مولانا ابوالکلام آزاد کی نثر
مولانا ابوالکلام آزاد کی اہم تصنیف ’’غبارخاطر‘‘ ہے۔ غبار خاطر میں جو بھی خطوط شامل ہیں وہ اس وقت لکھے گئے جب وہ قلعہ احمد نگر میں اسیر تھے۔ یہ خطوط انھوں نے اپنے دوست نواب صدریار جنگ حبیب الرحمن شیروانی رئیس بھیکم پور (علی گڑھ) کو 1942ء اور 1943ء کے درمیان لکھے تھے۔ کہنے کو تو یہ خطوط کا مجموعہ ہے لیکن اس میں ہمیں اپنے آپ سے مخاطب ہونے والی خود کلامی کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ ان خطوط میں ایک ہی القاب استعمال ہوا ہے اور وہ ہے ’’صدیق مکرم‘‘۔ خطوط نگاری کو اردو ادب میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ خطوط میں لکھنے والے کی روح بالکل عریاں ہو جاتی ہے۔
آزاد نواب صاحب کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ ان کا دوستانہ لمبے عرصے پر محیط ہے۔ مولانا بیک وقت میں مصنف،مقرر،مفکر اور فلسفی کے علاوہ ادیب،مدبر اور ساتھ ہی ساتھ صحافت نویسی اور تحریک آزادی کے علم بردار بھی ہیں۔
15جون 1945ء کو مولانا تین برس کے بعد رہا ہوئے تو ان کی تندرستی جواب دے چکی تھی۔ رہائی کے فوراً بعد ہی ان کو شملہ کانفرنس میں شریک ہونا پڑا۔ مولانا نے اس شرکت کو بھی قید سے تشبیہ دی ہے۔ وہ اب قلعہ احمد نگر کی اسیری کی جگہ وائسرائے شملہ کے مہمان تھے۔ ان کے معمول میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔ وہی صبح چار بجے کا وقت اور وہی ان کی مصروفیت ہوتی تھی۔ کچھ دن کے لیے گلمرگ جاتے ہیں۔ گلمرگ سے سری نگر آنے کے بعد وہاں ایک ہاؤس بوٹ میں مقیم ہوتے ہیں اور پھر وہیں سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
1942ء میں مولانا گرفتاری سے قبل لاہور گئے تھے۔ وہاں ان کو انفلوئنزا کی شکایت ہو گئی۔ اسی حالت میں کلکتہ آئے اور تین دن ٹھہر کر 12 اگست کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی صدارت کرنے کے لیے ممبئی روانہ ہو گئے۔
مولانا نے اپنے اسلوب نگارش میں مختلف النوع انداز کو رواج دیا ہے۔ چونکہ ہر موضوع کو ایک خاص طرح کا اسلوب درکار ہوتا ہے اور اس اسلوب میں ہی اس کا رنگ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ دینی اور تاریخی مباحث دونوں کے لیے بھی الگ الگ اسلوب موزوں ہوتا ہے۔ ہر شخص کا اپنا ایک الگ اسلوب ہوتا ہے اور بعض مصنف تو اپنے اسلوب بیان کی وجہ سے ہی پہچان لیے جاتے ہیں لیکن مولانا کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے اپنی مختلف تحریروں کے لیے مختلف اسلوب کا استعمال کیا ہے۔ دینی افکار کے لیے انہوں نے علیحدہ اسلوب کی تشکیل کی ہے۔
مولانا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے نثر میں شاعری کی ہے لیکن انھوں نے اپنی نثر میں شاعری کے عناصر کو مخلوط و مربوط کر کے اس کو اس طرح شیرو شکر کر دیا ہے کہ پڑھنے والا اس میں کھو جاتا ہے۔ بعض لوگ جب نثر میں اشعار کی استعمال کرتے ہیں تو اس طرح کہ کوئی اہم شعر یاد آگیا تو اس کو کسی خاص موقع و محل کے اعتبار سے درج کر دیتے ہیں لیکن مولانا جب اشعار درج کرتے ہیں تو کسی مناسبت سے نہیں بلکہ وہ مضمون کا ایک اہم جزو بن جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسی خاص موقع کے لیے شاعر نے شعر کہا ہے۔ اس طرح کی طرز تحریر پر وہی قدرت رکھ سکتا ہے جس کے حافظے میں مطلب بھی محفوظ ہو اور شاعر انہ فکر اس کی سوچ کی اہم جزو بن گئی ہو۔ اور موقع و محل کے اعتبار سے کس طرح کے اشعار موضوع بحث بن سکتے ہیں ان کا انتخاب وہ بخوبی کر سکے۔ انتخاب کا معیار بھی اعلیٰ قسم کا ہو جس کو ذہن قبول کر سکے۔
