Articles
Ye Waqt Aapsi Inteshar ka nahi موّرخ کس کو لکّھے گا؟
یہ وقت آپسی انتشار کا نہیں
موّرخ کس کو لکّھے گا؟
شگفتہ سبحانی (شعبہ صحافت)
عزیران گرامی،
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ
سال ِ نو کی آمد پہ پورا ہندوستان سراپا احتجاج بنا ہوا ہے
لہوجما دینے والی سردی میں سارے ہند پر اداسی کی گہری اوس اور احتجاج کی دھند پھیلی ہوئی ہے
ایک سمت مسلم قوم ہے جنہیں ظالمانہ ایکٹ اور کالے قانون کے ساۓ نے جھپٹ لیا ہے، ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے سراپا احتجاج بنا ہوا ہے
ملک بھر میں مہا ریلیوں کا سیلاب چل پڑا ہے
دوسری سمت ظالم قوانین کے شدید جھکڑ چلے آرہے ہیں
دانشواران قوم و ملت جن میں تمام ہی مسلک کے افراد شامل ہیں، سر جوڑکر کسی راہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں
آئیے چلتے ہیں تیسری سمت
جب شہر مالیگاؤں میں دختران ملت کی جانب سے نکلنے والی ریلی اختلاف کا موضوع بنی ہوئی ہے
میں نے وہ میسجز پڑھے جب ایک ہی قوم کے دو گروپوں میں تصادم ہے،
پہلا گروپ وہ جو ریلی نکالنا چاہتے ہیں
دوسرا گروپ وہ جو ریلی کے مخالف ہیں
دیکھنے والوں کیلئے صرف یہ دو ہی گروپ ہیں
کیا کسی ماورائی چشم نے کسی تیسری آنکھ نے ایک اور گروپ کو دیکھا؟ زوال پزیر گروپ؟
کہا جاتا ہے زوال پذیر قوموں کی نشانیوں میں ایک وہ بھی لوگ تھے جو علماء پر بہتان باندھتے اور عالموں پر فقرے کستے
خواتین کی ریلی کی آڑ میں یہ کون لوگ ہیں جنہیں یہ احساس نہیں کہ وہ خدا کے قہر کو آواز دے رہے ہیں
سوالوں کے سلسلوں کے ساتھ، ہاتھ کنگن کو آرسی کیا کے مترادف چیختی تحریروں میں خواتین کو سیاسی موضوعات میں نہ صرف گھسیٹا جارہا ہے، بلکہ مفتیان کرام سے چیختے لہجوں میں، تمسخر آمیز لہجوں میں، مذاقیہ فتوے کی باتیں بھی لکھی جارہی ہیں
کون ہیں یہ لوگ جنہیں یہ احساس نہیں کہ سیاسی معاملات میں خواتین کو آگے کر کے اشاروں و کنایوں میں علماء کو چوڑیاں بھیجنے کی باتیں چل رہی ہیں؟یعنی عقل دیکھئے کہ کوئی عالم اگر کسی بات سے انکار کردے تو وہ چوڑی پہن لے؟ کیونکہ اس نے دنیا نہیں دیکھی؟؟ کیا یہ جملے صحیح ہیں؟؟
اسلامی بھائیو اور بہنو
یہ وقت آپسی انتشار کا نہیں
یہ وقت مذاق اور لفظی جھڑپوں کا نہیں
یہ وقت آپسی دل کے پھپھولے پھوڑنے کا نہیں
ریلی نکالنے کا حق سب کو ہے، ٹھیک یے لیکن یہاں اتنی بڑی تعداد میں علماء نے اس ریلی کو چند وجوہات کی بنا پر نامناسب قرار دیا اور یہ کہا گیا کہ اجلاس رکھا جاۓ بار بار زور دیا گیا اور اجلاس کی حمایت سب نے کی
تاریخ اسلام میں، جب خواتین جنگ کے میدان میں نکلتیں تو اپنے گھر کے مردوں سے اجازت طلب کرتیں، گھر کے مرد دوڑے ہوۓ جاتے اللہ کے نبی سے پوچھتے اور اجازت ملنے پر اپنے گھر کی عورتوں کو مشکیزے سنبھالنے، زخمیوں کی دیکھ ریکھ، گھوڑوں اور ہتھیاروں کی حفاظت کے بعد تیغ اٹھانے کی اجازت دی جاتی اور انہیں جنگ کے میدان میں باپردہ اتارا جاتا یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ عورتوں کو گھر کی چار دیواری میں رکھنے کا حکم آپ کا اور ہمارا نہیں بلکہ اسلامی قانون ہے،جب بھی خواتین کے معرکے اور مظاہرے ہوۓ تو وہ اسلام کی بقا میں ہوۓ، اور ضرورت پڑنے پر عورتوں کو باہر نکلنے کی اجازت دی گئی
جو لوگ ریلی نکالنا چاہتے ہیں
انہیں چاہئے تھا کہ وہ اپنے طور پر پُر امن ریلی نکالیں اور امن ثابت کریں
یہ نہیں کہ کسی نے ریلی کی مخالفت کی اور عوام کے عوام مخالفت کرنے والوں کے پیچھے ہی پڑجائیں عجیب و غریب سوالات اٹھیں یہاں تک لکھا جارہا کہ فتوے دائر کردیں کہ الیکشن میں خواتین باپردہ آئیں
