ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesISLAMIC KNOWLEDGE

اسلامی نیا سال صالح انقلاب کا نقیب اور انتہائی عظیم قربانیوں کاپیامبر

اسلامی سال کے اختتام اور آغاز سے ایثار و قربانی کا درس ملتا ہے

اسلامی سال کے اختتام اور آغاز سے ایثار و قربانی کا درس ملتا ہے

اسلامی نیا سال صالح انقلاب کا نقیب اور انتہائی عظیم قربانیوں کاپیامبر

از: عطاء الرحمن نوری ،مالیگاؤں (ریسرچ اسکالر)

اسلامی نیا سال صالح انقلاب کا نقیب اور انتہائی عظیم قربانیوں کا پیامبر ہے۔ دیگر مذاہب کے نئے سال پر رقص وسرور کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں، چہار جانب شراب کے جام چھلکائے جاتے ہیں، نوجوانوں کو شباب میں مدہوش کیا جاتا ہے، موسیقی کے سُر اور تال پر خواتین کے تھرکتے ہوئے جسموں کی نمائش کی جاتی ہے، دنیا کا ایک بڑا طبقہ نئے سال کے جشن میں ناچ، گانے، شراب و شباب، فحاشی، عریانیت اور جنسیت میں ڈوب جاتا ہے۔ اس دن شیطانیت اپنے عروج کے نقطۂ انتہا پرہوتی ہے، عصمت دری اور عصمت فروش ایک نیا باب رقم کرتے ہیں، عورتوں اور مردوں کا اختلاط ہوتا ہے، یہ کیسا شیطانی جشن ہے دیگر مذاہب کا جہاں انسانیت دم توڑ رہی ہو اور حضرت مریم کے ماننے والیاں اپنی عزت وآبرو کی حفاظت کی خاطر کسی نجات دہندہ کی متلاشی ہو؟ جشن کا یہ طریقہ یہودونصاری کا تو ہو سکتا ہے مگر اہل اسلام کا نہیں کیوں کہ اسلام تو اختتامی سال کے آخری اور نئے سال کے پہلے ہی دن سے قربانی وایثار کا درس دیتا ہے۔

اسلامی نیا سال تو صالح انقلاب کا نقیب ہوتا ہے اور اہل اسلام مغربی تہذہب کے دلدادہ نہیں بلکہ پروردۂ آغوش غیرت ہوتے ہیں، عصمت فروش نہیں بلکہ عفت وعصمت کے محافظ ہوتے ہیں، تہذیب وتمدن کے نام پر انسانیت کی دھجیاں نہیں اُڑاتے بلکہ اخلاق کی اعلیٰ قدروں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کاش!! جو اسلامی تعلیمات کتابوں میں گم ہو کر رہ گئی وہ ہماری زندگی میں بھی نظر آجائیں۔ اسی لیے شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا ؎

گفتار کے غازی بن تو گئے کردار کے غازی بن نہ سکے

آج جتنا نقصان اسلام کو اسلام کے ماننے والوں سے ہو رہا ہے شاید ہی کسی اور سے ہو، آج قوم مسلم عیش وعشرت اور مغرب کی رسیا بن چکی ہے۔ وہ طبقہ جو عصری علوم حاصل کر رہا ہے یا کر چکا ہے ان میں سے اکثر دین سے دور اور بیزار نظر آتے ہیں۔ آج ہم عیش کدوں میں بیٹھ کر اسلام کی اشاعت کرنا چاہتے ہیں۔ میرے عزیزو! کوئی بھی نظام ایثار و قربانی کے بغیر قائم نہیں ہو سکا ہے، چاہے وہ کارل مارکس، مسولینی، لینن، ابراہم لنکن، کنفوشیش کا نظام ہو یا اربابِ اقتدار ودانشمندان حاضر کا۔ جب باطل نظریات و نظام کے ماننے والوں نے قربانیاں پیش کیں، مصائب وآلام کی پرپیچ راہوں سے گزریں تو ہم کیوں صف آخر میں نظر آتے ہیں؟ اگر ہم بغیر ایثار کے گھر بیٹھ کر نظام اسلام قائم کرنا چاہتے ہیں تو حاشاوکلا یہ ممکن نہیں ہے۔ اسلام ایثار کی تعلیم دیتا ہے، حتی کہ ختم ہوتا ہوا، اسلامی سال حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہم السلام کی قربانیوں کی یاد تازہ کراتا ہے اور نیا اسلامی سال سیدالشہدا امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کی راہ خدا میں پیش کی گئی عظیم قربانیاں اسلام کے لیے کچھ کر گذرنے کا حوصلہ فراہم کرتی ہیں۔ اسی جذبۂ قربانی کو دشمنان اسلام  نے کمزور کر دیا ہے، مگر ائے مسلمانو! یہ تاریخی حقیقت ہے کہ حالات کی ستم ظریفی ہمارے اسلاف کرام کے پائے ناز کو متزلزل نہیں کر سکی، ظلم وجور کی آندھیاں پاش پاش ہو گئیں، دنیا کے تاجدار اور وارث اقتدار سرخمیدہ نظر آئے مگر عزم حسینی کا کوہِ محکم مستقیم رہا۔ تاقیامت حق وباطل کی معرکہ آرائی، اسلامی اصولوں کی پامالی کی گرداب میں سیدالشہداء امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت و قربانیاں ہمارے لیے نمونۂ عمل اور حوصلوں کی بلندی کاسبب ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!