ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesNEWS/REPORTS/PROGRAMMES

میڈیا کنٹرول کے دور میں ریموٹ کنٹرول کی اہمیت ختم ہو گئی ہے۔

میڈیا کنٹرول کے دور میں ریموٹ کنٹرول کی اہمیت ختم ہو گئی ہے۔

از:عطاءالرحمن نوری ،مالیگاﺅں(ریسرچ اسکالر)


    میڈیا کنٹرول کے دور میں ریموٹ کنٹرول کی اہمیت ختم ہو گئی ہے ۔پہلے ٹی وی کے ناظرین کو طاقت وَربتایا جاتا تھا کیوں کہ وہ یہ طے کرتے تھے کہ انھیں کب ،کون سا چینل اور کیا دیکھنا ہے ۔اس لیے چینلوں کی دنیا میں نت نئی خبروں کی تلاش وجستجو کا نہ رُکنے والا سلسلہ شروع ہوا،بہت سے اسٹنگ آپریشن ہوئے، خفیہ کیمروں اور ریکارڈنگ آلات کی مدد سے کئی سربستہ رازوں کو عیاں کیا گیا، ایک صحافی کیمرے کی آنکھ سے سچائی کو سامنے لانے کے لیے دن رات تگ ودَو کرتا تھا،حالات اور ضرورت کے مطابق اینکروں کی دنیا میں بڑا انقلاب پیدا ہوا،جس اینکر میں جتنا دم خم ہوتاوہ اتنے ہی زیادہ ناظرین حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا تھا اسی لیے ناظرین کو طاقتور سمجھا جاتا تھا کہ فیصلہ ان کے ہاتھوں میں تھا کہ وہ کیا دیکھنا چاہتے ہیں؟مگر چند سالوں سے سارے چینلوں کا لب و لہجہ،تال میل اور خبروں کا رنگ ڈھنگ ایک جیسا ہونے لگا ہے ،اب ناظرین کو اپنے من کا سچ دکھایا جا رہا ہے ،چینل بدلنا اور نہ بدلنا ،ایک جیسا ہوگیا ہے،ہر طرف وہی مدعا،ایک ہی موضوع،ایک جیسی دلیلیں اورایک جیسی باتیں۔ایک بار ایجنڈہ طے ہو گیا تو اسے پروپیگنڈہ بنتے دیر نہیں لگتی۔یہی حال ملکی،ریاستی اور شہری سطح پر نکلنے والے اخبارات کا بھی ہے،جس ایجنڈہ کو ملکی سطح پر حاوی کرنا ہوتا ہے اسے ایک سُلگتا ایشو بنا کرملکی سطح پر شائع ہونے والے اخبار،رسائل اور جرائد میں شائع کر دیا جاتا ہے یا کسی قد آور لیڈر کا بیان سامنے آجاتا ہے ،ریاستی اخبارات اسے ہی کاپی کر کے شہ سرخی میںچھاپ دیتے ہیںاور مقامی اخبارات کاپی پیسٹ کی سب سے بہترین مثال پیش کرتے ہوئے حق وباطل میں امتیاز کیے بغیر من وعن شائع کر کے صحافتی ذمہ داریوں سے اپنے آپ کو بری الذمہ خیال کرنے لگتے ہیں۔
    دراصل پرنٹ میڈیا،الکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا ایک مکان کی طرح ہے ۔اس مکان کی تمام اینٹیں مختلف ٹی وی چینل،اخبارات اور سوشل سائٹس ہیں۔ان کے ذریعے ناظرین اور قارئین کے گرد ایک ہالہ یا کنواں بنا دیا گیا ہے ،چینلوں، اخباروں اور سوشل سائٹس کے ذریعے مکان کی دیوار بڑھتی جارہی ہے اور منصوبہ بند طریقے سے بنایا گیا کنواں دھیرے دھیرے سُرنگ کی صورت اختیار کرگیا ہے ،اب قارئین اور ناظرین کی سوچ سُرنگ کا حصہ بن چکی ہے ،اب ہر دیکھنے اور پڑھنے والا ویسی ہی بولی بول اور سوچ رہا ہے جیسی سرنگ کے ذریعے پہنچائی جا رہی ہے ،اب قارئین اور ناظرین کو صرف چار پانچ باتیں ہی معلوم ہوتی ہیںیا یہ کہہ لیجیے کہ صرف انھی باتوں کا علم ہوتا ہے جس کو بتانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔اب ناظرین اور قارئین سُرنگ میں نہیں بلکہ خوف وہراس کے موت کے کنویں میں احساس کمتری میں مبتلا ہو کر سہمے سہمے زندگی گذارنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں۔اسی لیے راقم نے مضمون کا آغاز اس جملے سے کیا”میڈیا کنٹرول کے دور میں ریموٹ کنٹرول کی اہمیت ختم ہو گئی ہے ۔“
