ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesISLAMIC KNOWLEDGE

انٹرنیٹ کی وجہ سے معاشرے میں کتب بینی کا رجحان بہت کم ہو گیاہے :لمحہ فکریہ

 انٹرنیٹ کی بدولت معلومات کا جو سیلاب آیا ہے اس میں بہت سا علم بھی بہہ گیا ہے

انٹرنیٹ کی وجہ سے معاشرے میں کتب بینی کا رجحان بہت کم ہو گیاہے :لمحہ فکریہ

   

از:عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)مالیگاﺅں

انٹرنیٹ تعلیم یافتہ طبقے کے لیے بہت ہی مفید ہے۔ یونیورسٹیز خصوصاً ورچوئل یونیورسٹی نے تعلیم انٹرنیٹ کے ذریعے فراہم کرنا شروع کر دی ہے۔ اس طرح ملازم پیشہ طبقے کو بھی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع حاصل ہو ئے ہیں۔انٹرنیٹ کی بدولت ”ای لرننگ “کا نیا دروازہ بھی کھلا ہے جس نے طالب علم کو روایتی اُستاد سے بے نیاز کردیا ہے۔مگر یہاں باریک سے باریک نکتہ بھی ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے چند خرابیاں بھی تعلیمی نظام میں پیدا ہوئی ہیں لیکن اس کی افادیت ان پر غالب ہے۔ان تمام فوائد کے برعکس انٹرنیٹ کی بدولت چند نقصانات بھی دیکھنے میں آئیں ہیں۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے معاشرے میں کتب بینی کا رجحان بہت ہی کم ہو گیا ہے۔ کتب بینی کی جگہ انٹرنیٹ نے لے لی ہے۔ لوگ اب دوکانوں اور کتب خانوں میں جاکر کتابیں، رسائل و ناول پڑھنے کے بجائے انٹرنیٹ پر پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیںاور بہت سے ایسے ہیں جن کے پاس کتابیں پڑھنے کا وقت نہیں ،لیکن دن رات انٹرنیٹ چیٹنگ اور فضول و عشقیہ ایس ایم ایس کرنے میں انہیں کمال حاصل ہیں،جس کی وجہ سے مطالعہ کی عادت ختم ہوتی جارہی ہے۔ کتاب بینی میں کمی واقع ہونے کی وجہ صرف انٹرنیٹ نہیں بلکہ کمپیوٹر اور موبائل فون بھی ہیں۔ جب سے لوگوں میں اِن جدید ذرائع کے استعمال کی شرح بڑھی ہے، کتاب اور اس کی اہمیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے نوجوانوں میں ذوق مطالعہ کی کمی ہے ،جس کا سہراکسی حد تک انٹرنیٹ، کمپیوٹر اور موبائل فونز پر جاتا ہے۔ ہماری نوجو ان نسل کے گمراہ ہونے میں انٹرنیٹ، کمپیوٹر اور موبائل فون کا کافی اہم کردار ہے۔ اگرچہ انٹرنیٹ کی بدولت ”ای لرننگ“ یا ”ای ایجوکیشن“ کی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں مگر نوجوان ان سہولیات کا فائدہ اٹھانے کے بجائے انٹرنیٹ کے دیگر فضول استعمالات میں لگے رہتے ہیں۔ اس اہم مسئلے پر قابو پانے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔


     ٹیکنالوجی نے جہاں بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں بہت سے نقصانات بھی پہنچائے ہیں اور کتابوں سے دوری بھی ان میں سے ایک نقصان ہے۔ حالانکہ اکثر ترقی یافتہ ممالک میں ابھی بھی کتب بینی کا رجحان موجود ہے اور اس کی حکومتی سطح پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ کی بدولت معلومات کا جو ایک سیلاب آیا ہے اس میں بہت سا علم بھی بہہ گیا ہے۔ اب ہم لوگ معلومات تو بہت سی رکھتے ہیں لیکن علم میں ہم پیچھے چلے گئے ہیں، تحقیق کرنا تو جیسے بھول ہی گئے۔ معلومات کے اس بہاو ¿ سے جو انٹرنیٹ کی صورت میں رواں دواں ہے ایک نئی نفسیاتی بیماری نے جنم لیا ہے جسے ”انفارمیشن فٹیگ سنڈروم“ کہا جا رہا ہے جس کے مضر اثرات میں سب سے اہم قوت فیصلہ میں کمی ہے۔ ہم تلاش کچھ اور کرنے نکلتے ہیں اور یہ جادو نگری ہمیں کہیں کی کہیںلے جاتی ہے۔ ایک چیز کو پوری طرح ہضم کیے بغیر دوسری کی طرف دوڑتے ہیں، سائٹ پر سائٹ کھلتی چلی جاتی ہے اور آخر میں سارا کچھ ادھورا چھوڑ کر براﺅزر بند۔

