ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesISLAMIC KNOWLEDGE
Islam Talwar se nahi Akhlaq se faila hai
موجودہ مسلمانوں میں ایمانی پختگی کی کمی یامادیت پرستی کا زور؟
اسلام ایساواحد مذہب ہے جس نے کبھی بھی بزور شمشیر اپنی تعلیمات کی تبلیغ نہیں کی
موجودہ مسلمانوں میں ایمانی پختگی کی کمی یامادیت پرستی کا زور؟
از:عطاءالرحمن نوری ،مالیگاﺅں
مذہب کا انسانی زندگی سے بڑاگہراتعلق ہے۔ اسے انسانی زندگی میں بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہے۔آثارقدیمہ، علم الانسان اور جغرافیائی تحقیقات نے یہ واضح کر دیا کہ اب تک انسانوں کی کوئی مستقل جماعتی ،قومی یا تہذیبی زندگی ایسی نہیں رہی ہے جو مذہب کی کسی نہ کسی شکل سے یکسر خالی رہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا اظہار مختلف عقیدوں، مخصوص اعمال، رسومات، فنون لطیفہ کے مظاہر، مخصوص قوانین، اخلاقی ضابطوں، مخصوص رویوں، حرکات وسکنات اور بے شمار دیگر صورتوں میں ہوتا ہے۔ انسانی زندگی میں مذہبی احساس کے اظہار کی لاتعداد اور متنوع شکلیں ہیں کہ اس کی کوئی مخصوص تشریح بہت مشکل معلوم ہوتی ہے۔ ڈنمارک کے ایک اسکالر ہوفڈنگ کے خیال میں مذہب تمام روایتوں میں اپنی انتہائی بنیادی صورت میں اعلیٰ قدروں کی بقا پر یقین کا نام ہے۔ (مولاناآزاد یونی ورسٹی، بی اے سال اول، اسلامیات، پہلا پرچہ، ص:۲۱) غرضیکہ زندگی کی تمام تر وسعت اور ہمہ گیری میں ہمیں مذہب کا ہی جلوہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہم جیسے جیسے انسانی زندگی کا مطالعہ کریں گے ہمیں مذہب کی حقیقت کے نئے نئے عکس نظر آئیں گے۔
تمہیدی کلمات سے انسانی زندگی میں مذہب کی اہمیت و ضرورت سے آگاہی ہوئی۔ تاریخی کتابوں کے ورق گردانی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں نے اپنے مذہب کی تبلیغ وتشہیر کے لیے جدا جدا طریقے اور حربے استعمال کئے ہیں۔ مگر اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے کبھی بھی بزور شمشیر اور طاقت کے بل بوتے پر اپنی تعلیمات کی تبلیغ نہیں کی۔ بلکہ اکناف عالم میں اسلامی پرچم انسانیت کی اعلیٰ قدروں اور اخلاقی بنیادوں کے سبب بلند ہوا ہے۔ ہندوستان میں بھی اسلام کی اشاعت محض مجاہدین کے ذریعے نہیں بلکہ صحابہ کرام، تابعین عظام اور صوفیا کے اخلاق، کردار، روحانیت اور ان کی بے لوث خدمات کے ذریعے ہوا ہے۔
صدیوں تک مسلمانوں نے اس سر زمین پر حکومت کی مگر ایک مثال ایسی نہیں ملتی کہ ہمارے بادشاہوں، حکمرانوں اور علما نے بالجبر اسلام میں کسی کو داخل کیاہو۔ ہندوستان کے باشندوں نے اسلام کی صداقت وحقانیت کو دیکھتے ہوئے اللہ کا پسندیدہ مذہب قبول کیا ہے۔ مگر افسوس! چند شرپسند عناصر اپنی شریر طبع کے سبب ہر دور میں مسلمانوں کو اپنے مذہب سے بیگانہ کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اترپردیش، ہریانہ، راجستھان اور دہلی کے کئی علاقوں میں ”دھرم پریورتن“ کے نام پر ہندوستان کی پُرامن فضا کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کچھ دن قبل آگرہ کا یہ واقعہ سامنے آیا کہ سینکڑوں مسلمانوں کو دھوکے سے ہندو مت میں شامل کر لیا گیا۔ ارتداد کے اس واقعہ کا حقیقی تجزیہ کیا جائے تو بہت سے ایسے عوامل سامنے آتے ہیں جن کے سبب یہ دلخراش حادثہ رونما ہوا اور ان عوامل کے حل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا ضروری ہے۔(1) موجودہ دور میں مسلمان طبقاتیت کا شکار ہو رہے ہیں۔ امیر و غریب کے درمیان دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ مالدار طبقہ زکوٰة، صدقات اور خیرات سے جی چُرا رہا ہے جس کے سبب غریب طبقہ غیروں کے دَر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ (2) غریب طبقہ بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہے۔ ان کا حال بھی تاریک ہے اور مستقبل بھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھوک سے بلبلاتے ہوئے بچوں کے آنسو اور سسکیاں ماں باپ کو ارتداد کا راستہ بتاتے ہیں۔ (3) کہیں مساجد کی کمی ہے جبکہ مساجد معاشرے میں قلعوں کا کام انجام دیتی ہیں۔ مساجد کے ذریعے مسلمانوں کے عقائد واعمال کی اصلاح اور اخلاق وکردار کی تربیت کا فریضہ بخوبی ادا کیا جاتا ہے۔ مگر مساجد ومدارس کی کمی کے باعث دین سے دوری اور اسلامی تعلیمات سے ناآشنائی جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ (4) یہ لوگ ووٹر کارڈ او رآدھار کارڈ جیسی معمولی مگر اہم چیزوں سے بھی محروم تھے۔ ان کاغذات سے محرومی کے سبب غیر ملکی قرار دیئے جانے کا خوف ہمیشہ دامن گیر رہتا تھا۔ غیر مسلم جماعتوں نے انہی اشیاء کا سہارا لے کر انہیں مرتد بنانے کی کوشش کی۔ یہ بات ملکی اور عالمی مسلم تنظیموں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ مسلم تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ دعوت وتبلیغ کے ساتھ اس شعبے میں بھی رہ نمائی کا فریضہ انجام دیں۔
آخر میں ایک حتمی بات ہمیں اپنے آپ سے کرنی ہے۔ غیر مسلموں کی سازشیں اپنی جگہ۔ مگر کیا آج کے مسلمان ایمانی اعتبار سے اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ چند سکّوں کی چمک دمک ایمان کو متزلزل کردے؟ چند کاغذات کی غیر موجودگی توحید کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے؟ یا کسی کا ڈروخوف ارتداد کی راہ کا مسافر بنا دے؟ ہمارا ماضی تو ہم سے یہ کہتا ہے کہ جب بات ایمان کی آئی تو ہمارے اسلاف نے اپنا گھر بار، مال ومتاع حتیٰ کہ اپنا وطن بھی چھوڑ دیا صرف ایمان کی حفاظت کے لیے۔ انہیں کھَولتے ہوئے تیل میں ڈال دیا گیا، سولی پر لٹکا دیا گیا، ان کی آنکھوں کے سامنے ننھّے ننھّے بچوں کے جسموں پر گھوڑے دوڑا دیئے گئے، سروں کو نیزوں پر چڑھا دیا گیا، مگر دامنِ مصطفیٰ سے غداری کرنا ان کے ضمیر نے گوارا نہیں کیا اور انہوں نے اپنی جان راہِ خدامیں نثار کر دی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مادیت کے دَلدَل سے نکل کر دل ودماغ میں اسلام کی سچی محبت بٹھائی جائے، صحابہ واسلاف کی قربانیاں بتائی جائیں، دین کی اشاعت میں رسول اکرم ﷺ کے عطا کردہ درس کا ذکر کیا جائے تاکہ اسلام کے متعلق ایسی محبت پیدا ہو جس کے سامنے بڑی سے بڑی سازشیں اور طاقتیں زیروزبر ہوجائیں۔