ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesISLAMIC KNOWLEDGE

ہندوستانی انتخابات کی خصوصیات جن کی بناء پر الیکشن جمہوری کہلاتے ہیں

ہندوستانی انتخابات کی خصوصیات جن کی بناء پر الیکشن جمہوری کہلاتے ہیں


از:عطاء الرحمن نوری ،مالیگاؤں(ریسرچ اسکالر)

ووٹر لسٹ میں غلط ناموں کی شمولیت اور صحیح ناموں کا اخراج، حکمراں پارٹی کی جانب سے حکومتی سہولتوں اور افسران کا غلط استعمال ، مالدار اُمیدواروں اور بڑی بڑی پارٹیوں کا الیکشن پر حد سے زیادہ پیسہ خرچ کرنا ، پولنگ والے دن رائے دہندگان کو دھمکانا اور فریب کرنا جیسی خبریں ہمیشہ اخبارات اور ٹیلی ویژن کے ذریعے اکثر پڑھنے اور سننے میں آتی ہیں باوجود اس کہ ہر ہندوستانی الیکشن کے نتیجے پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کر تا ہے۔چوں کہ ہندوستانی کا آئین وَفاقی اور پارلیمانی ہے اس لیے یہی طریقہ کار مستقبل میں بھی رائج رہے گا۔میں یہ نہیں کہتا کہ یہ تمام رپورٹیں صحیح یا تمام غلط ہوتی ہیں مگر اس بات کا امکان ضرور ہے کہ کچھ خبریں صحیح ہوتی ہوں گی تو کچھ غلط بھی ۔ بہر حال ان جیسی خبروں سے حساس ہندوستانی کا دل ضرور دکھتا ہوگا کیوں کہ بڑی محنت ومشقت کے بعد ہمیں آزادی میسر آئی اور سالوں کی محنت کے بعد ہندوستان کا آئین تیار ہوا تھا۔ مگر یہ خوش آئند بات ہے کہ ان خبروں سے الیکشن کا مقصد مجروح نہیں ہوتا ہے ۔ مگر پھر بھی یہ سوال ذہن میں پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ کون سی خصوصیات ہیں جن کی بناء پر ہندوستانی انتخابات جمہوری کہلاتے ہیں؟

(1)

آزاد الیکشن کمیشن

انتخابی عمل کے معیار کی جانچ کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ الیکشن کون کراتا ہے ؟ کیا وہ حکومت کی نگرانی سے آزاد ہے ؟ اور کیا اس کے پاس اتنے اختیارات ہیں کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کراسکیں؟ہمارے ملک ہندوستان میں ایک آزاد ،بے حد طاقتور اور بااختیار الیکشن کمیشن انتخابات کراتا ہے ۔ہندوستان کے صدر جمہوریہ ،چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کرتا ہے لیکن تقرری کے بعد یہ چیف الیکشن کمشنر صدر جمہوریہ یا حکومت کو جواب دہ نہیں ہوتا ،الیکشن کے وقت خود حکمراں پارٹی الیکشن کمیشن کی سرگرمیوں اور پابندیوں کو ناپسند کرتی ہے باوجود اس کہ وہ الیکشن کمشنر کو اپنے منصب سے ہٹا نہیں سکتی۔پوری دنیا میں چند ہی ایسے الیکشن کمیشن ہیں جن کو وہ اختیارات حاصل ہیں جو ہندوستانی الیکشن کمیشن کو حاصل ہیں۔جیسے :
*الیکشن کمیشن انتخابات کے اعلان سے لے کر نتائج کے اعلان تک انتخابات کرانے اور ان کی نگرانی کے ہر پہلو پر فیصلہ کرتا ہے ۔
* یہ ضابطہ اخلا ق کو نافذ کرتا ہے اور کسی بھی اُمیدوار یا پارٹی کو سزا دے سکتا ہے ۔
* انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن حکومت کو چند ہدایتی اُصولوں پر عمل کرنے کے لیے کہتا ہے ۔مثلاً: انتخابات جیتنے کے امکانات کو بڑھانے کے لیے حکومتی عملے کا غلط استعمال یا سرکاری افسران کا تبادلہ کرنا وغیرہ۔
* الیکشن ڈیوٹی پر تعینات ہونے پر سرکاری افسران الیکشن کمیشن کی نگرانی میں کام کرتے ہیں نہ کہ حکومت کی۔

(2)

عوامی شمولیت

انتخابی عمل کے معیار کی جانچ کا دوسرا طریقہ یہ دیکھنا ہے کہ آیا عوام پورے جوش وخروش کے ساتھ الیکشن میں حصہ لیتے ہیں یا نہیں؟ اگر انتخابی عمل آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوتا تو عوام اس میں حصہ لینا چھوڑ دیں گی۔اس بابت دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان میں لوگ انتخابات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں ۔پچھلے کئی سالوں سے الیکشن سے وابستہ سرگرمیوں میں رائے دہندگان کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ آدھی سے زیادہ آبادی نے کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ اپنی وابستگی کوظاہر کیا ہے ۔ وہ سوچتے ہیں کہ الیکشن کے ذریعہ وہ سیاسی پارٹیوں پر ایسی پالیسیاں اور پروگرام اختیار کرنے پر زور ڈال سکتے ہیں جو ان کے لیے سازگار ہوں، وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ ان کا ووٹ حالات پر اس طرح اثر انداز ہوتا ہے جس سے ملک کا نظام حکومت چلتا ہے ۔

(3) انتخابی نتائج کو تسلیم کرنا:

آزادنہ اور منصفانہ الیکشن کا آخری امتحان بذات خود اس کا نتیجہ ہے ۔ اگر انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہ ہوں تو نتیجہ ہمیشہ طاقتور کے حق میں جاتا ،ایسی صورت میں حکمراں پارٹیاں الیکشن نہیں ہارتیں۔ لیکن ہندوستان میں دیکھا جائے تو قومی اور ریاستی سطح پر حکمراں پارٹیاں بھی الیکشن ہار جاتی ہیں۔ ہندوستان میں تقریباً موجودہ آدھے ایم پی اور ایم ایل اے نے انتخابات ہارے ہیں۔ بزرگوں کا یہ بھی مشاہد ہ ہے کہ وہ امیدوار جنہوں نے ووٹ خریدنے پر کافی روپیہ خرچ کیا تھا یا وہ جن کا کردار مجرمانہ رہا تھا ، اکثر یقینی طور سے الیکشن ہارتے ہیں۔ چند متنازعہ کو چھوڑ کر ہاری ہوئی پارٹی انتخابی نتائج کو عام طور سے ’’ عوامی فیصلہ‘‘ تسلیم کرتی ہے ۔
مذکورہ دلائل کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ متنازعہ فیہ خبروں کے باوجود ہندوستان میں الیکشن جمہوری طرز پر ہوتے ہیں اور اگر ان انتخابات میں غلطیاں پائی جاتی ہیں تو اس کے ذمہ دار خودہندوستانی باشندے ہیں نہ کہ آئین ۔اگر ہر ہندوستانی اپنی ذمہ داریوں سے باخبر ہوتے ہوئیں انھیں ادا کرنے کی ٹھان لیں تو وہ دن دور نہیں جب ایسی خبریں ناپید ہوجائیں گی مگر پھر یہ سوال قائم ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے ؟
 

***

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!