    آج تصویر کے دونوں رُخ اظہر من الشمس کی طرح روشن ہیں،پہلا رُخ یہ کہ آج کے تیزرفتار برقی دور میں اسمارٹ فونز، سو سے زائد ٹی وی چینلز اور وقت کی کمی کے باوجود بھی مردو خواتین کی بڑی تعداد ماہنامہ رسائل اور دائجسٹوں کا مطالعہ بڑے ذوق و شوق سے کرتی ہیں۔ گھریلو خواتین اپنے بچوں کو اسکول بھیج کرگھر کے کام سے فارغ ہو کر یا پھر دوپہر میں بچوں کو ٹیوشن وغیرہ بھیج کر اور ملازمت پیشہ خواتین اپنے فارغ اوقات میں مطالعہ ضرور کرتی ہیں۔ ہمارے یہاں موجود رسائل و جرائد میں معاشرتی، سماجی و گھریلو سطح پر مبنی کہانیاں افسانے اور ناول ہوتے ہیں جو خواتین کی خصوصی توجہ و دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں، ان میں چھپنے والی کہانیاں معاشرے کے ہی مسائل کی نشاندہی کرتی ہیں جس کا بنیادی مقصد اصلاح اور نصیحت ہو تا ہے۔ تعلیم کا تناسب کم ہونے کہ باوجود رسائل وجرائدہماری تربیت میں معاون کردار ادا کرتے ہیں، شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کتاب انسان کی بہترین دوست ہے۔ اس سے زندگی کی اونچ نیچ اور بہت سے معاملات میں آگاہی حاصل ہوتی ہے کہ گویا انسانی ذہن اندھیرے سے نکل کر روشنی میں داخل ہو کر غلطیوں اور کوتاہیوں سے ادراک کرنے لگتا ہے۔اور دوسرا رُخ یہ کہ آج سوشل میڈیا نے خواتین کی مثبت رہنمائی کی بجائے انہیں بے باکی اور شرم سے اس قدر عاری کردیا ہے کہ وہ معیوب بات بھی باآسانی سوشل میڈیا پر کرتی ہیں جس سے خواتین کا منفی پہلو دنیا کے سامنے اجاگر ہورہا ہے۔ پہلے زمانے میں اپنے خیالات کا اظہار مدیر کو خط لکھ کر کیا جاتا تھا اور بڑی بے صبری سے انتظار رہتا تھا کہ کب ہمارا خط ڈائجسٹ میں شائع ہوگا، جبکہ آج سوشل میڈیا نے یہ سب چٹکیوں میں کردیا ہے کہ پلک جھپکتے ہی اسٹیٹس لکھا بھی جاتا ہے اور پڑھ بھی لیا جاتا ہے۔ کاش کہ مہینے میں ایک دن اپنے بچوں کو برگر یا پیزا کی بجائے ایک رسالہ یا ایک کتاب دلا دی جائے تاکہ دور حاضر کے بچے بہترین کھانوں کے ساتھ ساتھ اچھی اچھی کتابیں پڑھ کر کتب بینی کے فروغ میں اپنا اہم کردار ادا کر سکیں۔

     انٹرنیٹ کو ایک ای لائبریری کہا جاتا ہے جہاں ہر قسم کی معلومات اور کتاب محفوظ ہے۔ انسان جب چاہے انٹرنیٹ کے ذریعے کسی بھی کتاب کا مطالعہ کرسکتا ہے مگر یہ تمام باتیں پڑھنے لکھنے اور آگاہی حاصل کرنے والوں کے لیے ہیں۔ آج کی نوجوان نسل میں بہت کم تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو ان تمام سہولیات کا فائدہ اٹھاتے ہیں، زیادہ تر کے لیے کتابی شعور صرف کتابوں تک محدود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کتاب کلچر کو فروغ دیا جائے، کتابوں کی قیمتوں میں کمی کی جائے تاکہ عام آدمی کے لیے سستی و معیاری کتابوں کا حصول آسان ہو اور غریب عوام اور خاص طور پر نوجوان نسل میں مطالعہ کی اہمیت اور عادت کو پختہ کیا جاسکے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!