منشی پریم چند کے ناول گئودان کا خلاصہ
Novel Godan ka Khulasa Munshi Premchand
منشی پریم چند کے ناول گئودان کا خلاصہ
گئودان پریم چند کا ناول ہے، 1936ء میں شائع ہوا۔ اسے پریم چند کا سب سے بہترین ناول مانا جاتا ہے۔ اس میں ہندوستان کے کسانوں کی تکلیف دہ زندگی کو دکھایا گیا ہے۔ پریم چند نے دہقانوں پر ہونے والے ظلم کی نقشہ کشی کی ہے۔ پریم چند نے پہلے اردو زبان میں لکھنا شروع کیا تھا لیکن آہستہ آہستہ وہ ہندی زبان کی جانب بڑھتے گئے جبکہ گئودان تو سب سے پہلے دیوناگری رسم الخط میں لکھا گیا تھا اور اسے اقبال بہادر ورما ساحر نے اردو میں ڈھالا تھا۔ لیکن اب بھی اسے اردو ناول ہی قرار دیا جا سکتا ہے اور وہ بھی بہترین اردو ناولوں میں سے ایک۔
منشی پریم چند کا ایک شاہکار ناول
منشی پریم چند اردو ادب کا ایک بے مثال کردار ہیں۔ منشی پریم چند کے ناول گئودان کو طویل عرصہ پہلے پڑھا تھا۔ تب کچھ لکھ نہیں سکا تھا۔ گزشتہ دنوں اس ناول کا دوبارہ مطالعہ کیا۔ اس بار مقصد یہ بھی تھا کہ اس پر اپنی رائے بھی دے سکوں۔ اس کو دوسری بار پڑھنے کے بعد ابھی تک اس کے اثرات سے نکل نہیں پایا۔ناول کے ساتھ منشی پریم چند کی ادبی خدمات پر بھی اپنے تاثرات میں آپ کو شریک کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ کاوش پسند آئے گی۔
پریم چند نے تقریباً تین سو کہانیاں، پندرہ ناول اور تین ناٹک لکھے۔ دس کتابوں کے ترجمے کئے اور ہزاروں صفحات میں دیگر تصنیفات یاد گار چھوڑیں۔ وہ فن اور خیال دونوں ہی پہلوؤں سے اول درجے کے ادیب تسلیم کئے گئے۔ان میں کبیر اور تلسی کا مشترکہ تہذیبی شعور تھا۔انہوں نے اپنے ادب کے ذریعہ ہر قسم کی تباہی بربادی اور غلامی کے خلاف آواز اٹھائی اور انسانیت پر مبنی سماج کا تصور پیش کیا۔ اس کے لئے انہیں ٹالسٹائے، گورکی، سوامی دیا نند ، وویکا نند اور مہاتما گاندھی جیسے عظیم انسانوں سے ترغیب ملی ۔ اپنی انسانیت پسندی کی وجہ سے وہ ہندوستان کے ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستانی سماج اور اس کی انسانیت کے مصنف ہیں۔پریم چند کی وجہ سے ہندی میں نئے ڈھنگ کی کہانی اور ناول کی داغ بیل پڑی۔ پریم چند نے تین سو سے زیادہ کہانیاں لکھیں جو مختلف مجموعوں میں جمع ہیں۔ ہندی میں تقریبا دو سو کہانیاں۔مان سرور، کے نام سے آٹھ جلدوں میں چھپی ہیں۔ ہندی میں رچناولی کے نام سے پریم چند کی تمام تحریریں 20 جلدوں میں شائع ہو چکی ہیں۔ اردو میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے پریم چند کی تمام تحریریں 22 جلدوں میں شائع کر دی ہیں۔پریم چند نے اپنی زندگی اور ادب دونوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو قریب لانے کے لئے کام کیا۔ اس کے لئے اردو زبان میں ہندوؤں کی زندگی سے متعلق اور ہندی میں مسلمانوں کی زندگی اور تاریخ سے متعلق افسانے، ڈرامے اور ناول لکھ کر ایک دوسرے کو قریب لانے کی کوشش کی۔