ArticlesISLAMIC KNOWLEDGE
Aap ke Yaro ka Maslak to nahi badal raha hai Part 1
دیکھ لیں! کہیں آپ کے یاروں کا مسلک تو نہیں بدل رہا ہے؟
Part 1
تحریر:- خالد ایوب مصباحی شیرانی
khalidinfo22@gmail.com
یہ کوئی پانچواں تجربہ ہے جب -خاکم بدہن- کسی کو مسلک حق اہل سنت و جماعت کے جادہ اعتدال سے انحراف کرتے پایا ہے۔
(الف) کوئی چار سال پرانی بات ہوگی جب پھلیرا نامی مشہور ریلوے جنکشن میں ہمارے ایک ملنے والے نے ہمیں (فقیر راقم الحروف اور مولانا عبد الرحمن قادری شیرانی) خالص دعوتی اور تبیلغی کام کے لیے یہ کہتے ہوئے مدعو کیا: آپ لوگ تشریف لائیں اور یہاں کے لوگوں میں دینی کاموں کے تئیں بیداری پیدا کریں۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق ہم قبل عشا آں موصوف کے گھر پہنچ گئے، عشا بعد شہر کے کچھ معزز افراد کے ساتھ خاص نشست ہونی تھی جس میں بنیادی طور پر ذہن سازی کا کام کرنا تھا۔ لیکن اس سے پہلے نگاہوں سے ایک قیامت خیز حادثہ گزرا جس نے آج تک اپنا تاثر کم نہیں ہونے دیا اور وہ یہ کہ جب ہم اپنے میزبان کے ساتھ نماز عشا کے لیے کھڑے ہوئے تو یہ دیکھ کر حواس باختہ ہو گئے، آں موصوف رفع الیدین کر رہے تھے، پہلی رکعت میں تو یقین نہیں آیا، لیکن آگے ماننا پڑا، تقدیر اپنا کام کر چکی ہے۔ اس حادثے کو پیشگی اسی وقت محسوس کیا جا سکتا تھا جب آں موصوف کا مہمان روم صحاح ستہ سمیت دیگر کتب احادیث سے لبریز تھا لیکن شاید ہو سکتا ہے اس وقت اس طرف بایں وجہ ذہن نہ گیا ہو کہ ہم عام طور پر خوش فہمیوں کے جنت کے باشندے ہوتے ہیں، آج بھی ہمیں یہ اعتراف کرتے ہوئے تامل ہوتا ہے کہ کتاب و سنت کے مطالعہ سے ہمارے عوام تقریباً یک لخت محروم ہیں اور ٹھیک یہی فرقہ اہل حدیث کے فروغ کا بنیادی سبب ہے۔
یہ صاحب وہ ہیں جن کو ہم نے اپنے سن شعور سے راجستھان کے ایک معروف خطیب کے دائیں بائیں اور سفر و حضر میں ان کی رفاقتوں میں دیکھا تھا، جب ہم نے اس حادثہ جاں کاہ کی خطیب موصوف کو اطلاع دی تو ایک دھچکا اور لگا کہ حضرت والا کو اپنے اس رفیق جانی کی اس تبدیلی مسلک کا بالکل علم نہ تھا۔
(ب) ایک خطیب سید زادے کے سفری رفاقتوں کے ایک امین کے ساتھ بھی ایسا ہی حادثہ پیش آیا۔ ایک بار سید صاحب موصوف کے ساتھ ان کے اس خادم خاص کا جان لیوا ایکسیڈنٹ بھی ہوا جس سے اللہ اللہ کر کے جاں بری ہوئی لیکن آج اس خادم خاص کا مسلک سید صاحب سے بالکل جدا ہے اور اس حد تک کہ وہ عام طور پر دیوبندی مکتب فکر کے لوگوں کی طرح سنی ائمہ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا بھی روادار نہیں۔ اس کے مطابق اس کی اس تبدیلی کے پیچھے غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ بیانات کا رول ہے، ایسے بیانات جن میں ایک عامی کو اس کی عقل کے مطابق شرک کی بو آنے لگتی ہے۔
