے پرچے) ریاستؔ، بیسویں ؔصدی وغیرہ میں لکھتا رہا۔‘‘
نارنگؔ نے اپنے لکھنے لکھانے اور چھپنے چھپانے کا ذکر جس طرح کیا ہے اس میں ان کے شوق اور علمی محنت کشی نئی نسل کے لیے کسی درس سے کم نہیں:
’’ گھر کے قریب ایک سرکاری لائبریری تھی’’ کلاس فور‘‘ یعنی چپراسیوں کے لیے،شاید اسی لیے اُردو ہندی کی کتابوں کا اس میں خاصا ذخیرہ تھا۔ سارا سارا دِن وہیں پڑا رہتا ۔ یاد ہے کہ اُردو فارسی کے بعض امتحان مَیں نے یا تو اس لائبریری کی وجہ سے دِیے یا پھر(دہلی کے) اُردو بازار کے بعض مہربان کتب فروشوں کی نوازش سے، جو کتاب چند روز پڑھنے کےلیے دیدیتے تھے یا پھر اُدھار پر معاملہ کر لیتے تھے۔ سنجیدہ مضمون نگاری کی ابتدا مَیں نے (نیاز فتح پوری کے) نگارؔ،نوائے اؔدب اور آؔجکل سے کی۔ پہلا مضمون نگارؔ میں(اکبر الٰہ آبادی سخن فہموں اور طرفداروں کے درمیان) غالباً 1953 میں نکلا۔
نارنگ ؔنے صاف صاف لکھا ہے کہ’’اُردو میری مادری زبان نہیں، میری ددھیال اور ننھیال میں سرائکی بولی جاتی تھی، میری ماں دہلی ہجرت کے بعد بھی سرائکی بولتی تھیں جو نہایت میٹھی، نرم اور رسیلی زبان ہے۔ لیکن مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ اْردو میری مادری زبان سے دور ہے۔ اُردو نے شروع ہی سے دوئی کا نقش میرے لاشعور سے مٹا دیا۔ مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ اُردو میرے خون میں جاری و ساری نہیں۔ یہ میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ اْردو میری ہڈیوں کے گودے تک کیسے اُترتی چلی گئی، یقیناًکچھ تو جادو ہوگا۔ تاج محل کا کرشمہ مثالی ہے، میں اُردو کو ’زبانوں کا تاج محل‘ کہتا ہوں اور اکثر میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ زبان میرے لیے رازوں بھرا بستہ ہے۔ کیسے ہند آریائی کے بستے میں عربی فارسی ترکی کے رنگ گھلتے چلے گئے اور کیسے ایک دھنک بنتی چلی گئی کہ جنوبی ایشیا کے اکثر ممالک کے طول و عرض میں وہ آج ’لنگوافرینکا‘ بھی ہے اور ایک ایسا ادبی اظہار بھی جس کے رس اور بالیدگی کو دوسری زبانیں رشک کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ ‘‘
نارنگ نے لکھا ہے :
’’اْردو ہماری صدیوں کی تہذیبی کمائی ہے، یہ ملی جلی گنگا جمنی تہذیب کا وہ ہاتھ ہے، جس نے ہمیں گھڑا، بنایا اور سنوارا ہے، یہ ہماری ثقافتی شناخت ہے جس کے بغیر نہ صرف ہم گونگے بہرے ہیں بلکہ بے ادب بھی۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ اُردو کو محض ایک زبان کہنا اُردو کے ساتھ بے انصافی کرنا ہے، یہ ایک طرزِ حیات، ایک اسلوب ِ زیست، ایک اندازِ نظر یا جینے کا ایک سلیقہ و طریقہ بھی ہے، اس لیے کہ اُردو صدیوں کے تاریخی ربط و ارتباط سے بنی ایک جیتی جاگتی زندہ تہذیب کا ایک ایسا روشن استعارہ ہے جس کی کوئی دوسری مثال کم از کم بر ِصغیر کی زبانوں میں نہیں۔‘
انھوں نے دِلّی یونی ورسٹی اور جامعہ میہ اسلامیہ(دہلی) میں پڑھایا۔پروفیسر نارنگ ملک سے باہر دانش گاہوں میں بھی بلائے گئے۔
نارنگ کی پہلی تصنیف ’ہندوستانی قصّوں سے ماخوذ اُردو مثنویاں‘ ہے جو پہلی بار 1959 اور دوسری بار 1961 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب پر نارنگ کو 1962 میں ’غالب ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک نارنگ کی درجنوں کتابیں منظرِعام پر آ چکی ہیں۔ 2014 میں گوپی چند نارنگ نے ’غالب : معنی آفرینی، جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات‘ ایک بے مثال تحقیقی اور تنقیدی کتاب پیش کی۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی پوری زندگی تصنیف و تالیف اور تدریس میں گزری۔اُن کی کتابوں کی تعداد خاصی ہے جن میں سے چند کے نام ذیل میں درج ہیں:
