ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesISLAMIC KNOWLEDGESAFAR-NAMA

Asra aur Meraj ka Safar

اسریٰ اور معراج کے سفر کی منفرد حکمتیں: مختلف اسفار کے تناظر میں

اسریٰ اور معراج کے سفر کی منفرد حکمتیں: مختلف اسفار کے تناظر میں

از:عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر) مالیگاﺅں

ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک انسان مصروفِ سفر ہے۔انسان کا سفر علم ِالٰہی سے شروع ہوتا ہے۔علم ِالٰہی سے عالم ِارواح کا سفر،عالم ِارواح سے باپ کی پُشت کا سفر،پُشت ِ فادر سے رحم ِ مادر کا سفر اور پھر رحم ِ مادر سے دنیاوی سفر۔ اس سفر کا اختتام خالق کائنات کی بارگاہ میں پہنچنے پر ہوگا۔انسان کے ظاہری سفر کا آغاز تمام انسانوں کے جد امجد سیدنا آدم علیہ السلام کی ذات سے ہوتا ہے۔ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق جنت میں ہوئی اور آپ زمین پر تشریف لائے،یہ آپ کا جنت سے زمین کی جانب سفر تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ اور بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ شہر بابل سے حرم کی سرزمین کی طرف سفر،حضرت لوط علیہ السلام کا عذاب نازل ہونے والی پانچ بستیوں (سعدون،عمورا،اوما،زبوئیم اور سدوم)سے نکل جانے کا سفر،حضرت یوسف علیہ السلام کا بازارِ مصر تک کا سفراور پھر قیدوبند سے بادشاہت کا سفر،حضرت ایوب علیہ السلام کا تندرستی وتوانائی سے آزمائش کی طرف سفرِ صبر۔حضرت یونس علیہ السلام کا شکمِ مچھلی میں چالیس روزہ سفر، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مصر سے مدین کی طرف سفر ہجرت،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا سفر آسمانی اور پھر سیدالانبیاءمونس انس وجاں شاہکار دست قدرت مصطفی جان رحمت ﷺ کے مختلف اسفار۔کبھی بغرض تجارت ملک شام کا سفر، کبھی شہر طائف ودیگر علاقوں کا تبلیغی سفر،مکہ سے مدینہ کی جانب سفر ہجرت اور بالخصوص سفر معراج۔ غرضیکہ جدا جدا دور میں انبیائے کرام  نے مختلف اسفار فرمائے ہیں۔


نبی آخرالزماں ﷺکے بعدآپ ﷺکے جاں نثاروں نے دنیا کے گوشے گوشے میں تبلیغ دین کے لیے سفر کیا۔ تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام میں سے حرمین طیبین میں کم و بیش چار ہزار صحابہ کرام کی مزاریں ہیں، معلوم ہوا کہ فروغِ دین کی خاطر آسمانِ ہدایت کے ان تاروں  نے اللہ کی وسیع وعریض زمین پر طویل طویل اسفار کیے اور مرضی مولیٰ کے مطابق اشاعت دین کرتے ہوئے زمین کے مختلف خطوں میں آرام فرما رہے ہیں۔ ان کے عزم واستقلال کو دیکھتے ہوئے پہاڑوں کی بلند وبالا چوٹیاں سرنگوں ہوجاتیں، صحراﺅں کی وسعتیں سمٹ جاتیں اور دریاﺅں کی روانی راستہ ہموار کردیتی۔ کربلا کی خون سے رنگین سُرخ زمین آج بھی تحفظ اسلام کی خاطر کیے گئے سفر حسینی سے اسلام کی خاطر سر کٹانے کا پیغام دے رہی ہے۔ روم وایران کے جغرافیائی نقشے دنیائے کفر سے 125 لڑائیاں لڑنے والے عظیم المرتبت مجاہد، جنگجو، بہادر اور نامور سپہ سالار اسلامی تاریخ کے اولوالعزم شمشیر آزما اور عبقری جرنیل سیدنا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے مختلف اسفار گستاخان رسولﷺ کے سروں کو تن سے جدا کرنے کا درس دے رہے ہیں۔ جیلان کی سرزمین سے بغداد تک کا سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ کا علمی وروحانی سفر حصول ِ علم کے لیے جدوجہد وسعی پیہم کا نمونہ فراہم کر رہا ہے۔ نائب النبی فی الہند سیدنا خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کا سنجر سے اجمیر مقدس کا سفرراہِ تبلیغ دین میں کلفتوں، صعوبتوں، مصیبتوں اور پریشانیوں کو اٹھانے کی تعلیم دے رہا ہے۔ جذبہ سفر کی بدولت ہی محمد بن قاسم ایک مسلم خاتون کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے سندھ کی سرزمین پر تشریف لائے اور اپنی سگی بہن سے شادی کرنے والے ظالم وجابر راجہ داہر کو شکست فاش دیتے ہوئے اسلامی پرچم کو بلند کیا۔ جبل طارق کی چوٹیاں قوم بربر کے بہادر سپوت طارق بن زیاد اور شریک ِ سفر نوجوانوں کے شوقِ جنوں کی داستان سنا تے ہوئے ہر مُلک مِلکِ مااست کہ مُلکِ خداے مااست کا نعرہ مستانہ یاد دلارہی ہیں، قبلہ اول کی درودیوار عزم وہمت کے جبل شامخ سلطان صلاح الدین ایوبی کے کربناک سفر کا تذکرہ کر رہی ہے۔ قسطنطنیہ کا ناقابل تسخیر قلعہ سلطان محمد فاتح کے سفرِ جرا ت وبہادری کے ترانے گنگنا رہا ہے۔ اگر سفر کا مادہ نہ ہوتا تو واسکوڈی گاما ہندوستان دریافت نہ کرپاتا۔


