ملک الشعراء محمد نصرت نصرتیؔ

مصنف تذکرۂ شعراے دکن نے نصرتی کا نام محمد نصرت لکھا ہے اور چمنستان شعرا کی پیروی میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ حاکم کرناٹک کے قرابت داروں میں سے تھا۔بعض نے نصرتی کو سپاہی زادہ کہا ہے ۔مگرباباے اُردو مولوی عبدالحق اپنی کتاب ’’نُصرتی‘‘میں نصرتی کو شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیرکے عہد کا معززترین جاگیر دار بتایا ہے ،اس خاندان کے پاس اب تک شہنشاہ کی جانب سے دیئے گیا سندِ انعام موجود ہیں جس پر مغلیہ عہد کی مہریں ثبت ہیں،اب بھی نصرتی کی آل واولاد بیجاپور میں رہتے ہیں۔نگینہ باغ میں نصرتی کی قبر موجود ہے جو اب گورنمنٹ ہائی اسکول کا احاطہ ہے ۔نصرتی نے تین بادشاہوں یعنی محمد عادل شاہ، علی عادل شاہ ثانی اور سکندر عادل شاہ کا زمانہ دیکھا ۔شاہ اورنگ زیب نے دکن فتح کیا تو نصرتی کو کلام کی عمدگی کے سبب ’’ملک الشعراے ہند ‘‘کا خطاب عطاکیا۔

دور

محمد عادل شاہ، علی عادل شاہ ثانی، سکندر عادل شاہ۔
نصرتی کی کتابیں
(1) گلشن عشق 1068ھ
(2) علی نامہ 1076ھ
(3) تاریخ اسکندری1083ھ
(4) قصائد وغزلیات ورباعیات۔

(1) گلشن عشق 1068ھ

یہ نصرتی کی سب سے پہلی تصنیف ہے ۔یہ ایک عشقیہ مثنوی ہے جس میں کنور منوہر اور مدمالتی کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ نصرتی نے اس مثنوی میں اُردو اور فارسی کی بیشتر مثنویوں کی طرز پر دیوی ، دیوتاؤںاورپریوں جیسے عناصر کا ذکر کیا ہے۔ واقعات اور کرداروں کی مناسبت سے ابواب کو اشعار کے ذریعے تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ مثنوی پیشتر لکھی گئی مثنویوں سے ماخوذ تھی لیکن نصرتی نے اپنے تجربات اور تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعہ اسے برتر اور اعلیٰ بنادیا۔ اس مثنوی میں بھی دوسری قدیم مثنویوں کی طرز پر مختلف مہمات اور کسی قیمتی چیز کی تلاش بسیار میں مصیبتوں اور آزمائشوں سے نبرد آزما ہونے کے عمل کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کہانی کے واقعات میں انسانی خواہشات ، سماجی اقدار ، ہمدردی ، حسد اور قدیم طرز زندگی کے رموز کو پیش کیا گیا ہے۔ نصرتی نے اس مثنوی میں حمدیہ اشعار ، مناجات ، نعت ، حضرت خواجہ بندہ نواز کی تعریف ، بادشاہ کی مداح (علی عادل شاہ) ، عقل کی تعریف ، عشق کی مدح ، فقیر کا بیان ، باغ کا سماں ، صبح ، چاندنی کی کیفیت ، فراق کی کیفیت ،کشتی کی روانی ، سردی کا بیان اور باغ کی سیر کی منظرکشی میں وسعت معلومات اور زبان پر قدرت کا عملی ثبوت پیش کیا ہے۔