ان خطوط سے ہم مولانا کی علمیت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کہنے کو تو یہ خطوط کا مجموعہ ہے لیکن ان کی حیثیت بالکل نجی ہے۔ خطوط نگاری کے ذریعے زندگی کے پیچیدہ اور ہر قسم کے واقعات رقم کیے جا سکتے ہیں اور ان کے ذریعے ہم اپنی علمیت کا بھی گونا گوں اظہار کر سکتے ہیں۔ خطوط میں خطوط نگار کی شخصیت بھی واضح ہو جاتی ہے۔
مولانا آزاد کو قدرت نے ایک خاص قسم کا دل و دماغ عطا کیا تھا۔ ان کے حافظے میں عربی، فارسی اور اردو کے ہزاروں اشعار محفوظ تھے اور جہاں ان کو ضرورت محسوس ہوتی وہاں ان کا استعمال کرتے۔ وہ تاریکی میں بھی روشنی کی کرن ڈھونڈ لیتے تھے۔ مولانا آزاد کا دل و دماغ ان کی دور رس نظریں اور ان کے حافظے کی قوت ان کی شخصیت کو نکھارنے میں معاون ثابت ہوئیں۔ مولانا ابوالکلام کی مادری زبان عربی تھی۔ وہ اس پر گہری دسترس رکھتے تھے۔ ان کی پرورش ایسے خاندان میں ہوئی تھی جو علم کے میدان میں اوروں سے آگے تھا۔ انھوں نے بارہ تیرہ برس کی عمر میں فارسی کی تعلیم حاصل کر لی تھی اور اردو زبان کو انھوں نے اپنی محنت سے حاصل کیا تھا۔ علم کے میدان میں ان کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ اساتذہ ان کی تیز رفتاری سے جھنجھلا جاتے تھے:
’’چوبیس برس کی عمر میں جب لوگ عشرت وشباب کی سرمستیوں کا سفر شروع کرتے ہیں میں اپنی دشتا نوردیاں ختم کر کے تلوئوں کے کانٹے چن رہا تھا۔‘‘
مولانا نے اپنی تحریر کا حسن بڑھانے کے لیے جا بجا اشعار کا استعمال کیا ہے۔ عربی،فارسی اور اردو شعراء کے اشعار بطور حوالہ پیش کیے ہیں۔مثلاًوہ ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’کوئی پھول یاقوت کا کٹورہ تھا۔ کوئی نیلم کی پیالی تھی کسی پھول پر گنگا جمنی کی قلم کاری کی گئی تھی۔ کسی پر چھینٹ کی طرح رنگ برنگ کی چھپائی ہو رہی تھی۔ بعض پھولوں پر رنگ کی بوندیں اس طرح پڑ گئی تھی کہ خیال ہوتا تھا، صناع قدرت کے مو قلم میں رنگ بھر گیا ہوگا۔ صاف کرنے کے لیے چھٹکنا پڑا اور اس کی چھینٹیں قبائے گل کے دامن پر پڑ گئیں۔‘‘
تکلف سے بری ہے حسن ذاتی
قبائے گل میں گل بوٹے کہاں ہیں
مولانا نے یہاں آتش کا مذکورہ بالا شعر پیش کیا جو ادائے مطلب کو واضح کر رہا ہے۔ ایک اور خوبی مذکورہ عبارت کی قابل داد ہے کہ انھوں نے استعارہ در استعارہ اور تشبیہ در تشبیہ کے استعمال سے عبارت کو معنی خیز بنا دیا۔
پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ نے اپنی کتاب ’’تنقید اور اسلوبیاتی تنقید‘‘ میں اپنے مضمون ’’ابوالکلام کی نثر‘‘ میں سجاد انصاری کی رائے کو یوں رقم کیا ہے:
’’میرا عقیدہ ہے کہ اگر قرآن نازل نہ ہو چکا ہوتا تو مولانا ابوالکلام کی نثر اس کے لیے منتخب کی جاتی۔‘‘
عبدالماجد دریاآبادی کے بقول مولانا آزاد ’’تحریر و انشاء میں اپنے اسلوب کے موجد بھی تھے اور خاتم بھی۔‘‘