ان مردوں کیلئے سوچنے کا مقام ہےجنہیں یہ نہیں پتہ کہ میدان سیاسی ہو تعلیمی یا دیگر، اسلامی خواتین کو باپردہ جانے کا حکم قرآن سے ثابت ہے، ہم نے رائج نہیں کیا مستور کا مطلب ہی قرآن نےچھپی ہوئی پہ تعبیر کیا ہے اس کیلئے کسی فتوے کی ضرورت نہیں لہذا مفتیان اسلام کو سیاسی معاملات پہ ٹارگٹ کرنا بند کریں
بلا تمہید لکھا جارہا ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سیاسی مفادات کو پیچھے کر کے اسلامی اتحاد پر زور دیا
اگر کسی وجہ سے علماءنے انکار کیا ہو تو وہاں پر ادبا خاموشی اختیار کی جاتی
مجھے اندیشہ ہے جب یہ لکھا جاۓ گا کہ شہر مالیگاؤں میں راتوں رات ایک ایسی قوم ابھری جو اپنے عالموں پر پھبتیاں کستی تھی اور اکابر کی نافرمانی کرتی تھی، ایسے لوگ گزرے جو اپنے من مانی کیلئے علماء کے پیچھے پڑتے، انہیں اذیتیں دیتے
پورے شہر سے میرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی کو ریلی نکالنا ہی تھا تو یہ جو میسجز، مردوں کی جانب سے ہیں، یہ سوالات اصل میں عورتوں کی جانب سےاٹھتے ،خواتین کی ریلی سے مردوں کا کیسا تعلق
ایسا کیوں نہ ہوا؟ کہ خواتین جو واقعی ہر میدان میں پیش ہیں وہ بہت احترام سے اپنے گھروں کے مردوں کے ساتھ علماء تک پہنچتی
ان سے درخواست کرتیں ان کے آگے اپنا مدعا رکھتیں، انہیں راضی کیا جاتا یہ معاملہ خالص خواتین کا ہے خواتین کی کمیٹیاں تشکیل کی جاتیں، شعبہ نشر و اشاعت سے لے کر اعلان اور گفت وشنید کے معاملات خواتین بنچ تشکیل کرتیں، خواتین کو آگے آنا چاہئے تھا بجاۓ ان مردوں کے جو کبھی علماء کو کانگریس کے پگارو چمچے کہہ رہے کبھی بی جے پی کے ایجنٹ کہہ رہے، کیا یہ زندہ قوم کی نشانیوں میں ہے؟
مذہب اسلام نے ہمیں کسی دوسرے مذہب کے پیشوا سے بھی احترام سے گفتگو سکھائی ہےاور ہم وہ قوم ہیں جو اپنے ہی مذہب کے عالموں کو ٹارگٹ کررہے ہیں اس بات کیلئے کہ انہوں نے کسی چیز کو حالات کے مد نظر صرف منع کردیا ہو؟
نہ بھولئے کہ اس کے بہت دور رس نتائج پوری قوم کو بھگتنا پڑسکتے ہیں
اسلامی اتحاد پر تو ہزار جانیں قربان ہوسکتی تھیں
ہم تو آپس میں ہی بھڑ گئے؟ریلی کی بات دور کی ہے ،
یہ ناکامی آج شہر مالیگاؤں کے پورے اسلامی اتحاد کے حصے میں آئی ہے
بتاتی چلوں کل مورخ جب تاریخ لکھے گا تو خونریز تحریر سے یہ جملہ لکھا جاۓ گا کہ
شہر مالیگاؤں میں عورتوں کی ریلی کی حمایت میں مردوں نےاپنے علماء سے بغاوت کی اور اپنے علماء پر بہتان باندھے
ریلی نکالئے ، کسی نے آپ کو زنجیروں میں قید تو نہیں کر رکھا
لیکن یاد رہے کہ کسی بھی عالم کی بے حرمتی نہ ہو ان کے درجات ہر حال میں افضل ہیں
اگر نافرمانیوں کا یہ سلسلہ دراز ہوا، تو غور سے سن لیں
علماء کے خلاف زہر اگلنے والے
علماء کے خلاف لکھنے والے
علماء پر بہتان باندھنے والے
کل سے اپنے گھروں کے بچوں کو مکاتب درس گاہوں اور مساجد میں بھیجنے سے کلی اجتناب کریں
انہیں کوئی حق نہیں کہ ایک طرف وہ علماء پر بہتان باندھیں انہیں اذیتیں دیں اور دوسری سمت اپنی نسلوں کو علماء کی پیروی کی ہدایت دیں
دینی بھائیوں اور بہنو!
جس طرح زنگ آلود شمیروں سے جنگیں نہیں لڑی جاتیں ٹھیک اسی طرح، قوم کے آپسی انتشار سے کبھی مسلم قوم فاتح نہیں ہوسکتی
درخواست کی جاتی ہے کہ سوال و جواب کے سلسلے، توہین آمیز پوسٹیں اور حمایت اور مخالفت کی پوسٹیں بند کر کے قنوت نازلہ کا اہتمام کیا جاۓ
کس طرح سماج مثبت سوچ کو لے کر آگے بڑھے اس پہ فوکس کیا جانا اس دور کی سب سے اہم ضرورت ہے
رتبہ اس قطرے کا قطرے سے دگر ہوتا ہے
سیپ کی کوکھ میں پل کر جو گہر ہوتا ہے
درد فرقت کو چھپانا ہے بڑی فنکاری
یہ نہ بھولو کہ فصیلوں میں بھی در ہوتا ہے
دعاگو ہوں اللہ ہر شر و فتنے سے ہم سب کی حفاظت فرماۓ اور ہمیں صحیح سمت میں گامزن کرے- آمین