(ج) اجمیر شریف سے متعلق ایک عیسائی نو جوان طالب علم نے اسلام قبول کیا، اتفاق سے اس کے حلقہ احباب میں اہل سنت کے خاندانی جاہل نو جوان تھے، وہ اپنے ان دوستوں کی وساطت سے پورے علمی شوق کے ساتھ سنی علما و ائمہ کی بارگاہوں میں حاضری دیا کرتا اور اس کے مطابق وہ اپنی عمر کے اعتبار سے بہت سے علما و ائمہ سے رابطے میں رہا لیکن اس نے صحاح ستہ سے استفادہ، احادیث سے استدلال اور قرآن و سنت سے اکتساب فیض کے وہ طریقے نہیں دیکھے، جو اسے اب اہل حدیث کے یہاں دست یاب ہیں بلکہ اس نے نوٹ کیا: اہل سنت کی ابتدا بزرگوں کے فرمودات، کھانے پینے کی سنتوں کے بیان اور چند دل چسپ واقعات سے ہوتی ہے اور انتہا شفاعت و توسل پر ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اس نے اپنی عقل سے یہ بھی سمجھا: اہل سنت کے یہاں مشکل کشائی، غریب نوازی اور دست گیری کے اتنے تذکرے ہوتے ہیں، جتنے توحید و رسالت کے حقوق کے نہیں ہوتے، اس لیے اس کے ضمیر نے فیصلہ کیا: رفع الیدین اور آمین بالجہر کے بنا نماز نا مکمل ہے اور طرز بالا کے مطابق گزرتی زندگی غیر اسلامی زندگی اور وہ آج اپنی اس تازہ روش پر اتنا ہی خوش ہے، جتنا علمائے اہل سنت سے ناراض ہے۔
یہ وہ باتیں ہیں جو اس نو جوان نے بذات خود وہاٹس ایپ کے ذریعے فقیر راقم الحروف سے شیئر کیں اور وہ اب اس موضوع پر زیادہ گفتگو کرنے کے لیے اس لیے تیار نہیں کہ وہ اپنے الفاظ میں علمائے کرام کی حیثیت جانتا ہے اور عام علما و ائمہ کا معیار علم بھی خوب سمجھتا ہے۔
(د) شاہ پورہ، ضلع: بھیلواڑہ، راجستھان کے اہل سنت و جماعت کے فروغ کے لیے قائم کردہ دار العلوم میں ایک نیپالی کوتاہ خرد عالم دین شیخ الحدیث ہوا کرتا تھا جو آج نیپال میں جماعت اہل حدیث کا سرغنہ ہے اور یہ جماعت اسے نمونہ بنائے ڈھوتی رہتی ہے۔
(ھ) کچھ عرصہ قبل یہ خبر پا کر دماغ میں ایک کرنٹ سا لگا کہ ہمارے ایک رفیق درس مصباحی عالم دین رافضیت کا حصہ بن گئے۔
یہ پانچوں حادثے وہ ہیں جنھوں نے اپنے اپنے وقت پر دل و دماغ کو غیر معمولی طور پر متاثر کیا اور جن کا نقش ابھی تک محو نہیں ہو پایا۔ اللہ نہ کرے، کبھی نہ کرے، ممکن ہے آپ کی زندگی میں بھی ایسے حادثے رو نما ہوئے ہوں۔ کیا ہم یہ تجزیہ کرنے کے لیے تیار ہیں، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور کیا ہم دل بڑا کر کے یہ تسلیم کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں کہ اس طرح کے ایمان سوز واقعات میں میں کسی حد تک کہیں ہم بھی تو مجرم نہیں؟ یا کم سے کم کیا ہم اس بات کے لیے فکر مند ہیں کہ آئندہ ایسے حادثے نہ ہوں؟
اگر غیرت ایمانی کا جواب ہاں ہے تو نوٹ کیجیے: