اسد اللہ خاں غالبؔ کی حیات میں شوخی وظرافت کے درخشاں پہلو
Mirza Ghalib ki Zarafat
اسد اللہ خاں غالبؔ کی حیات میں شوخی وظرافت کے درخشاں پہلو
از:عطاء الرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)، مالیگاؤں
یوں تو مرزا اسداللہ خان غالب کی زندگی غم واندوہ کامرقع تھی۔ کم سنی میں والدین کی رحلت، مشفق ومہربان چچا کا داغِ مفارقت دے جانا اور پینشن یعنی حقہ پانی بند ہو جانا جیسی صعوبتوں کو آپ نے بڑی خوش اسلوبی سے برداشت کیا۔ ان پُردرد لمحات کو مرزا صاحب نے اپنی حُسن بیان، شوخی وظرافت جیسی خداداد صلاحیت سے کبھی اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ مرزا صاحب کی تحریر کے ساتھ ان کی تقریر بھی بہت پُر لطف تھی اسی وجہ سے لوگ ان سے ملنے اور ان کی باتیں سننے کے مشتاق رہتے تھے، وہ زیادہ بولنے والے نہیں تھے مگر جو کچھ ان کی زبان سے نکلتا تھا لطف سے خالی نہ ہوتا تھا۔ ظرافت مزاج میں اس قدر تھی کہ اگر ان کو بجائے حیوان ناطق کے حیوا ن ظریف کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ حسن بیان، حاضر جوابی اور بات میں سے بات پیدا کرنا ان کی خصوصیات میں سے تھا۔ مرزا صاحب کی شوخیوں کے چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
مرزا صاحب کو اکثر لوگ پنشن کا حال دریافت کرنے کو خط بھیجتے تھے۔ ایک دفعہ میر مہدی نے اسی مضمون کا خط بھیجا تھا، اس کے جواب میں مرزا صاحب لکھتے ہیں:
’’میاں بے رزق جینے کاڈھب مجھ کو آگیا ہے، اس طرف سے خاطر جمع رکھنا، رمضان کا مہینہ روزے کھا کھا کر کاٹا، آگے خدا رزّاق ہے، کچھ اور کھانے کو نہ ملا تو غم تو ہے‘‘۔
مرزا کو شطرنج اور چوسر کھیلنے کی بہت عادت تھی۔ اس بابت انھیں جیل بھی ہوئی، جب مرزا قید سے چھوٹ کر آئے تو میاں کالے صاحب کو مکان میں آ کر رہے تھے، ایک روز میاں کے پاس بیٹھے تھے، کسی نے آ کر قید سے چھوٹنے کی مبارکباد دی، مرزا نے کہا:
’’پہلے گورے کی قیدمیں تھا، اب کالے کی قیدمیں ہوں‘‘۔
یعنی مرزا صاحب نے قیدوبند کی صعوبتوں پر لعن طعن، شکوہ وشکایت کرنے کی بجائے اسے اپنے الفاظ وبیان کے سنگم میں چھپا لیا۔ کہتے ہے انسان کی شہرت اس کے حاسدین کوجنم دیتی ہے۔ کچھ ایسا ہی مرزا غالبؔ کے ساتھ بھی ہوا۔ آئے دن مرزا صاحب کو گمنام ناموں سے خطوط آتے جو فحش کلامی اور گالی گلوچ سے پُر ہوتے۔ مگر مرزا صاحب ان خطوط کو پڑھ کر برہم ہونے کی بجائے اس میں بھی مزاح کا پہلو تلاش کر لیتے تھے۔ جیسا کہ آپ کو ایک خط آیا جس میں ماں کی گالی لکھی ہوئی تھی، مسکرا کر کہنے لگے کہ
’’اس اُلّو کو گالی دینی بھی نہیں آتی، بُڈھے یا آدھیڑ آدمی کو بیٹی کی گالی دیتے ہیں تاکہ اس کو غیرت آئے، جوان کو جورو کی گالی دیتے ہیں کیوں کہ اس کو جورُو سے زیادہ تعلق ہوتا ہے، بچے کوماں کی گالی دیتے ہیں کہ وہ ماں کے برابر کسی سے مانوس نہیں ہوتا۔ یہ قُرم ساق جو بہتّربرس کے بڈھے کوماں کی گالی دیتا ہے اس سے زیادہ کون بے وقوف ہوگا؟‘‘
