ArticlesISLAMIC KNOWLEDGE

Bangkok The City of Buildings

بینگ کاک: فلک پیما بلڈنگوں کا شہر (1)

تحریر:۔خالد ایوب مصباحی شیرانی

khalidinfo22@gmail.com
جب بمبئی کی چلتی زندگی میں قدرے سکون آ جائے، جب دہلی کی گندگی صفائی میں بدل جائے اور جب انڈیا کے میٹرو شہروں میں نظم و نسق آ جائے تو تھائی لینڈ کی راج دھانی *بینگ کاک* بن جاتی ہے۔ جہاں تہذیبی طور پر عریاں لیکن لگتا ہے فکری طور پر عیاشیوں سے تھک چکے لوگ بستے ہیں۔ دن ڈھلے بندہو جانے والا شہر، دیر رات تک ضرورت کا ہر سامان مہیا کرتا ہے۔ شاہ راہوں سے لے کر گلیوں تک صفائی، عوام سے لے کر خواص تک سادگی اور ہم وطنوں سے لے کر پردیسیوں تک کے لیے یکساں انسانی محبت اس شہر کی نمایاں خوبی ہے۔ نہ اچھلتے بندر، نہ بھونکتے کتے اور نہ گلیوں میں آوارہ بچے، نہ چوراہوں پر جھگڑتے لوگ اور نہ گاڑیوں کی سرسراہٹ ۔ ایمرجنسی حالات کے علاوہ ہارن بجانا  جرم سمجھا جاتا ہے جبکہ جام یہاں بھی لگتا ہے اور بنگلور کی طرح بلا کا لگتا ہے۔ لیکن جام میں بھی تہذیب نظر آتی ہے، نہ آور ٹیکنگ، نہ آڑی ترچھی گاڑیاں اور نہ ہائے توبہ۔  یعنی ہر طرف پر سکون ماحول ہے اور اس قدر پر سکون کہ کبھی کبھی ہم ہندوستانیوں کو وحشت ہونے لگتی ہے: بھلا! یہ بھی کوئی آدم زاد ہیں۔ 

ہمیں بتایا گیا: یہاں کرایہ دار بھی گاڑی ضرور رکھتا ہے اور گاڑیوں میں بھی موٹر سائیکلز کم اور فار ویلر زیادہ نظر آتی ہیں۔ ایک خاص بات یہ دیکھی گئی کہ *آگرہ – لکھنؤ/ دہلی ایکسپریس وے* کی طرح یہاں شہر کے اندر بھی ہائی وے کے نام سے ایکسپریس وے بنے ہوئے ہیں جنھیں لمبا راستہ طے کرنا ہوتا ہے، انھیں شاہ راہوں کا استعمال کرتے ہیں، شہر میں اترنا ہو توجگہ جگہ بنے ہوئے بیچ کے کٹ  آف سے نیچے اتر آتے ہیں، ورنہ  گھنے راستوں سے بچ بچا کر بہت کم وقت میں لمبے راستے طے کیے جا سکتے ہیں۔  جب اس ہائی وے پر گاڑی دوڑتی ہے، منظر دیکھنے لائق ہوتا ہے بلکہ در اصل سر سری نظر سے شہر کے نظارہ کرنے کے لیے یہی راستہ سب سے زیادہ موزوں ہے۔    بہتی سڑکوں سے بنا تھکے سر کی ٹوپی تھام کرفلک پیما بلڈنگیں دیکھے جائیے ۔ ان شیش محل بلڈنگوں کے بھی اپنے اپنے انداز  ہیں، کوئی سفیدے کے درخت کی طرح لمبی ہے تو کوئی کچھوے کی طرح پھیلی ہوئی۔ کوئی پرانی تہذیب کی عکاسی کرتی ہے تو کوئی نئی دنیا دکھاتی ہے۔ کسی پر فرط حیرت سے نگاہ ٹک جاتی ہے تو کسی کی ڈیزائن کے متعلق بوسیدہ ہونے کا خیال گزرتا ہے۔ یہاں کی بلڈنگو ں کی تازہ چمک دمک اور مین ٹینینس دیکھ کر گمان گزرتا ہے جیسے نیاشہر  آباد ہوا ہو۔

 خاص بات یہ ہے کہ یہاں کی زیادہ تر آبادی ایک دو منزلہ اورچھوٹے مکانوں میں بسنے کی بجائے اسی طرح کے لمبے چوڑے اور کئی کئی منزلہ کامپلیکسز میں رہنا پسند کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان بلڈنگوں کا تسلسل ٹوٹنے کا نام نہیں لیتا اور  ایک کوہستانی سلسلہ محسوس ہوتا ہے، اسی تعمیراتی سلسلے کا نام “*بینگ کاک*” ہے۔       

زمین کی طرح آب و ہوا بھی خوش گوار ہے۔بہت حد تک بمبئیا موسم ہے لیکن کچھ امتیازات ہیں۔ کب بارش ہو جائے، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بتایا جاتا ہے کہ سال میں آٹھ ماہ بارش ہوتی ہے۔ دھوپ بھی برابر ہوتی ہے، اس میں تمازت بھی پائی جاتی ہے  لیکن ایسی بھی نہیں کہ پسینہ  آجائے۔ رات گئے موسم سہانا ہو جاتا ہے اور بارش کے بعد گویا شہر سنور جاتا ہے۔ ہمارے یہاں بارش شہروں کی کیا درگت بناتی ہے، بتانے کی ضرورت نہیں، یہاں بارش کا مطلب سڑکوں پر پانی کا چھڑکاؤ ہے، نہ بارش کے بعد آلودگی نظر آتی ہے، نہ پانی کا جماوڑا، نہ موسم میں امس ہوتی ہے اور نہ بدن میں لچیلاپن۔   

 مانا جاتا ہے کہ *تھائی لینڈ* عالمی سطح پر بے حیائی، فحاشی ، بد کرداری اور عریانیت کے بڑے اڈوں میں سے ایک رہا ہے اور تھائی لینڈ کی اس بد نامی کا سب سے زیادہ ٹھیکرا بینگ کاک کے سر پھوٹتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں روانگی سے پہلے ہمارے عزیز حافظ اشرف برکاتی نے کہا تھا: آپ کسی کو یہ نہ بتائیں *تھائی لینڈ* جا رہے ہیں، بلکہ اتنا ہی کہہ دیں فارن جا رہے ہیں ۔ لیکن یہاں آنے کے بعد رفیق سفر اور کرم فرما *مفتی اشفاق حسین قادری*، چیرمین آل انڈیا تنظیم علمائے اسلام نے بتایا: جب سے دوبئی ڈیولپ ہوا ہے، بڑے گناہ یہاں سے وہاں منتقل ہو گئے۔ کیوں کہ پہلے بھی اس کاروبار کے تاجر عرب ہی تھے اور یہاں کی منڈیاں انھیں سے آباد رہتی تھیں۔

 نہیں کہا جا سکتا کہ فی الوقت یہاں کی اندرونی تہذیب کیسی ہے؟ لیکن ظاہراً یہ کہنے میں باک نہیں کہ یہاں کا عام لباس بھلے انڈیا سے قدرے زیادہ عریاں ہو، مگر پیراہن کے اس ننگے پن کے علاوہ عملاً بے حیائی کے وہ مناظر یہاں نہیں نظر آتے جو انڈیا میں کسی بھی کالج، پارک، یا پارٹی میں دیکھے جاتے ہیں۔ یعنی رفیق سفر *شجاعت علی قادری*، قومی صدر: مسلم اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن آف انڈیا کے مطابق یہاں لباس کی عریانی ضرور ہے، لیکن یہ ان کی تہذیب ہے،ورنہ تھائی لوگوں کی فکر میں وہ آوارگی نہیں، جو آج کے نئے زمانے میں انڈین کلچر کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ شجاعت بھائی کئی بار *بینگ کاک* کا سفر کر چکے ہیں،دانش ور اور ٹھیک تجزیہ نگار ہیں، ہمیں ان کی اس بات پر ایمان لانے میں ویسے ہی کوئی مضائقہ نہیں محسوس ہوتا، جیسے مفتی صاحب کی تاریخ دانی پر سر تسلیم خم ہے ۔ 

ہاں! یہاں کل چار نفری قافلے کے تیسرے رفیق سفر کا ذکر ضروری ہے کیوں کہ آل رسول کےبنا جیسے روحانی محفلیں سونی رہتی ہیں، ویسے ہی ہمارے  سید صاحب ، حضرت مولانا *سید محمد قادری*، نگراں : سنی دعوت اسلامی، جے پور کے بنا ہماری ہر محفل سونی سونی محسوس ہوتی ہے۔اس قافلے کے قافلہ سالار سید صاحب ہی ہیں، جنھوں نے خوش ذائقہ دعوتوں سے لے کر فرحت آگیں ملاقاتوں تک ہر موڑ پر قائدانہ رول پلے کیا ۔ سید صاحب کے اندر بہت سی خوشیاں روپوش ہیں، آپ خوش مزاج بھی ہیں، خوش خصال بھی ، خوش نما بھی ہیں اور خوش مذاق بھی ۔ لیکن ان تمام خوشیوں سے دامن بھرنے کے لیے آپ کو آٹھ دن ان کے ساتھ رہنا ہوگا، اگر منظور ہو تو آگے بڑھیےگا۔  *(باقی)*

٭٭٭

..:: FOLLOW US ON ::..


https://www.youtube.com/channel/UCXS2Y522_NEEkTJ1cebzKYw
http://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg
http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!