ArticlesISLAMIC KNOWLEDGE

Moharram Ki Mahfilo Ka Andaz Badal Sakta Hai

دس روزہ ذکر شہدا کی محفلوں کا انداز بدل سکتا ہے


خالد ایوب مصباحی شیرانی


ایک زمانے سے دل میں ایک خلش تھی، اگر معرکہ کربلا کے بہت سے کردار مفروضہ، یا غیر معتبر، یا غیر معقول ہیں تو ہم عقیدت حسین کے نام پر انھیں کب تک ڈھوتے رہیں گے، حقیقی تاریخ بیانی کی بجائے، کب تک فرضی تاریخوں سے اپنے دفتر کو سیاہ اور حضرت امام کی روح کو ناراض کرتے رہیں گے؟ کیا حضرت امام عالی مقام کی عظمت کے لیے ان کے فضائل میں منقول واقعی احادیث کی کمی ہے، جو ان کی بہادری اور مظلومیت دکھانے کے لیے مفروضہ مصادر سے غیر واقعی حکایتوں کا سہارا لیا جائے؟
جب جب داستان کربلا بیان ہوتی تھی ایسا لگتا تھا جیسے داستان گو قرطاس و قلم تھامے میدان کی ایک ایک نقل و حرکت رقم کر رہا ہو، اگر اہل تشیع اپنے مفروضہ نظریات کی بقا اور فرضی آہ و بکا کے لیے ایسی داستانوں کا سہارا لیتے ہیں تو لیں لیکن اہل حق کو یہ زیب نہیں دیتا اور اس سلسلے میں مفروضات کو حقائق بنانے کے لیے جد و جہد کرنے سے کئی گنا اچھا ہے کہ ان مفروضات کا دامن چھوڑ کر حضرت امام عالی مقام کی تعلیمات، آپ سے منقول روایات اور آپ کی پاکیزہ زندگی کے نقوش پر زور بیان صرف کیا جائے۔
اس بار دس روزہ ذکر شہدائے کربلا میں میں نے بہت احتیاط سے کام لیا اور عام روش سے ہٹ کر رطب و یابس روایات کی عملاً حوصلہ شکنی کی اور خوشی کی بات یہ ہے کہ عوام کو نہ صرف یہ کہ روایت شکنی کا احساس نہیں ہوا بلکہ انھیں جدید معلومات پر خوشی بھی ہوئی۔ 
ابتدائی پانچ تاریخوں تک حضرات خلفائے راشدین کے حالات بیان کیے، چھٹی شب اہل بیت کا مصداق اور ان کے اجتماعی فضائل کا تذکرہ کیا اور اس ضمن میں صحابہ کرام کی عظمتوں پر بھی کھل کر بات کی تاکہ اہل سنت کے درمیان روپوش رافضیت کی پہچان مشکل نہ رہے۔
 ساتویں شب سیدہ کائنات حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کا ذکر جمیل کیا، آٹھویں شب حضرات حسنین کریمین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما کے اجتماعی فضائل بیان ہوئے، نویں شب امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے خصوصی فضائل اور بچپن اور وقت شہادت کے علاوہ ما بقی زندگی کے احوال پر روشنی ڈالی اور دسویں شب واقعہ شہادت و ما بعد شہادت پر دس روزہ محفل کا اختتام ہوا،
بایں طور کہ نہ امام مسلم کے بچوں کو شہید ہونے دیا، نہ امام کے ساتھیوں کے آنکھوں دیکھے اور یکے بعد دیگرے شمشیر زنی کرتے حالات کا تذکرہ کیا بلکہ عوام کی داد دہش سے بے نیاز ہو کر سادہ انداز میں یہ بتایا: امام مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کیسے آئے، مکہ مکرمہ سے کوفہ کا سفر کیسا رہا اور جب آپ کوفہ پہنچے منظر نامہ کیسا تھا؟
یعنی جنگ کے لیے لازمی اور معقول حالات کے بعد بنا کسی مظلومیت کے ذکر کے ڈائرکٹ امام عالی مقام کو لباس جنگ پہنا کر میدان میں حاضر کر دیا اور جتنا زور عام طور پر اہل بیت کی مظلومیت پر صرف کیا جاتا ہے، وہ زور قاتلین حسین کے انجام پر لگایا تاکہ سننے والوں کو مگرمچھ کے آنسو رونے سے زیادہ اس بات کا احساس ہو کہ حق کبھی مرتا نہیں اور باطل پنپتا نہیں بلکہ دس سال کے دورانیہ میں لگ بھگ وہ تمام بد بخت اپنے انجام کو پہنچ گئے جنھوں نے میدان کربلا میں یزید کا ساتھ دیا تھا۔ سچ ہے: خدا کے یہاں دیر ہے، اندھیر نہیں۔ 
مجھے یہ طریقہ زیادہ مناسب اس لیے لگا کہ

(1)

اس سے اہل حق کی مظلومیت سے زیادہ ان کی روحانی قوت کا احساس ہوتا ہے اور غیر شعوری طور پر باطل سے پنجہ آزمائی کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے، آج کے دور میں یہ حوصلہ ضروری ہے تاکہ اب کوئی مسلمان *تبریز انصاری* کی طرح ہاتھ جوڑ کر جان لیوا کافروں سے جان کی بھیک نہ مانگے بلکہ اپنا ہر کس بل لگانے پر دماغ صرف کرے،

 

(2)

واقعات کربلا کے ضمن میں منقول کوئی درجنوں واقعات و حالات ایسے ہیں جو یا تو غیر معقول ہیں، یا نا قابل اعتماد، جب ہم غیر معقول باتیں کرتے ہیں، ہمارے دہر کا الحاد ٹھکرا دیتا ہے اور جب نا قابل یقین باتیں کرتے ہیں تو یزید کے حامی نو پید مسالک تضحیک کرتے ہیں، اس لیے اپنا اعتبار بر قرار رکھنے کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم سوانح کربلا کے انھیں گوشوں پر گفتگو کریں جن کی معقولیت پر شبہ کیے بنا بھی واضح طور پر حضرت امام کی شخصیت کا لوہا مانا جا سکتا ہے، وہیں دوسری طرف دشمن کو جگ ہنسائی کا موقع بھی نہیں ملتا،

(3)

چھپن سالہ شہید مظلوم کے ساتھ یہ بھی ظلم ہے کہ ان کی زندگی کے صرف دو پہلو اجاگر کیے جائیں: (الف) چھ سال کی عمر تک کا بچپن، (ب) چھپنویں سال کی شہادت جبکہ حضرت امام کی اصل زندگی وہ ہے، جو ان دونوں کے درمیان ہے،

(4)

مظلومیت کو اہل بیت نبوت کا استعارہ بنا لینے سے دو نقصان ہوتے ہیں: (الف) ظالم طاقتوں، استعماری قوتوں اور یزیدان وقت کو خاموش حوصلہ ملتا ہے، (ب) ویسے ہی جیسے مظلومان وقت کے حوصلے پژمردہ ہوتے ہیں اور (ج) نئی نسل کے ذہنوں میں پوشیدہ صالح قیادت پر خاموش زد پڑتی ہے، 

یہ میرا اپنا ذاتی نظریہ ہے، جو اب تجربہ بھی بن چکا ہے، اس سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے اور اتفاق بھی لیکن عصر رواں میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ 

٭٭٭

..:: FOLLOW US ON ::..


https://www.youtube.com/channel/UCXS2Y522_NEEkTJ1cebzKYw
http://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg
http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!