ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesISLAMIC KNOWLEDGE
عدل وانصاف کسی بھی قوم کی نشوونما اور تعمیر وترقی کے لیے بنیادی ضرورت
عدل وانصاف کسی بھی قوم کی نشوونمااور تعمیر وترقی کے لیے بنیادی ضرورت
از:عطاءالرحمن نوری ،مالیگاﺅں(ریسرچ اسکالر)
لغت میں ”قضائ“کامعنی حکم اور فیصلہ کے ہیں۔قاضی شرعی کوحاکم کہتے ہیں۔ اصطلاح میں قضاءیعنی جھگڑوں کافیصلہ کر نااور تنازعات کاخاتمہ کرنے کوکہتے ہیں۔حدوداسلامیہ میں اسلامی نظام کوقائم کرنے کے لیے شعبہ قضا کا درست ،مستعداورفعال ہونانہایت ضروری ہے۔اسی طرح فیصل یاقاضی کوچاہیے کہ فیصلہ کرتے وقت عدل وانصاف کادامن تھامے رہے۔فرمان الٰہی ہے،ترجمہ:”اے محبوب!بے شک ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اُتاری کہ تم لوگوں میں فیصلہ کروجس طرح تمہیں اللہ دکھائے اور دغاوالوں کی طرف سے نہ جھگڑوں۔“(نسائ، پ5، آیت 105)ترجمہ:” فیصلہ فرماﺅتو انصاف سے فیصلہ کروبے شک انصاف والے اللہ کوپسندہیں۔“(المائدہ،پ6،آیت 42)
عدل وانصاف کسی بھی قوم کی نشوونمااور تعمیر وترقی کے لیے بنیادی ضرورت ہے جس سے مظلوم کی نصرت،ظالم کاخاتمہ اور جھگڑوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔اسی طرح جملہ حقوق کو ان کے حق داروں اور مستحقین تک پہنچایاجاتا ہیں اور دنگا فساد کرنے والوں کو سزائیں دی جاتی ہیں تاکہ معاشرے کے ہرفرد کی جان ومال ،عزت وآبرواور مال واولاد کی حفاظت ہو۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ”قضا “یعنی قیام ِ عدل کے لیے خصوصی اہتمام کیاہے اور اسے انبیائے کرام کی سنت قرار دیاہے۔قرآن مقدس کی کئی آیات میں انبیائے کرام کے فیصلوں کاذکر موجود ہیں۔حضور رحمة اللعالمین ﷺاپنی ظاہری حیات مبارکہ میں مسلمانوں کے لیے دین ودنیاکے تمام اُمور میں مرجع کی حیثیت رکھتے تھے۔اللہ پاک نے آپ ﷺکو تمام اوصاف حمیدہ سے مزین فرمایاہے۔حکمت ومصلحت،قائدانہ صلاحیت،مربی ومرشدی خصائص اور منصف اعلیٰ کے تمام خصوصیات آپ ﷺ کی ذات مبارکہ میںموجود تھیں۔جولوگ آپ کے فیصلے پر راضی نہیں ہوتے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں وعید نازل فرمائی اور اپنی عظیم ذات کی قسم کھاکر آپﷺکے فیصلے کو تسلیم نہ کرنے والوں کو اسلام سے خارج قرار دیا۔چنانچہ ارشاد ربانی ہے:ترجمہ:”اے محبوب !تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھرجوکچھ تم حکم فرمادواپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں۔“(سورہ نسائ،پ5،آیت 65)
نبی اکرمﷺکے بعد خلفائے راشدین سیاسی قیادت،عسکری صلاحیت اور دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ منصف وقاضی کے مناصب پر فائزرہے ۔خودنبی کریمﷺنے اپنے دور میں متعدد صحابہ ¿ کرام کودوردراز کے علاقوں میں قاضی ومنصف بناکر بھیجاتاکہ اسلام کے نظام عدل ومساوات سے ہرکوئی استفادہ کرسکے۔ حضورﷺکا ہرفتویٰ اور ہر فرمان اُمت محمدیہ کے لیے تاقیامت قابل اطاعت ہے۔