مکان کے جس کمرے میں مرزا اسداللہ خان غالبؔ دن بھر بیٹھتے اُٹھتے تھے، وہ مکان کے دروازے کی چھت پر تھا اور اس کے ایک جانب ایک کوٹھری تنگ وتاریک تھی جس کا در اس قدر چھوٹا تھا کہ کوٹھری میں بہت جھک کر جانا پڑتا تھا، ایک دن جب کہ رمضان کا مہینہ اور گرمی کا موسم تھا، مفتی صدرالدین آزردہؔ ٹھیک دوپہر کے وقت مرزا سے ملنے کو چلے آئے، اس وقت مرزا صاحب ایک دوست کے ساتھ چوسر یا شطرنج کھیل رہے تھے، مولانا بھی وہیں پہنچے اور مرزا کو اس حالت میں دیکھ کر فرمایا:
’’ہم نے حدیث میں پڑھا تھا کہ رمضان کے مہینے میں شیطان مقید رہتا ہے، مگر آج اس حدیث کی صحت میں تردّد پیدا ہو گیا ہے‘‘۔
مرزا صاحب نے برجستہ کہا:’’قبلہ! حدیث بالکل صحیح ہے، مگر آپ کو معلوم ہے کہ وہ جگہ جہاں شیطان مقید رہتا ہے وہ یہی کوٹھری تو ہے‘‘۔
الغرض مرزا کی کوئی بات لطف اور ظرافت سے خالی نہ ہوتی تھی ۔مرزا صاحب مرغن غذاؤں کے بڑے شوقین تھے، آخری ایام میں تنگدستی و مفلسی نے جب شکنجہ کسا تو شوق تو بہرحال باقی رہا مگر اس کی دستیابی ختم ہو گئی۔ ایک روز دوپہر کا کھانا آیا، برتن تو بہت سے تھے مگر کھانا بہت قلیل تھا، مرزا نے مسکرا کر کہا
’’اگر برتنوں کی کثرت پر خیال کیجیے تو میرا دسترخوان یزید کا دسترخوان معلوم ہوتا ہے اور جو کھانے کی مقدار کو دیکھیے تو بایزید کا ‘‘ ۔
نئے نئے پکوان تناول کرنا مرزا صاحب کی فطرت تھی، مگر تنگ دامنی میں انھوں نے اس کی کمیابی کی شکایت نہیں کی، تنگ دل نہیں ہوئے بلکہ اس میں بھی مزاح کا پہلو ڈھونڈ نکالا۔ پھلوں میں آم آپ کو بہت مرغوب تھا۔ آموں کی فصل میں ان کے دوست دور دور سے ان کے لیے عمدہ عمدہ آم بھیجتے تھے اور وہ خود اپنے دوستوں سے تقاضا کر کر کے آم منگواتے تھے۔ ایک روز مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر آموں کے موسم میں چند مصاحبوں کے ساتھ، جن میں مرزا بھی تھے۔ باغ حیات بخش یا مہتاب باغ میں ٹہل رہے تھے، آم کے پیڑ رنگ برنگ کے آموں سے لدے تھے۔ یہاں کا آم بادشاہ یا سلاطین یا بیگمات کے سوا کسی کو میسر نہیں آ سکتا تھا، مرزا بار بار آموں کی طرف غور سے دیکھتے تھے، بادشاہ نے پوچھا:
’’مرزا اس طرح غور سے کیادیکھتے ہو؟
‘‘مرزا صاحب نے ہاتھ باندھ کرعرض کیا:
کسی بزرگ نے کہا ہے ؎
برسرِ ہردانہ بنوشتہ عیاں
کایں فلاںابن فلاں ابن فلاں
اس کو دیکھتا ہوں کہ کسی دانے پر میرا اور میرے باپ دادا کا نام بھی لکھا ہے یا نہیں۔
بادشاہ مسکرائے اور اسی روز ایک ٹوکری عمدہ عمدہ آموں کی مرزا کو بھجوائی۔ آموں کی متعلق یہ لطیفہ بھی مرزاصاحب کی شوخی کا برملا اظہار ہے۔ حکیم رضی الدین خاں جو مرزا کے نہایت قریبی دوست تھے، ان کو آم نہیں بھاتے تھے، اک دن وہ مرزا کے مکان پر برآمدے میں بیٹھے تھے اور مرزا بھی وہیں موجود تھے۔ ایک گدھے والا اپنے گدھے لیے گلی سے گزرا، آم کے چھلکے پڑے ہوئے تھے، گدھے نے سونگھ کر چھوڑ دیے۔
حکیم صاحب نے کہا دیکھیے آم ایسی چیز ہے جسے گدھا بھی نہیں کھاتا،
مرزا نے کہا بے شک گدھا آم نہیں کھاتا۔
مرزا صاحب کی حیات کے ان پہلوؤں سے یہ درس ملا کہ انسان بڑی سی بڑی مصیبت کا سامنا الفاظ وبیان کے حسین استعمال کے ذریعے کر سکتا ہے۔