خلاصہ

اس مثنوی کا آغاز اس طرح کیا گیا ہے کہ’’کنگ گیر‘‘کے راجا’’بکرم‘‘ کو کوئی نرینہ اولادنہ تھی جس کی بناء پر وہ غمزدہ اور افسردہ رہا کرتا تھا۔ اتفاق سے ایک دن راجا کی ملاقات ایک درویش سے ہوتی ہے۔ وہ راجا کو ایک پھل دے کر کہتا ہے کہ اسے اولاد سے سرفراز کیا جائے گا مگر ۱۴؍سال تک اس کی حفاظت کرناہوگی۔ اس عمر کو پہنچنے کے بعدراجابکرم کالڑکا’’کنور منوہر‘‘ بالاخانے پر سو رہا ہوتا ہے تو پریاں اسے اڑا کر لے جاتی ہیں۔ اس مثنوی میں خصوصیت کے ساتھ کنور منوہر اور مدمالتی کے عشقیہ قصے کو نظم کیا گیا ہے۔مدمالتی ’’مہارس نگر‘‘کے راجا ’’دھرم راج‘‘کی بیٹی ہے۔ کنورمنوہر اور مدمالتی ایک دوسرے پر عاشق ہوجاتے ہیں، لیکن دونوں کوسوں دور رہنے کے سبب ایک دوسرے سے بالکل ناآشنا رہتے ہیں۔ کنور منوہر اس کے فراق میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے کی وجہ سے اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے۔ آخرکار دونوں کی ملاقات ہوتی ہے۔ کنورمنوہر اپنی محبوبہ مدمالتی کو لے کر اپنے وطن کا رخ کرتا ہے۔

گلشن عشق کا سال تصنیف خود نصرتی کے مصرع کی روشنی میں 1068ھ مطابق 1657ء ہے۔ قصہ مذکور کی مکمل تفصیل بابائے اُردو مولوی عبدالحق کی تصنیف ’’نصرتی ‘‘کے ص نمبر۱۹؍پرموجود ہیں جو انجمن ترقی اُردو ہند کی جانب سے 1988ء میں شائع ہوئی ہے۔

مثنوی گلشن عشق کے کردار

بکرم (کنک گیر کا راجہ )،کنور منوہر ( راجہ بکرم کا بیٹا)،دھرم راج (مہارس نگر کا راجہ)، مدمالتی (دھرم راج کی بیٹی)،چنپاوتی (مدمالتی کی سہیلی)، سورمل (چنپاوتی کا باپ ،ایک ملک کا راجا)، چندر سین (چوتھے راجہ کا بیٹا)

(2)علی نامہ 1076ھ

محمد عادل شاہ( 1067ھ / 1656ء) کے انتقال کے بعداس کا18؍سالہ لڑکا علی عادل شاہ ثانی بادشاہ بنا۔امرا میں حسد ورقابت کی آگ بھڑک رہی تھی ،سرحدی صوبوں پر بغاوتیں نمودار ہورہی تھیں،اس پر مغلیہ شہنشاہ اورنگ زیب کی چڑھائی اور بعض عادل شاہی امرا کی غداری نے طرح طرح کی پیچیدگیاں اور پریشانیاں پیدا کردی تھیں،تاہم بیجاپور سب سے برابرمقابلہ کرتا رہا۔شاہ اورنگ زیب کو دکن کی مہم چھوڑ کر دہلی جانا پڑا تو بیجا پور کو دم لینے کا موقع ملا ،علی عادل شاہ نے بڑی ہمت اور ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے اپنی حکومت کو سنبھال لیا۔وہ خود میدان جنگ میں آیا اور شیواجی کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکا،کرنول کے حبشی سرداروں کو نیچا دکھایا،راجہ بدنور کی سرکوبی کی اور مغلوں کا فوجی سیلاب جو جئے سنگھ کی سرکردگی میں بڑھتا چلا آرہا تھااسے پیچھے ہٹایا۔اس مثنوی میں انھیں مہمات اور کارناموں کا ذکر ہے ۔ساتھ ہی اس مثنوی میں کئی قصائد ہیں ،کبھی جشن کی تقریب میں، کبھی فتح کی مبارک باد پر اور کبھی مظاہر قدرت کے بیان میں موقع موقع سے قصیدہ موجود ہے ۔

نصرتی کا بڑا کمال یہ ہے کہ اس نے تاریخی واقعات کو صحیح ترتیب ،بڑی احتیاط اور صحت کے ساتھ بیان کیا ہے ۔حسن بیان اور زورِ کلام کے تمام اسلوب کے ساتھ تاریخی صحت برقرار ہے۔تاریخ سے واقعات کو ملا لیجیے کہیں فرق نہ ہوگابلکہ بعض باتیں اس میں ایسی ہیں جو بطور تاریخی شواہد کے محققین نے استعمال کیے ہیں۔اُردو زبان رزمیہ نظموں سے خالی ہے باوجود اس کہ یہ رزمیہ مثنوی ہر لحاظ سے اُردو زبان میں بے نظیر ہے۔اس مثنوی میں بھی نصرتی نے ہر باب کا عنوان ایک شعر درج کیا ہے ۔عنوان کے تمام اشعار ایک بحر اور قافیے میں ہیں،ان تمام اشعار کو یکجا کر لیا جائے تو لامیہ قصیدہ بن جائے گا جس میں مثنوی کا سارا مضمون آجائے گا۔علی نامہ میں کل سات قصیدے ہیں اور یہ سب بڑے بڑے ہیں۔جن میں۲۲۰،۲۱۸،۱۵۸؍اور ۱۵۰؍اشعار پر مشتمل قصائد ہیں۔

(3)تاریخ اسکندری1083ھ

یہ مثنوی سکندر عادل شاہ کے زمانے پر مشتمل ہے۔علی عادل شاہ ثانی کاانتقال ۱۰۸۳ھ/ ۱۶۷۲ء میں ہوا ،اس کا چار سالہ بیٹا سکندرتخت نشین ہوا۔امرا نے بغاوت کر لی جس کے سبب ارکانِ سلطنت میں تزلزل پیدا ہوگیا اورشیرازۂ انتظام درہم برہم ہو گیا۔ہر طرف شورش وفتنہ بپا ہوگیا۔ سب سے اول بغلی دشمن شیواجی نے جو علی عادل شاہ ثانی کے آخر زمانے میں بعض شاہی قلعوں ،علاقوں اور بعض مغلیہ اضلاع پر قابض ہو گیا تھا،سر اُٹھایا اور عادل شاہی مملکت کی تسخیر کے لیے ہر طرف لشکر روانہ کیے۔خواص خاں نے جب یہ دیکھا تو عبدالکریم بہلول خاں کو اس کے مقابلے پر بھیجا۔جب وہ امرانی کے قریب پہنچا تو شیواجی کے لشکر نے اس پر حملہ کیا اور قتل وخوں ریزی کا ہنگامہ بپا کر دیا ۔بہلول خاں فوج کی کمی کے باوجود بڑی ثابت قدمی اور پامردی سے مقابلہ کرتا رہاجب کہ غنیم کا لشکر بہت زیادہ تھا ،آخر شیواجی کا لشکر منتشر ہو گیا۔بہلول خاں نے اسے غنیمت سمجھ کر ’’تیکو تہ‘‘کی طرف کوچ کیا۔جب بیجاپور سے تازہ مدد پہنچی تو وہاں سے کوچ کرکے دشمن پر حملہ کیا اور شیواجی کے لشکر کو شکست دی ۔شیواجی کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو اس کے غم و غصہ کی کوئی انتہانہ رہی اور اپنے سرداروں کو سخت ملامت اور سرزنش کی۔ اسی جنگ کا حال نصرتی نے اپنی اس مثنوی میں لکھا ہے ۔اس مثنوی کا سنہ تالیف ۱۰۸۳ھ ہے ۔یہ مثنوی گلشن عشق اور علی نامہ کے مقابلے میں بہت ہی مختصر ہے ،اس میں صرف ۵۵۴؍ اشعار ہیں۔یہ نصرتی کا آخری کلام ہے ۔اس میں نصرتی نے بہلول خاں کی فتح کے گن گائے ہیں جو براے نام فتح تھی۔ اس کے بعد ہی نفاق ومخالفت کی گرم بازاری شروع ہوگئی اور سلطنت بیجاپور کے اقبال کا ستارہ ماند پڑ گیا۔

ریفرنس بُک

نصرتی 1988ء،از : مولوی عبدالحق( ملک الشعراء بیجا پورکے حالات و کلام پر تبصرہ )
(۴)قصائد وغزلیات ورباعیات۔

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!