ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesISLAMIC KNOWLEDGE

اگر تھرٹی فرسٹ کا جشن منانا اتنا ہی ضروری ہے تو اس طرح منائیں

اگر تھرٹی فرسٹ کا جشن منانا اتنا ہی ضروری ہے تو اس طرح منائیں

مفلسوں کو کہاں اتنی فرصت کہ اپنے بچوں کانوالہ بننے والاروپیہ فضول خرچی میں صَرف کریں

از:عطاء الرحمن نوری ،مالیگاؤں(ریسرچ اسکالر)

موجودہ دور میں مسلمانوں کا ویلنٹائن ڈے، فرینڈ شپ ڈے،یوتھ ڈے،کرسمس ڈے ،برتھ ڈیزاور نیوایئروغیرہ مناناایک عام بات ہوگئی ہے۔ہر سال مفتیان کرام اور علمائے عظام کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ان ایّام کا جشن مناتی ہے، خاص کر کالج کے اسٹوڈنٹس،نوجوان اور مالدار افراد۔ غریبوں کو تو اپنے بچوں کی بھوک کا خیال ہوتا ہے، انھیں کہاں اتنی فرصت کہ مختلف ایّام کے جشن میں اپنے بچوں کے منہ کانوالہ بننے والاروپیہ فضول خرچی میں صَرف کریں۔مذکورہ دنوں میں عیاشی،فضول خرچی اور اسلامی احکام کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سوچناچاہیے کہ قدرت کسی کو نعمت دے کر امتحان لیتی ہے اور کسی سے نعمت لے کر۔وقت اور حالات بدلتے دیر نہیں لگتی،پَل بھر میں شاہ، فقیر اور فقیر بادشاہ بن جاتاہے۔اللہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل وخوار کرے۔اس لیے جب نعمتیں ملی ہیں تو سجدۂ شکر اداکرنا چاہیے نہ کہ خدائی فرمان کی خلاف ورزی۔
اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مذہب اسلام میں جس جس موقع پر خوشی کا اظہار کرنامقصود ہے ان تمام مقامات پر سجدۂ شکر، نماز، روزہ، صدقہ، خیرات، توبہ،استغفاراور دعاؤں کا تصور بھی موجود ہیں۔اگر آپ تھرٹی فرسٹ منانا چاہتے ہوتو 31؍دسمبرکو نفل نماز وروزے کا اہتمام کریں، درودوسلام کی کثرت کریں،مدارس کے بچوں کو عمدہ ولذیذ کھانا کھلائیں،غریبوں میں صدقہ وخیرات کریں،بیواؤں کی مدد کریں،بیماروں کی تیمارداری کریں،حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کریں،امدادچاہنے والوں کی ہر قسم کی مدد کریں،سردی کی راتوں میں سڑکوں پر سونے والے فقیروں میں شال اور کمبل تقسیم کریں،ممکن ہوتو قرض داروں کے قرض معاف کریں،والدین ناراض ہوتو انھیں کسی بھی طرح ہر حال میں راضی کریں،بہن بھائیوں وقریبی رشتے داروں سے تعلقات استوار کریں، دشمنوں سے بغل گیر ہوجائیں،خونی رشتوں کی حفاظت کریں،جن لوگوں سے گفتگوبند ہے ان سے ملاقات کریں اور عفوودرگرزسے کام لیں، جھوٹ،غیبت،لگائی بجھائی،سفلہ پن ،جھگڑے،جھوٹے وعدے اور وقت گذاری سے توبہ کریں،احکام خداوندی پر عمل پیراہونے کا عہدکریں،فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل بجاآوری کاارادہ کریں،تلاوت قرآن کریں،رات میں صلوٰۃ التسبیح اور آیت کریمہ کاوِرد کریں،سوالاکھ مرتبہ کلمۂ طیبہ پڑھیں،بچوں کی تعلیمی ضرورتوں کا خیال کریں،فیملی ممبرس کی دوائیاں وقت پر لائیں،ایسے بچے تلاش کریں جو پیسوں کی کمی کے سبب تعلیم حاصل نہیں کرپارہے ہیں اور ان کا اچھی اسکول میں داخلہ کرواکر تعلیمی اخراجات برداشت کریں،غریب بچیوں کی شادی کا انتظام کریں، ایسے مریضوں کو تلاش کریں جن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں اور ان کا علاج کروائیں، کسی مریض کے بڑے آپریشن میں تعاون کریں،مسافروں کی رہبری کریں،نابیناؤں کو منزل تک پہنچائیں،اَتی کرمن کا صفایاکریں،خود بھی اَتی کرمن نہ کریں اور دوسروں کو بھی منع کریں،امدادی دواخانے کا آغاز کریں،قبرستان میں رشتہ داروں کی قبروں پر جائیں تاکہ دل نرم ہو،چوک چوراہوں پر پینے کے پانی کا نظم کریں،مضافاتی اور دیہی علاقوں میں ہینڈ پمپ وبورنگ کانظم کریں اور مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے وقف کرکے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی سنت پر عمل کریں اورفضول خرچیوں سے باز آجائیں۔


