ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesISLAMIC KNOWLEDGE

مساجدمحض مذہبی مراکزہیں یاان کا تعلیمی،معاشرتی اور سیاسی کرداربھی ہے؟

مساجدمحض مذہبی مراکزہیں یاان کا تعلیمی،معاشرتی اور سیاسی کرداربھی ہے؟


از:عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)مالیگاﺅں

    مسلمانوں کی عبادت گاہ کو مسجد کہتے ہیں۔ عموماً اسے نماز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے مگر تاریخی طور پر مساجد کئی حوالوں سے اہم ہیں مثلاً عبادت کرنے کے لیے، مسلمانوں کے اجتماع کے لیے، تعلیمی مقاصد کے لیے حتیٰ کہ مسلمانوں کے ابتدائی زمانے میں مسجدِ نبوی کو غیر ممالک سے آنے والے وفود سے ملاقات اور تبادلہ ¿ خیال کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ مساجد سے مسلمانوں کی اولین جامعات (یونیورسٹیوں) نے بھی جنم لیا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی طرزِ تعمیر بھی بنیادی طور پر مساجد سے فروغ پایا ہے۔ سب سے پہلی مسجد کعبہ تھی، کعبة اللہ کے ارد گرد مسجد الحرام کی تعمیر ہوئی۔ ایک روایت کے مطابق کعبہ وہ جگہ ہے جہاں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام نے زمین پر عبادت کی تھی۔اسی جگہ پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر ایک عبادت گاہ تعمیر کی، یہی جگہ مسجد الحرام کہلائی۔ دوسری مسجد ”مسجد قبائ“ تھی جس کی بنیادحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ سے کچھ باہر اس وقت رکھی جب آپ مکہ سے مدینہ ہجرت فرما رہے تھے۔ تیسری مسجد ”مسجد نبوی“تھی جس کی بنیاد بھی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ میں ہجرت کے بعد رکھی اور اس کی تعمیر میں خود بھی حصہ لیا۔ مسجدِ نبوی مسلمانوں کا مذہبی، معاشرتی اور سیاسی مرکز تھا۔


    مساجد میں بنیادی طور پر نمازِ جماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔کسی زمانے میں مساجد کو خیرات اور زکوٰة کی تقسیم کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا جس کا رواج اب بہت کم ہو گیاہے۔ ماضی میں مساجد کا مقصد صرف مذہبی نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کا معاشرتی، تعلیمی اور سیاسی مرکز بھی مسجدیں تھیں۔ باجماعت نمازیں مسلمانوں کے آپس کے تعلقات، میل جول اور حالات سے آگاہی کے لیے بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ مساجدہنگامی حالات میں ایک پناہ گاہ کا کام بھی کرتی رہی ہیں۔ یہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ غیر مسلمین کو پناہ دینے کے لیے بھی استعمال ہوتی رہی ہیں مثلاً مسجدِ پیرس دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کے لیے پناہ گاہ رہی ہے۔مساجد وہ جگہ ہیں جہاں سے اولین جامعات (یونیورسٹیوں) نے جنم لیا مثلاً جامعہ الازہر، جامعہ قرویین، جامعہ زیتونیہ وغیرہ۔ بیشتر مساجد میں مدارس قائم ہیں جن میں قرآن اور مذہب کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مروجہ ابتدائی تعلیم بھی دی جاتی رہی ہے۔ مشرقی ممالک کے دیہات میں کئی مساجد میں عمومی مدارس بھی قائم ہیں۔ بعض مساجد کے ساتھ اسلامی مراکز موجود ہیں جہاں دینی و دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ تحقیقی مراکز قائم ہیں۔