آج بھی انسانی سفر کا یہ سلسلہ دراز ہے۔ لوگ اپنے سفر نامے بھی تحریر کرتے ہے۔ ان سفر ناموں میں سفیر اپنے مشاہدات، تحقیقات اور موجودہ حقائق کو تحریر کرتا ہے، ساتھ ہی قدرت کے سربستہ رازوں کو عیاں کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ ہر سفیر اپنے تجربات ومشاہدات، نتائج وحقائق اور اپنی آراونظریات کی روشنی میں اپنے سفرناموں کو سپر دقلم کرتا ہے۔ اس ضمن میں ابن بطوطہ کے سفر نامے قابل ذکر ہیں۔ دنیا میں متعدد سفرنامے لکھے گئے اور لکھے جا رہے ہیں۔ مثلاً: تاریخی سفر نامے، تہذیبی وثقافتی سفر نامے، تجارتی سفر نامے، ادبی سفرنامے، عالمی سفر نامے، تبلیغی سفر نامے اور تفریحی سفر نامے وغیرہ وغیرہ۔ ہر سفرنامے کی قدر وقیمت اپنی جگہ مسلم ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ سفر ناموں کی حیثیت کب تک قائم رہے گی؟ دنیا اس سے کب تک استفادہ کر سکے گی؟ اکناف عالم میں یہ سفرنامے کب تک اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں گے؟جواب بالکل سیدھا اور صاف ہے کہ جن مقامات کا سفر کیا گیا ہے جب تک ان مقامات کا وجود قائم رہے گا تب تک ان سفر ناموں کی حیثیت باقی رہے گی۔ جیسے کسی  نے تاج محل، دیوارِ چین، کلاسیو، پیسا کا مینار، اہرام مصر، ایفل ٹاور یا دوسری کسی اور جگہ کا سفر کیا اور سفر کے بعد سفر نامہ تحریر کیا تو ان سفرناموں کی حیثیت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک دنیا میں یہ عجائبات موجود رہیں گے۔ جس دن دنیا کے نقشے سے ان کا وجود ختم ہوگیا اس دن ان سفر ناموں کی حیثیت زبردست متاثر ہوگی۔ ان سفرناموں کی حیثیت کتابوں میں محفوظ تاریخ کی سی تو ہوگی مگر اب ان سے کوئی استفادہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی ان میں بتائے گئے خطوط پر چل کر کوئی ان کے نظارے سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر سکتا۔ غرضیکہ سفرناموں کی اصل حیثیت مقامات سفر کے وجود تک باقی ہوتی ہے، بعد میں وہ صرف علمی وتاریخی ورثہ بن جاتے ہے۔


سفر کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک سفر وہ ہوتا ہے جو انسان خود کرتا ہے اور دوسرے وہ سفر جو کسی کی دعوت یا بُلانے پر ہوتا ہے۔ تمہیدی کلمات میں ہم  نے عرض کیا کہ رسول اکرم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں متعدد اسفار فرمائے۔ ان اسفار میں مرکزی حیثیت ”سفر معراج“کو حاصل ہے۔ یہ سفر سیاح لامکاں ﷺ نے خود نہیں کیا بلکہ خالق ارض وسما نے اپنے محبوب مکرم کو لامکاں کا سفر خود کروایا۔ خالق کائنات نے اس ایک سفر میں وجہِ تخلیق کائنات کو دو سفر کرائے۔ ایک وہ سفر جب نبی مکرم، فخر مجسم، شافع امم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مسجد اقصیٰ تک تشریف لے گئے جو ”سفر اسرائ“ ہے اور دوسرا سفر وہ ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمان و مکان کی حدوں سے بلند ہو کر سدرة المنتہیٰ اور عرشِ معلّٰی سے بلند ہوکر لامکاں تشریف لے گئے یہ ”سفر معراج“ ہے۔


ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب رب تعالیٰ اپنے حبیب کو لامکاں بلانا چاہتا تھا تو پھر مکہ سے بیت المقدس تک کا سفر کیوں کرایا گیا؟براہِ راست اُم ہانی کے مکان سے سواری سدرة المنتہیٰ کیوں نہیں پہنچ گئی؟اگر اس سوال پر غور وخوض کیا جائے تو اسلامی تاریخ میں ہمیں ایسے دو واقعات اور نظر آےئنگے جن میں آسمان سے زمین پر آنا اور زمین سے آسمان کی طرف جانا ثابت ہے۔ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام جنت سے زمین پر تشریف لائے اور روح اللہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام زمین سے آسمان کی طرف اُٹھائے گئے۔تاریخ اسلام میں آنا تو ایک واقعے سے ثابت ہے مگر جانا دو واقعے سے۔ان دونوں واقعات میں جانے کی جگہ مشترک ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی آسمان کی طرف اٹھائے گئے تو بیت المقدس کی سرزمین سے اور معراج کے دولہا ،سیاح لامکاں  ﷺ بھی آسمان پر بُلائے گئے تو بیت المقدس کی دھرتی سے۔ان واقعات کو پڑھنے کے بعد گزشتہ دو سالوں سے ایک سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟وہ رب جو ”کُن “فرما کر ساری دنیا کی تخلیق فرمانے کی قدرت رکھتا ہے کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ مکہ مکرمہ کی سرزمین سے ہی اس رسول کو قرب خاص میں بُلایا جاتا جو وجہِ تخلیق کائنات ہیں؟ یقینا رب قادرمطلق ہے، وہ ہر چاہے پر قادر ہے مگر اس کے کاموں میں صدہا حکمتیں ہیں، حساس روحیں ان حکمتوں کا ادراک کرلیتی ہیں اور قدرت کی طرف سے عطا کردہ اشاروں کنایوں میں غوروخوض کے ذریعے قدرت کے رازِ سربستہ کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور جو کوشش کرتا ہے وہ گوہر مراد کو پالیتا ہے۔ اسی لیے اللہ پاک نے قرآن کریم میں دو سو پچاس مقامات پر تحقیق وتفتیش اور فکروعمل کی طرف رغبت دلائی ہے۔ ذہن میں پیدا اس خلجان کا جواب مجھے گزشتہ ماہ رمضان 2014ء میں روزنامہ انقلاب ممبئی میں شائع ہونے والے قسط واری مضمون ”انبیاءسیریز“ میں ملا۔ اس میں یہ جملہ لکھا تھا جس کا مفہوم ہے ”خلا میں جانے کے لیے راستہ بیت المقدس سے ہو کر گزرتا ہے اور تمام خلائی سیارے اسی راستے سے ہو کر گزرتے ہیں۔“ اس سائنسی تحقیق کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ جنت سے دنیا میں آنے اور جانے کا راستہ ہے۔ (واللہ ا علم باالصواب) مگر افسوس اس بات کا ہے کہ غیروں  نے راستہ دریافت کیا اس لیے وہ محض ایک خلائی راستہ ہے اور اگر مسلمان قرآن کریم کی روشنی میں اس راستے کی تلاش کرتے تو ہم دنیا کوخلائی راستہ بھی بتاتے اور قرآن واحادیث کی تعلیمات بھی۔اس قسم کی اسلامی دعوت کے یقینا مثبت اور امید افزا نتائج برآمد ہوتے۔ شاید یہی حکمت رہی ہو خدائے تعالیٰ کی کہ دونوں انبیائے کرام کوایک جگہ سے آسمان پر بلایاگیا ۔


اس سفر کا دوسرا حصہ سفرِ معراج ہے۔جیسا کہ ہم نے کہا کہ سفر نامے کی حیثیت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک جس چیز کا مشاہدہ کیا ہو وہ باقی رہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو کن کن چیزوں کا مشاہدہ کروایا۔ اس ضمن میں احادیث مبارکہ ہماری رہ نمائی کررہی ہے کہ سفر معراج میں رسول گرامی وقار ﷺنے جنت کی سیر کی اور جہنم کا مشاہدہ کیا۔یعنی ایسی نادر ونایاب چیزوں کی سیر اور مشاہدہ کیا جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ ہی کسی کے وہم وگمان میں ان کاتصور آیا ہے۔اور سب سے بڑی بات مصطفی کریم ﷺ نے اپنے ماتھے کی آنکھوں سے اپنے رب کا دیدار کیا۔جنت وجہنم رب کی پیدا کردہ ہے اور رب جب تک چاہے گا ان کا وجود باقی رہے گا اور رب کی ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔معلوم ہوا مصطفی کریم ﷺ کے سفر نامے کی حیثیت زمانی یا لمحاتی نہیں ہے بلکہ اس سفر نامے کی حیثیت ہمیشہ کے لیے مسلم ہے بلکہ یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ جب تک رب کی ذات موجود ہے تب تک اس سفر نامے کی حیثیت باقی رہے گی اور رب کی ذات ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔

ایک اور نکتہ قابل غور ہے کہ سفیر خود سفر کرتے ہےں اور اپنا سفر نامہ خود لکھتے ہےں۔یہاں سفر کرایا بھی خدا نے ہے اور سفر نامہ بیان بھی خدا نے کیا ۔اور ایسی کتاب میں بیان کیا جو اس کا کلام ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔اب ہمیں چاہئے کہ اس سفر سے متعلق قرآن کریم واحادیث رسولﷺمیں جو خطوط بتائے گئے ہیں ،ان ہی پر اپنی زندگی گزاریںاور آخرت میں جنت کی سیر اور دیدارِ الٰہی سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈی کریں۔اللہ پاک علم وعمل کی توفیق عطا فرمائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!