ہندوستانی قصّوں سے ماخوذ اْردو مثنویاں (1959 اور 1961)،سانحۂ کربلا بطور شعری استعارہ (1980 اور 1990)،اْردو افسانہ : روایت اور مسائل (1981 اور 1988)،انیس شناسی (1981)،لغت نویسی کے مسائل (1985) اورساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات (1993 ۔ 2007)
نارنگ کو ادبی خدمات کے لیے ملک کے علاوہ بیرون ملک میں بین الاقوامی سطح پر بھی کئی ایوارڈ و اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ جن میں سے نمایاں اعزازات اس طرح ہیں: صدر جمہورئیہ ہند کی جانب سے ’پدم شری‘ کا قومی اعزاز 1990، پدم بھوشن کا قومی اعزاز 2004، صدر پاکستان کی جانب سے اقبال صدی طلائی تمغئہ امتیاز 1977،ساہتیہ اکادمی ایوارڈ (’’ساختیات پس ساختیات مغربی شعریات‘‘پر) 1995،غالب ایوارڈ، نئی دہلی 1985،سنت گیانیشور ایوارڈ، مہاراشٹراْردواکادمی 2004، قطر دوحہ فروغ اردو ادب ایوارڈ 2002، اقبال سمّان، مدھیہ پردیش سرکار2011 اور صدرجمہورئیہ پاکستان ( آصف علی زر داری) کے ہاتھوں ’ستارئہ امتیاز‘ 2012 میں دیا گیا۔
گوپی چند نارنگ نے جہاں کتابیں لکھیں وہیں ان پر بھی کتابیں اور دیگر رسائل کے خصوصی شمارے شائع ہوئے۔ نارنگؔ ملک کے سب سے بڑے اور اہم ادبی ادارے ’’ساہتیہ اکادیمی‘‘ کے صدر کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں ان کا اقبال اس قدر بلند رہا کہ اعلا ادبی اعزازات کی نامزدگی میں ان کی رائے اہمیت کی حامل ہی نہیں بلکہ فیصلہ کُن ہوتی تھی۔ جس کی وجہ سے اُردو کے کئی بڑے ادیبوں اور شاعروں کومؤقر ایوارڈ دیے گئے اس سبب وہ متنازعہ بھی ہوئے مگر وہ اپنے انداز سے کام کرتے رہے۔ چند برس قبل(مرحوم) شمس ؔالرحمان فاروقی اور نارنگؔ کے درمیان اختلاف کے نتیجے میں اُردو ادب کے لوگ دو دھڑوں میں بنٹ گئے تھے۔ دراصل نارنگ کے سیاسی حلقوں میں رسوخ نے بھی ان کی شخصیت کو جہاں پر کشش بنایا وہیں فطری طور پر ان کے مخالفین کا ایک گروہ بھی پیدا ہو گیا مگر ان اختلافات یا بعض کمزور واقعات کے باوجود اُن کا ادبی وقار باقی رہا ۔ نارنگؔ کی متنوع ادبی خدمات اپنےوقار و اعتبار کے ساتھ یاد رکھی جائیں گی۔
نارنگؔ جیسی زبان و بیان پر قدرت اب شاید و باید ہی ہو، ان کا لسانی علم و شعور بھی ایک روشن مثال تھا۔ ممبئی کے نہرو سینٹر کے ایک ادبی جلسے میں انھوں نے اپنی تقریر میں ایک جگہ’’ زیٖر و بم‘‘ (Zeer o Bam) کی ترکیب استعمال کی۔ ہم نے بھی سنی اور ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک سینئر صحافی کو بھی یہ ترکیب غلط محسوس ہوئی مگر انہوں نے بھرے جلسے میں زیرو کی۔۔۔ ’’ ی‘‘ ۔۔۔کو بہ آواز بلند کھینچ کر پڑھا مگر وہ آواز نارنگ تک نہیں پہنچی، ہر چند کہ ہم بھی اس زیرو بم پر چونکے تھے مگر اپنے ہم پیشہ شخص کی یہ حرکت ہمیں خلافِ ادب محسوس ہوئی ،گھر آنے کے بعد ہم نےلُغَت دیکھا تو نارنگ کا زیٖرو بم صحیح ثابت ہوا۔
نارنگؔ کی خطابت بھی بہت پر کشش تھی اب ایسے خطیبِ ادب ہمارے ہاں ناپید ہیں، اُن کی برجستہ گوئی بھی یاد رہے گی گزشتہ دنوں کورونا کے سبب جب جلسے اور سمی نار کا سلسلہ بند تھا تو مشہور شاعرسحرؔ انصاری کی دخترعنبرین حسیب عنبر نے نارنگؔ سے (انٹر ویو کی شکل میں) ایک طویل گفتگو کی تھی جس میں نارنگی برجستگی یادگار اور نہایت وقیع
ہےجسے یو ٹیوب پر سنا اور دیکھا جاسکتا ہے۔
اس میں دو رائے نہیں ہو سکتی کہ نارنگؔ کی رِحلت کئی اعتبار سے اُردو زبان و ادب کا ناقابل ِتلافی نقصان ہے۔ خدا اُن کی روح کو سکون دے ۔آمین
نارنگ کے پسماندگان میں بیوہ محترمہ منورما اور دو ڈاکٹربیٹے ارون اور ترون امریکہ میں مقیم ہیں۔