    مساجد کا سیاسی کردار بھی تاریخی طور پر شروع سے جاری رہا ہے۔ مسجد نبوی صرف نماز کے لیے استعمال نہیں ہوتی رہی بلکہ اس میں غیر ممالک سے آنے والے وفود سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ مختلف غزوات اور سرایہ کے منصوبے زیرِ بحث لائے گئے۔ صدیوں تک مساجد میں انقلابی تحریکوں نے جنم لیا کیونکہ وہ مسلمانوں کے رابطہ کا ایک اہم ذریعہ رہی ہیں۔ جیسے حج کے ایام میں مسجد کعبة اللہ کے گرد اکناف عالم سے مسلمانوں کا جمع ہونا۔حج ایک ایسی عالمی بین الملی کانفرنس ہے جو بیک وقت روحانی بھی ہے اور قومی وسیاسی بھی۔یہ محض ایک ثواب کا کام اور یاترانہیں ہے بلکہ اقطار عالم کے تمام مسلمانوں کے درمیان ثقافتی،سیاسی،معاشی،تجارتی،تعلیمی اور سائنسی روابط کاذریعہ بھی ہے۔مسلمان ڈیڑھ سوبرس تک ایک نظم حکومت یاخلافت کے ماتحت رہے۔یہ حج کاموسم ان کے سیاسی وتنظیمی ادارہ کا سب سے بڑاعنصر رہا۔جس میں امور خلافت کے تمام اہم معاملات طے پاتے تھے۔اسپین سے لے کر سندھ تک مختلف ملکوں کے حکام اور والی جمع ہوتے تھے اور خلیفہ کے سامنے مسائل پر بحث کرتے تھے اور طریقِ عمل طے کرتے تھے اور مختلف ملکوں کی رعایاآکر اپنے والیوںاور حاکموںسے جوکچھ شکایتیںہوتی تھیںان کو خلیفہ کی عدالت میں پیش کرتی تھی اور انصاف پاتی تھی۔یہ حج کی مرکزیت ہی کاہی اثرتھااور ہے کہ معمولی سے معمولی مسلمان بھی جو اپنے ملک سے باہر کی دنیادیکھ رہاہے۔زمانہ کے رنگ کوپہچاننے اور سیاست کی پیچیدگیوںکوسمجھنے لگتاہے۔بین الاقوامی معاملات میں دل چسپی لیتاہے اور دنیا کے ہر اس گوشہ کے حالات سے جس کے منارہ سے ”اللہ اکبر“ بلند ہواس کو خاص ذوق ہوتاہے اور اسی کا اثرہے کہ ہر مسلمان دنیائے اسلام اور اسلامی ملکوںکے حالات واقعات کے لیے بے چین نظرآتاہے۔


    موجودہ دور میں مساجدکا استعمال محض عبادت اور جلسہ وجلوس کے لیے کیا جا رہا ہے ،مساجد سے دینی وعصری علم کی شمع روشن کرنا ، فلاحی ورفاہی کام کرنا ، بیواﺅں، مسکینوں اور یتیموںکی مدد کرنا ، بیماروں کے علاج ومعالجے کا سامان فراہم کرنا، اسٹوڈنٹس کے لیے کتابوںاور فیس کا انتظام کرنا اور سماجی و معاشی معاملات میں ایک دوسرے کی مدد اور کفالت کرنا وغیرہ جیسے اُمور بالکل ختم ہو گئے ہیں۔عالیشان مساجد بنانے کا رُجحان بڑھ چکا ہے مگر مسجد کے اطراف رہنے والے مستحقین کا خیال رکھنے کا احساس مردہ ہو چکا ہے ۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مساجد کی تعمیر وتوسیع کے ساتھ لائبریری ، اسٹڈی سینٹر ، بیت المال اور تعلیمی فنڈ کا بھی اہتمام کیا جائے۔ مسجد کے اطراف موجود ڈاکٹرس کو چاہیے کہ وہ ہفتے میںایک دن ایک شفٹ میں مسجد میں غریبوں کے لیے مفت دوائیوں کا اہتمام کریں، ٹیچرس کو چاہیے کہ ہفتے میں ایک دن صحن مسجد میں فری کوچنگ کا نظم کریں، بزنس مین حضرات غریبوںکو تجارت کے گُر سکھائیںوغیرہ ۔اس طرح ہر علاقے کی مسجد کے ذمہ داران ہفتہ بھر کا شیڈول ترتیب دے سکتے ہیں۔ان جیسے بہت سے کام ہیں جنھیں مساجد سے انجام دیا جا سکتا ہے مگر افسوس !آج خام خیالی کے سبب مسجد صرف نماز کی ادائیگی کی جگہ بن کر رہ گئی ہے ۔
٭٭٭



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!