    راشٹر وَاد کے نام پر نئے نظریات کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔اب حکومتیں عوام کو نہیں بلکہ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے منصوبے بناتی ہیں،ایک بار میڈیا کَور ہو جائے پھر عوام وخواص کا اعتماد بآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔زیادہ پرچار،پروپیگنڈوں اور سوشل میڈیا پر جھوٹے آئی ٹی سیل کو ہمہ وقت مصروف کر کے اپنے من کا سچ بیان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،سوشل میڈیا کے آنے سے اب ناظرین کو نیوز رُوم تک جانے کی بھی ضرورت نہیں رہی ،پروپیگنڈہ اب خود چل کر موبائل کے ذریعے ہاتھوں ہاتھ آرہاہے،ایسا نہیں ہے کہ یہ حال صرف عالمی میڈیا کا ہے بلکہ آپ اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں،دیہات ،مضافات اور شہروں کی سیاست کابھی یہی حال ہوچکا ہے ،پہلے وہ اشتہارات کی صورت میں پیسہ دے کر حقیقت کو مخفی رکھنا چاہتے ہیں،دوسرے ایکشن کے ذریعے میڈیا کو دھمکایا جاتا ہے، سیاست دانوں کے لیے میڈیا اس لیے بھی ضروری ہو گیا ہے کہ عوام کو ہر وقت بیان بازیوں کے ذریعے احساس دلایا جاتا رہے کہ کام ہورہا ہے،الیکشنی ایام میں کیے گئے وعدوں کی تکمیل ہو رہی ہے،بھلے ہی وہ کام صرف کاغذ پر ہوئے ہوں۔ جوصحافی برادران اشتہار ات کے دامِ فریب میں آگئے یا ڈر گئے وہ جھوٹ پھیلا کرسیاست کی چوتھی مملکت یعنی صحافت کا گلا گھونٹ رہے ہیں اور جو نہیں ڈرے وہ مختلف مقدمات میں اُلجھا دیئے گئے ہیںاورجو پھر بھی نہیں ہارے انھیں مار دیا گیا ہے جیسے :راجیش ورما(آئی بی این)،سائی ریڈی (سائی بندھو)، ترُن کمار اچاریہ(کنک ٹی وی)،ایم وی این شنکر(آندھرا پربھا)،سندیپ کوٹھاری، سنجے پاٹھک،ہیمنت یادو،کرون مشرا(جن سندیش ٹائمز)،راجدیو رنجن (ہندوستان)، کشور داوے(جے ہند)،گوری لنکیش (گوری لنکیش پتریکے)،سنتانو بھاومک(چینل دن رات)اور سندیپ دتا (سیاندن پتریکا)وغیرہ۔
    گویا کہ کہیں لیگل سیل ایکشن لیتا ہے تو کہیں بھیڑ حملہ کردیتی ہے ۔ڈرانے والے طاقتور ہوتے ہیں مگر ان کا کیا کریں جن کے پاس طاقت تو نہیں ہوتی مگر وہ کسی سے ڈرتے نہیں ہے ؟اس لیے سام ،دام ،دنڈبھید کے تمام گُر استعمال کیے جاتے ہیں۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو صحافیوں کی دو قسم بنتی ہے ،ایک وہ جو ڈر رہے ہیں اور دوسرے وہ جنھیں ڈرایا جا رہا ہے،ڈرنے والے جھوٹ موٹ کا ڈرنے کی موٹی قیمت وصول کررہے ہیں،جن کا ڈر ستّہ کی کرسی کے قائم رہنے تک رہتا ہے جیسے ہی حکومت بدلی ان کا ڈر بھی اپنا قبلہ تبدیل کرلیتا ہے اورنہ ڈرنے والوں کو صرف ڈر ملتا ہے یا یہ کہہ لیجیے کہ میڈیا ستّہ کی گود میں آنکھ مچولی کھیل رہاہے ۔ڈرنے والے یہ بھول گئے ہیں کہ ان کا یہ ڈ ر اور بیباک جرنلسٹوں کی بہادری تاریخ رقم کررہی ہے،مستقبل میں انھیں ہی یاد کیا جائے گا جو شیر میسور حضرت ٹیپو سلطان کے اس قول ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے “پر عمل کررہے ہیں،ہاں ڈروخوف کو بیچنے والوں کو بھی یاد رکھا جائے گا مگر میر جعفر ومیر صادق کے رُوپ میں۔اب یہ فیصلہ صحافی برادران کو کرنا ہے کہ وہ کس خانے میں اپنے آپ کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں؟

٭٭٭


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!