ہیئت کے اعتبار سے تو ہم ان کو خطوط کہہ سکتے ہیں لیکن ان خطوط میں جس طرح کی بے تکلفی کا مظاہرہ ہوا ہے وہ ان کو انشائیے کی حدود میں داخل کر دیتا ہے۔ کیونکہ انشائیہ میں بے تکلّفانہ انداز نہیں ہوتا بلکہ بے تکلفی کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ان خطوط میں جو سلیقہ برتا گیا ہے وہ مولانا کا اہم وصف ہے۔ قلعہ احمد نگر کی اسیری کے تلخ لمحات کو وہ بھلا دینا چاہتے تھے۔ ان خطوط کے ذریعے آزاد نے اپنے دل کے غبار کو صفحات پر اکیرا ہے۔
مولانا آزاد کی تعلیم ایک علمی ماحول میں ہوئی تھی۔ آزاد کی تعلیم موروثی عقائد کے خلاف نہ تھی۔ ان کو علم و ادب میں نئے نئے میدانوں کو سر کرنا پڑا۔ نسل، خاندان اور رسم ورواج جو بھی تاثر ڈالتے ہیں وہ سب ان کی شخصیت پر واضح تھے۔ ان کے دل میں جو خلش ابھری تھی وہ یہ تھی کہ اعتقاد کی بنیاد علم و نظر پر ہونی چاہیے نہ کہ تقلید و توارث پر۔کیونکہ عقائد روایت کے پرستار ہوتے ہیں اور علم کے ذریعے جو تجربات حاصل ہوتے ہیں ان میں گہرائی اور وسعت زیادہ ہوتی ہے۔ مولانا کے اس خیال سے ہم انحراف نہیں کر سکتے۔ وہ زمانہ کے بنائے ہوئے اصولوں پر قانع تھے۔ ان کے سوچنے کا طریقہ روش عام سے ہٹا ہوا تھا۔ محمد اجمل خاں نے غبار خاطر کے دیباچہ میں لکھا ہے:
’’جس زمانہ میں الہلال نکلا کرتا تھا تواس میں کبھی کبھی وہ خالص ادبی قسم کی چیزیں بھی لکھا کرتے تھے۔ ان تحریروں میں انہوں نے ایک ایسا مجتہدانہ اسلوب اختیار کیا تھا جس کی کوئی دوسری مثال لوگوں کے سامنے موجود نہ تھی۔ اس اسلوب کے لیے اگر کوئی تعبیر اختیار کی جاسکتی ہے تو وہ صرف شعر منٹو کی ہے یعنی وہ نثر میں شاعری کیا کرتے تھے۔‘‘
مولانا آزاد نے جو طرز ’غبار خاطر‘ میں اختیار کیا ہے اس میں نغمگی بھی ہے، سادگی بھی ہے اور پیچیدگی بھی۔ اس میں انھوں نے فطرت کے جن مظاہر کو قلم بند کیا ہے اس سے ان کے اسلوب میں حرکت پیدا ہوئی ہے۔ انھوں نے فطرت کا داخلی اور خارجی مشاہدہ کیا تھا۔ آزاد تصویر کشی میں بھی اپنا جواب نہیں رکھتے۔ لفظوں کے ذریعے بنائی ہوئی تصویر برش سے بنائی ہوئی تصویر کے مقابلے زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور ان سے ایک طرح کی تصویر یت جلوہ گر ہوتی ہے۔
افعال کے استعمال سے اسلوب میں ایک طرح کا حسن پیدا ہوتا ہے اور زبان کوئی بھی ہو افعال کااستعمال ہر زبان میں نظر آتا ہے۔ مولانا نے بھی افعال کا استعمال بخوبی کیا ہے۔ان کو زبان و بیان پر قدرت حاصل تھی۔ انھوں نے مناظر فطرت اور مناظر قدرت کی بھر پور عکاسی افعال کے گونا گوں استعمال کے ذریعے کی ہے:
’’جس قید خانے میں صبح ہر روز مسکراتی ہو،جہاں شام ہر روز پردۂ شب میں چھپ جاتی ہو، جس کی راتیں کبھی ستاروں کی قندیلوں سے جگمگانے لگتی ہوں، کبھی چاندنی کی حسن افروز یو ں سے جہاں تاب رہتی ہوں، جہاں دوپہر ہر روز چمکے، شفق ہر روز نکھرے، پرند ہر صبح و شام چہکیں، اسے قید خانہ ہونے پر بھی عیش و مسرت کے سامانوں سے خالی کیوں سمجھ لیا جائے۔‘‘
احمد نگر کی اسیری کے دوران مولانا اپنے گرد و پیش سے بے خبر نہیں رہے ہیں۔ انھوں نے چھوٹے چھوٹے واقعات کو بھی اس انداز سے قلم بند کیا ہے کہ ان کو پڑھتے وقت کسی قسم کی بیزاری کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ ان کے خطوط کا مخاطب واضح نہیں ہے یعنی خط کس کو لکھا گیا ہے یہ واضح نہیں ہوا ہے۔