آپ ﷺ کے ہرفرمان کوتسلیم کرناجہاں شرعی طور پر ہر مومن کے لیے ضروری ہے ، وہی اسلامی حکومت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ آپ ﷺکے احکامات کی قانونی طور پر تعمیل کرائے اس لیے کہ فرامین مصطفی کریم ﷺپر عمل بجاآوری کے متعلق آیات قرآنیہ اور احادیث رسول میں واضح احکامات موجود ہیں۔آپﷺکاہر فیصلہ اس اعتبار سے بھی ممتاز ترین ہے کہ آ پ ﷺقانونی ،شرعی،اخلاقی اور جملہ اصول و ضوابط کے اعتبار سے دنیاکی سب سے اہم ترین ہستی ہےں۔آپ کو اللہ پاک نے مکمل اتھارٹی عنایت فرمائی ہے۔ایک فیصل کے لیے صداقت،راست بازی،حق گوئی ،بے باکی اور طاقت وقوت کاحامل ہوناانتہائی ضروری ہے اور یہ تمام اوصاف رسول پاک ﷺ کے تلوﺅں کادھون ہے۔
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکرتے کہ ان کابدرمیں شریک ہونے والے ایک انصاری سے حرہ کے ایک نالے کے بارے میں ہونے والا جھگڑا حضورﷺ تک جاپہنچاجس نالے سے دونوں اپنی کھیتیوںکوپانی دیاکرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے یہ فیصلہ فرمایاکہ زبیر!پہلے تم پانی دے لیاکروپھراپنے ہمسائے کے لیے چھوڑدیاکرو۔یہ سن کرانصاری برافروختہ ہواورکہنے لگاکہ یارسول اللہﷺ!وہ آپ کی چچی کابیٹاہے (اسی لیے آپ نے اس کے حق میں فیصلہ دیاہے)۔یہ الزام سن کرنبی کریم ﷺکے چہرہ کارنگ تبدیل ہوگیااور آپ نے کہا:زبیرتم اپنے کھیتی کو پانی دو،پھرپانی روک لویہاںتک کہ منڈیرکی بلندی تک جاپہنچے،چنانچہ نبی کریم ﷺنے اس وقت زبیرکے لیے پانی کاپوراحق محفوظ کردیا(اور اسے جتایاکہ حمایت کافیصلہ تویوں ہوتا)حالانکہ اس سے قبل آپﷺحضرت زبیر اور انصاری دونوں کے لیے گنجائش والافیصلہ فرماچکے تھے۔جب انصاری نے آپﷺکے (درست)فیصلہ پرتحفظ کااظہارکیاتو آپ نے صریح طورپرحضرت زبیرکے حق کو واضح کردیا۔ عروہ کابیان بیان ہے کہ زبیرکہاکرتے کہ میرے خیال میں یہ آیت ،ترجمہ:تواے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھرجوکچھ تم حکم فرمادواپنے دلوں میں اس سے رُکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں۔ (نسائ، پ5،آیت 65)اس معاملے کے سواکسی اور واقعے میں نازل نہیں ہوئی۔(صحیح بخاری 2509،2188،ترمذی1283،نسائی 5312،5321)
مکحول بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی مسلمان اور منافق کے درمیان کسی بات پرجھگڑا ہوگیا، وہ دونوں رسول اللہﷺکے پاس آئے،آپﷺنے منافق کے خلاف فیصلہ فرمادیا۔پھردونوں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی طرف چلے گئے ، انہوں نے کہاجو رسول اللہ ﷺکے فیصلے کونہیں مانتا،میں اس کے درمیان فیصلہ نہیں کرسکتا۔پھر وہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے ساراواقعہ بیان کیا۔سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا:میرے واپس آنے تک تم یہیں ٹھہرنا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھرسے تلوار سونت کرآئے اور منافق کوقتل کردیااور کہا:جورسول اللہ ﷺکے فیصلے پر راضی نہیں ہوتا،اس کے لیے میں اسی طرح کافیصلہ کرتاہوں۔پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی۔ترجمہ:تواے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے(نسائ،پ5،آیت 65)اسی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا لقب ”فاروق“ پڑگیا۔(خطبات محرم)