اس طرح کے متعدد کام ہیں جنھیں انجام دے کر 2018ء کو الوداع اور نئے سال کوخوش آمدید کہاجاسکتاہے۔اگر نئے سال کا جشن منانے والوں نے نئے سال کے آغاز پر مذکورہ اعمال وافعال پر عمل کیااور نیکیوں کے ذریعے نئے سال کاسُواگت کیاتو ان شآء اللہ تعالیٰ نیاسال ہمارے لیے بہتری وخیرکا پیغام ضرورلائے گااور اللہ کو ناراض کرنے والے کاموں کے ذریعے نئے سال کاآغاز کیاتو افغانستان، عراق، شام اور دیگر اسلامی ممالک کی لرزہ خیز داستانیں ہمارے سامنے ہیں جن سے درس حاصل نہیں کیاگیاتو ہماراوجود بھی عبرت کی نشانی بن سکتا ہے۔
سوال یہ قائم ہوتاہے کہ آخرکیاوجہ ہے کہ ہم شب برأت وشب قدر اور یوم ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اظہارِ خوشی سے کوسوں دور رہتے ہیں اور غیراسلامی تہواروں میں جوش وخروش سے شریک ہوتے ہیں؟راقم آٹھ سالوں سے غیرمسلموں کے درمیان ایک ہاسپٹل میں فارماسسٹ کے فرائض انجام دے رہاہے مگر کبھی اس عرصے میں عید کے موقع پر غیروں کے محلے میں عطر، ٹوپیاں، تسبیح، مسواک وغیرہ بکتے ہوئے نہیں دیکھااور نہ ہی کسی غیرمسلم نے ایسی اشیاء پر مبنی دکان کا انتظام کیا ۔مگر ہاں مسلم محلوں میں دیوالی کے ایام میں پٹاخے،فرکی،راکٹ،سُرسُری ،رنگ وآرائش کا سامان فروخت ہوتے ضرور دیکھا ہے اور ہمارے بھائی بہت چاؤ سے اپنی اولاد کے لیے سامان کی خریدی کرتے ہیں،آخر کہاں ہے ہم ؟؟غیروں کے تہواروں میں نوجوانوں کا شریک ہونا،دھوم مستی کرنا، پکڑے جانے پر اسلام کا نام بدنام ہونا،نوجوانوں کا محض دیکھنے کے لیے آس پاس کے چرچ میں جانا،گنپتی بتانے کے لیے عورتوں کابچوں کو لے کرجانا،دیوالی میلہ میں نوجوانوں کا بیوی کو گھمانے اور خریدی کے لیے ساتھ لے کرجانا،عیسائی نئے سال کی آمدپر کالج کے بوائزاور گرلس کا بار،ہوٹل یا روم میں پارٹی کرنا،ایک دوسرے کو مبارکباد دینا،سیروتفریح کے لیے جانا،نئے موبائل اور نئی گاڑیاں خریدنا،شہرومضافات کی ہوٹلوں پر محض تھرٹی فرسٹ کے جشن کے لیے مع دوست واحباب دعوت پر جانا،گانے سننا،رات رات بھر یاران مجلس کے ساتھ فلمیں دیکھنا،کلبوں میں دھینگا مستی کرنا،ویڈیوز،ایم ایم ایس اور ایس ایم ایس شیئر کرنا،نت نئی خرافات کو جنم دیناوغیرہ۔آخر کتنی کشتیوں میں ہم سنوار ہیں؟ ہمیں اپنابھولاہواسبق یادکرنے کی ضرورت ہے اور یہ بھی ذہن نشین کرنے کی کہ کسی کی کشتی میں سوار ہوکر اپنی نیّا نہیں تیرائی جاسکتی،ہمیں خوداپنی کشتی کی نگہبانی کرنی ہوگی،اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا۔اللہ پاک عقل سلیم عطا فرمائے۔

***

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!