مالیگاؤں جنگ آزادی کے اولین شہدا

حافظ محمد غفران اشرفی (جنرل سکریٹری سنّی جمعیۃ العوام)

 

سمرنا(ترکی کا شہر)کے مظلوموں کی امداد کے لیے اور ہندوستان کو انگریزوں کے ناپاک ہاتھوں سے آزادی دلانے کی خاطر تحریک خلافت کی ایک ذیلی شاخ سیّد سلیمان شاہ روزن شاہ قادری کی سرپرستی میں امدادالاسلام(بیت المال)کے نام سے قائم کی گئی۔ جس میں حضرت مولانا محمد اسحق نقشبندی علیہ الرحمہ کا صدر کی حیثیت سے تقرر ہوا۔ کمیٹی کے قیام کا مقصد تھا کہ مظلوموں کی امداد کی جاے اور مجاہدین آزادی کی اِس فنڈ سے بھرپور اعانت کی جاے۔ کمیٹی نے یہ طے کیا کہ ہر آڑھت (بُنکر) جو ساڑی بُنتا ہے، وہ فی ساڑی ایک پھدِیہ امدادالاسلام بیت المال کو دے گا۔ اکثر آڑھتیوں  نے اِس نیک کام کا خیر مقدم کیا۔ مگر جو انگریز کے پٹھو آزادی کے مخالف آڑھت (بُنکر) تھے اُن لوگوں  نے امدادالاسلام کو پھدیہ دینے سے انکار کر دیا۔ مجاہدین آزادی تنظیم کے ذمہ داران (جن میں ہندو مسلم دونوں تھے) جب وصولی کے لیے اُن مخالفین کے پاس جاتے تو وہ حجّت و تکرار کر کے معاملہ گول کر جاتے، ناچار ذمہ داران اُن کے ہاں سے خالی ہاتھ لوٹتے۔ پھر ذمہ داران حالات کو دیکھتے ہوے ہاتھوں میں لاٹھی کاٹھی لے کر وصولی کے لیے نکلنے لگے۔ جو انگریزوں کے ہم درد آزادی کے مخالف لوگ تھے، اُن لوگوں کو کمیٹی والوں کے خلاف انگریز حکومت کو شکایت کا موقع ملا، اُنہوں  نے انگریز حکومت کے پاس شکایت روانہ کی کہ خلافت والے جو حکومت کے غدار ہیں جبرا لاٹھی کاٹھی کے زور پر ہم سے وصولی کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے فورا ایکشن لیا گیا۔ 30 مارچ 1921 کو حکم نامہ آیا کہ میونسپلٹی کی حدود میں کوئی بھی شخص ہتھیار، چاقو اور لاٹھی وغیرہ لے کر نہیں چلے گا، حکم عدولی کی صورت میں سخت سزا دی جاے گی۔ ذمہ داران نے وصولی کرنے والے والینٹیرس کو سمجھایا مگر وہ نہ مانے، یہ سلسلہ جاری رہا۔ 20 اپریل 1921 کو عرب چوک نیا پورہ میں آزادی کی مناسبت سے تحریک خلافت کا جلسہ حضرت مولانا محمد اسحق نقشبندی کی صدارت میں تھا، حضرت مولانا جان محمد صاحب مولانا عبدالعزیز عزیز صاحبان مقرر کی حیثیت سے حاضر تھے، وہاں بھی تحریک کے والینٹیرس حکومتی حکم نامہ جاری ہونے کے بعد بھی جذبہ آزادی سے سرشار لاٹھی لے کر پہنچے۔ اِدھر انگریز کے ہم نوا پٹھووں  نے پولیس کو اِس بات کی اطلاع کی تو سب انسپکٹر بھاسکر (بھاسکٹ،بھسکٹ) راو بھاری تعداد میں فورس لے کر جلسہ گاہ پہنچ گیا، اور چاروں طرف سے جلسہ گاہ کا گھیراو کرکے جن والینٹیرس کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں ایسے چوبیس افراد کو گرفتار کیا۔

 

بارہ افراد کو پانچ قندیل مراٹھی اسکول کے احاطہ میں بھرنے والی کچہری میں پیش کیا۔چھ افراد کو ثبوت نا ہونے پر رہا کیا گیا،بقیہ چھ لوگوں پر حکومت کی خلاف ورزی کرنے کا الزام تھا۔25 اپریل کو مقدمہ جج کے سامنے پیش ہوا،جج نے بھاسکر راو سے پوچھا کیا کرنا چاہئے؟بھاسکر راو جو پہلے ہی خلافت والوں پر بھڑکا ہوا تھا،اُس نے کہا صاحب ’’خوب ٹھوکا‘‘۔اِن الفاظ کو سن کر حاضرین میں غصہ کی لہر دوڑ گئی۔جج نے چھ لوگوں پر ساٹھ ساٹھ روپئے جو اِس دور کے ساٹھ ہزار روپئے سے بھی زیادہ تھے،بھاری بھرکم جرمانہ عائد کیا۔جرمانہ ادا نا کرنے کی صورت میں ایک ماہ کی قید بامشقت کا اعلان کیا۔لوگوں نے جرمانہ معاف کرنے کی درخواست کی،کیوں کہ جو گرفتار ہوے تھے سب غریب اور مزدور تھے،جج کی طرف سے طنزیہ جواب ملا سمرنا فنڈ سے جرمانہ دیا جاے۔یہ سنتے ہی لوگ حواس باختہ ہوگئے۔مجاہدین نے بھاسکر راو سے کہا ہمیں بھی گرفتا کرو،تو اُس نے کہا،تم بھی کوئی جرم کرکے آو تو تمہیں بھی گرفتار کروں گا۔اِس جملہ نے چنگاری کو آگ بنانے کا کام کیا،کورٹ سے باہر نکلتے ہی لوگوں نے بھاسکر راو پر حملہ کردیا،وہ جان بچا کر بھاگا،مگر پھر اُس نے اپنے ہمراہ پولیس والوں کو گولی فائر کرنے کا حکم دیا،نتیجے میں عبدالقادر مجاور میاں،محمد معصوم،محمد بشیر تین افراد شہید ہوے جو کہ مالیگاوں جنگ آزادی کے اوّلین شہدا ہیں۔بد قسمتی یہ کہ مالیگاوں پر تاریخی شواہد لکھنے والوں نے اِن شہدا کا سرسری تذکرہ کیا اور گزر گئے۔حالانکہ یہ آزادی کی جنگ کے اوّلین شہدا تھے اِن کا ذکر مفصل طور پر نا سہی مختصر ہی ہونا چاہئے تھا۔پھر بھی مصنفین اور تاریخ داں حضرات کا شکریہ کہ کم از کم اُن لوگوں نے نام تو درج کیا۔جس کی وجہ سے ہمیں یہ معلومات حاصل ہوئی کہ مالیگاوں جنگِ آزادی کے اوّلین شہدا کون ہیں۔ مالیگاوں جنگ آزادی کے ہر مجاہد اور شہید کو ہمارا سلام۔

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!