مولانا آزاد کے اسلوب کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ انھوں نے کہیں کہیں مزاح سے بھی کام لیا ہے۔ قلع کے اندر جو چھوٹے چھوٹے واقعات پیش آئے ان میں دلچسپی دکھائی اور ان کو اس طرح سے پیش کیا کہ قاری کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہو جاتی ہے۔جیسے:
’’باہر نکلا تو سامنے بر آمدے میں ایک عجیب سا منظر دکھائی دیا۔ چیتہ خاںدیوار سے ٹیک لگائے کھڑا ہے سامنے باورچی زمین پر لوٹ رہا ہے۔ تمام وارڈر حلقہ باندھے کھڑے ہیں گویا اس خرابے کی ساری آبادی وہیں سمٹ آئی ہے۔‘‘
’غبارخاطر‘ میں مولانا نے کہیں کہیں محاورے کا بھی فن کارانہ استعمال کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے اسلوب میں ایک طرح کا زور پیدا ہو گیا ہے۔ انھوں نے اپنی عبارت میں کہیں کہیں عربی، فارسی الفاظ کا بخوبی استعمال کیا ہے جو ان کے اسلوب کی اہم خصوصیت ہے:
’’چوبیس برس کی عمر میں جب کہ لوگ عشرت شباب کی سرمستیوں کا سفر شروع کرتے ہیں میں اپنی دشت نوردیاں ختم کر کے تلوئوں کے کانٹے چن رہا تھا۔ گویا اس معاملے میں بھی اپنی چال زمانے سے الٹی ہی رہی۔ لوگ زندگی کے جس مرحلے میں کمر باندھتے ہیں میں کھول رہا تھا۔‘‘
مذکورہ بالا خط میں آزاد نے محاورے کا فن کارانہ استعمال کیا ہے۔ ’کمر کھولنا‘ محاورہ ہے جس کا مطلب ہے کسی کام سے فارغ ہونا، ہتھیار کھولنا، کوشش سے باز آنا وغیرہ۔
مولانا آزاد کا ایک مقصد حیات تھا۔ وہ زندگی کو کسی مقصد کے تحت گزارنے پر قانع تھے۔ ’غبار خاطر‘ میں جو قصے بیان ہوئے ہیں ان میں مکتوب نسیم باغ، حکایت زاغ و بلبل، چڑیا چڑے کی کہانی، داستان بے ستون کوہ کن وغیرہ اہم ہیں۔ ان کے اسلوب کی اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھو ں نے ’غبار خاطر‘ میں مختلف النوع صنعتوں سے بھی کام لیا ہے۔ کہیں تشبیہہ کہیں استعارہ اور کہیں کہیں تلمیحات کا بھی استعمال ہوا ہے۔ انھوں نے کچھ کم ستر برس کی عمر پائی اور زندگی کے ہر لمحے کو زندہ دلی سے جیا۔ چاہے وہ قلعہ احمد نگر کی اسیری کا دور ہو یا آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی صدارت کے دوران ان کی گرفتاری ہو یا ان کی سیاسی زندگی کے پیچ و خم، کہیں بھی وہ زندگی سے اکتاہٹ یا بیزاری کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ وہ زندگی کے ہر لمحے کو زندہ کر دینے میں یقین رکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں پوری طرح اثر انداز ہو کر قاری کے دل پر گہرا تاثر چھوڑ تی ہیں۔ یقینا انھوں نے زندگی کو نئے معنی پہنائے ہیں۔
سر سید اور حالی نے سادہ اور آسان نثر لکھنے پر زور دیا تھا۔ ان کے زمانے سے جو روایت چلی آ رہی تھی، آزاد کا اسلوب اس سے ہٹ کر نظر آتا ہے۔ ان کا اسلوب عربی اور فارسی الفا ظ کا متمنی ہے۔ یہ بھی ان کے اسلوب کی اہم خصوصیت ہے۔ ان کے ذریعے اردو نثر ایک نئے دور میں داخل ہوئی اور حسرت موہانی کو ان کی نثر کو دیکھ کر کہنا پڑا کہ ؎
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں وہ مزا نہ رہا
مسرت (نئی دہلی)
Research Scholor, Dept. of Urdu, Delhi University