۱۹۲۴ء میں شائع شدہ ان کا ڈرامہ ’’کربلا‘‘ بہت مشہور ہوا جس میں انہوں نے حضرت امام حسین کی قربانی کی لا فانی کہانی پیش کی۔انہوں نے ہندی کی سنسکرت سے وابستگی اور اردو پر فارسی کے غلبے کی مخالفت کرتے ہوئے قومی ثقافت کے فروغ کے لئے ہندوستانی زبان کی حمایت کی ۔ پریم چند کا قول تھا کہ دونوں مذاہب اور ان کے ماننے والوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔لیکن مٹھی بھر تعلیم یافتہ لوگوں نے اپنے عہدوں اور ممبریوں کے لئے ساری لڑائی کھڑی کی ہوئی ہے۔ غریبی، نا خواندگی ،بیماری اور بیکاری ہندو مسلم کا فرق نہیں کرتی۔ انہوں نے دھرم پر چلنے والے ایک اندھے بھکاری کو اپنے کامیاب ناول ’’چوگان ہستی‘‘ کا ہیرو بنایا۔ بعد میں اس کا ہندی ترجمہ ہوا۔
پریم چند کے ناول معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی گوشوں کا اس طرح محاصرہ کر تے ہیں کہ ان کے ناول ان تمام چیزوں کے ساتھ ہی ایک خاص قوم کے مزاج کے مفسر اور مبصر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں قومی زندگی کے خارجی پہلو کے ساتھ ساتھ ان کی داخلی کیفیتوں کی اس طرح عکاسی کی ہے کہ اس قوم کے جسم اور روح دونوں کے فرق عیاں ہو گئے ہیں اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ناول ہندستان کے شہروں دیہاتوں کے نچلے اور متوسط طبقوں کی تہذیبی اور قومی الجھنوں اور کشیدگی کے آئینے ہیں ۔ پریم چند کے ناول اردو ناول کی تاریخ میں زندگی اور فن کی عظمت اور بلندی کے بہترین مظہر ہیں ۔ ان میں سب سے پہلے کے ناول نگاروں نے فن کی جو روایت قائم کی تھی ۔ اسے انہوں نے وسعت ہی نہیں دی بلکہ اپنی فنی بصیرت سے ایک نیا مفہوم دیا۔ پریم چند کے ناولوں میں جہاں مارکن اور ٹالسٹائی کے نقطۂ نظر کو دخل ہے وہیں قدامت پسند ی یا مشرق پسندی بھی غالب ہے ۔
پریم چند کی ادبی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے دور کی تحریروں میں جذباتیت اور رومانیت زیادہ ہے۔ اس دور کے اہم ناول اسرار معابد، بیوہ، بازارِ حسن، اور جلوہ ایثار ہیں۔ دوسرا دور جنگ عظیم کے بعد کا ہے جب پریم چند کا شعور بیدار ہو چکا تھا۔ اس دور کے ناولوں میں کسانوں کی مفلسی اور مزدوروں کی بیچارگی کا اظہار ہے۔ عصری زندگی کی ترجمانی بھی ملتی ہے۔ اس دور کے اہم ناول گوشہ عافیت، نرملا، پردہ مجاز اور چوگان ہستی ہیں۔ تیسرے یعنی آخری دور میں پریم چند حقیت نگاری کے بہت قریب آگئے ہیں۔ اس دور کے اہم ناول میدان عمل، منگل سوتراور گئودان ہیں۔بقول مولوی عبدالحق ہندوستانی ادب میں پریم چند کے بڑے احسانات ہیں انہوں نے ادب کو زندگی کا ترجمان بنایا۔ زندگی کو شہر کے تنگ گلی کوچوں میں نہیں بلکہ دیہات کے لہلہاتے ہوئے کھیتوں میں جاکر دیکھا۔ انہوں نے بے زبانوں کو زبان دی ۔ ان کی بولی میں بولنے کی کوشش کی۔ پریم چند کے نزدیک آرٹ ایک کھونٹی ہے۔ حقیقت کو لٹکانے کے لیے۔ سماج کو وہ بہتر اور برتر بنانا چاہتے تھے اور عدم تعاون کی تحریک کے بعد یہ ان کا مشن ہو گیا تھا ۔ پریم چند ہمارے ادب کے سرتاجوں میں سے تھے۔ وقتی مسائل کی اہمیت کو انہوں نے اس شدت سے محسوس کیا کہ فن کے معیار کو قربان کر دیا۔ پریم چند کی زبان و بیان کے اسلوب کو ڈھالنے میں ان کی شعوری کوششوں کا بڑا دخل رہا ہے اس دور میں وہ گاندھی کے زیر اثر ہندوستانی زبان کے پرجوش حمایتی تھے۔ وہ مروجہ اردو اور ہندی کو ایک ہی قوم کی زبان سمجھتے تھے ۔ان کی اس کوشش سے اردو اور ہندی دونوں زبانوں کو فائدہ پہنچا۔ ہندی اور اردو زبان کے یہ الفاظ بے جان پیکر نہیں ان الفاظ سے وابستہ تصورات نے اردو کو نئی روایات، نیا ذہن اور فکر واحساس کا نیا اندازدیا۔ مثلا ًدھرم ، ادھرم ،دھرم شاستر،سنگھاسن ، آدر، اپکار، تیاگ ،آتما اور چنتا وغیر ہ ۔اردو کے ذخیرہ الفاظ میں یہ توسیع اور اضافہ پریم چند کا قابل قدر کارنامہ ہے۔ ان کی عبارتوں میں اکثر فارسی اور عربی کے الفاظ کے دوش بدوش ہندی کے ایسے الفاظ بھی مل جاتے ہیں جن سے کم ازکم اردو داں حلقہ اب تک مانوس نہیں رہا۔پریم چند کے اسلوب کی یہ بھی خوبی ہے کہ وہ رنگ آمیزی اور انشاء پردازی بہت کم کرتے ہیں۔تحریر کا سیدھا سادہ اندازاختیار کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں گہرائی اور جامعیت کے نقوش بھی ملتے ہیں۔ ان کے مقولے ان کے وسیع مشاہدے کی ترجمانی کرتے ہیں مثلاً غصہ میں آدمی حق کا اظہار نہیں کرتا وہ محض دوسروں کا دل دکھانا جانتا ہے۔منشی پریم چند کے تمام ناولوں میں سے گئودان (1936) کو سب سے بہترین کام کا درجہ حاصل ہے۔ اس میں ہندوستان کے کسانوں کی تکلیف دہ زندگی کو دکھایا گیا ہے۔ پریم چند نے دہقانوں پر ہونے والے ظلم کی نقشہ کشی کی ہے۔
پریم چند نے پہلے اردو زبان میں لکھنا شروع کیا تھا لیکن دھیرے دھیرے وہ ہندی زبان کی جانب بڑھتے گئے جبکہ گئودان تو سب سے پہلے دیوناگری رسم الخط میں لکھا گیا تھا اور اسے اقبال بہادر ورما ساحر نے اردو میں ڈھالا تھا لیکن اب بھی اسے اردو ناول ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔گئودان ایک ایسا ناول ہے کہ جس نےہندوستان میں بالائی طبقات کی زیریں طبقات کے خلاف جبر و ذیادتی کی بہت بھرپور انداز میں تصویرکشی کی ہے۔اس ناول کے کردار واضح طور پر طبقات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہوری اور دھنیاکسانوں کی،داتا دین جھنگری سنگھ اور منگرو ساہ مذہبی پیش واؤں اور ساہو کاروں کی ، رائے اگر پال سنگھ زمینداروں کی، کھنہ سرمایہ داروں کی، مہتا اور مرزا خورشید نیزاونکار ناتھ متوسط طبقہ کے دانشوروں اور قومی راہنماؤں کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں ۔ ناول کا محور ہوری ہے جو کہ کسان ہے ،اس کی موت پر ناول کا اختتام کر کے پریم چند نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انہیں سمجھوتے پر اعتقاد نہیں رہا تھا۔پریم چند نے کسانوں کی معاشی لوٹ کھسوٹ، مہاجنوں اور ا عمال حکومت کی خباثتوں کے علاوہ مذہب اور ذات پات کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔برہمنوں نے مذہب کو ہمیشہ اپنے خودغرضانہ مفاد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ان کا دین دھرم خریدا بھی جا سکتا ہے۔ اگر کوئی برہمن کسی عورت کو بغیر بیاہ کے رکھ لے تو بے دھرم نہیں ہوتا جبکہ یہی کام چمار کرے تو بے دھرم اور اس کو کفارہ دینا پڑے گا۔پریم چندنے اس ناول میں ہندوستان کے کسان کو اپنے حقوق سے آشنا بتایا ہے لیکن اس کے دکھ درد اور مسائل کم نہیں ہوئے۔ رائے اگر پال کی خباثتیں زمیندارطبقہ کی خباثتیں ہیں۔ایک طرف جاگیردارانہ سماج میں تسکین کے سامان ہیں، نفسانی خواہشات کی تکمیل ہے ،کوئی بن بیاہےکہارن کو لیے بیٹھا ہے ،کسی نے اہیرن کو گھر میں ڈال رکھا ہے اور کوئی چمارن سے جنسی پیاس بجھا رہا ہے۔ دوسری طرف گاؤں کے مزدور اورکسان معاشی ابتری کا شکار ہیں۔اس نظام کو بدلنے کی کوشش کرنے والا گوبر بھی آہستہ آہستہ سمجھوتے کرتا چلا جارہا ہے۔ تاہم اس کا سماجی شعور بیدار ہے اور اس کا بار بار یہ کہنا کہ یہی جی چاہتا ہے کہ لاٹھی اٹھاؤں اور داتا دین پٹیشوری جھنگری سب سالوں کو مار گراؤں اور ان کے پیٹ سے روپے نکال لوں۔
پریم چند نے مزدوراورسرمایہ دار کی کشمکش کو بھی موضوع بنایا ہے ۔متوسط طبقے کے وہ افراد جو مزدوروں کی راہنمائی کا دعوٰی کرتے ہیں اور سرمایہ داروں کی عیش کوشی کو حقارت سے دیکھتے ہیں لیکن وہ بھی اندر سے کھوکھلے ہیں۔وہ سب کچھ حاصل کرناچاہتے ہیں جو سرمایہ دار کے پاس ہے ۔بورژوا معاشرے کی رنگینیوں ں سے نفرت کرتے ہیں لیکن یہ سب ریاکاری اور ظاہر داری ہے۔جب کوئی حسینہ جام پیش کرے توان کے تمام اصول اور ضابطے اس جام میں ڈوب جاتے ہیں۔ناول میں پریم چند کی مذہبی بیزاری دراصل اس کچلی ہوئی انسانیت کا شدیدذہنی رد عمل تھا جسے انہوں نے اپنے فن کا موضوع بنایا۔
مسٹر مہتا پریم چند کا ایک اہم اور انکے لحاظ سے مثالی کردار ہے۔ انہوں نے اسے ایک باعمل فلسفی بتایا ہے لیکن شراب کوبرا جاننے کے باوجود وہ شراب پیتا ہے ۔پریم چند کا کرداربھی ایسا ہی تھا وہ بھی شراب پیتے تھے لیکن اسے برا جانتے تھے ۔سرمایہ داری، زمینداری ،مغربی تہذیب، گھر اور سماج میں عورت کی حیثیت اور دائرہ عمل جیسے موضوعات پرمسٹر مہتا پریم چند کی زبان سے بولتے ہیں ۔اس ناول میں پریم چند نے عورت کا سماج میں مرتبہ پر کھل کر اظہار رائے کیا ہے ۔وہ عورت کے گھر سے باہر کے کردار سے مطمئن نہیں ۔ ان کے نزدیک اس کی زندگی کا محورگرہستی ہے لیکن خدمت اور قربانی کا تقاضا وہ عورت ہی سے کرتے ہیں۔ یہ تصور پرستانہ اندازفکر ہے۔ جب مالتی مسٹر مہتا کے آدرش میں ڈھل جاتی ہے تو وہ اس سے شادی کی درخواست کرتا ہے لیکن مالتی یہ کہہ کر شادی سے انکار کر دیتی ہے کہ اس طرح ہم روحانی ارتقاء کی اعلیٰ منزلیں طے نہیں کر سکتے۔ اس طرح پریم چند مالتی کی شخصیت کو یا پڑھی لکھی عورت کی شخصیت کو مرد کی شخصیت میں ضم کرکے فنا نہیں کرنا چاہتے۔یہ مثالی محبت جومالتی اور مہتا نے اور صوفیا ، چکر دھراور منورما، سکینہ اور امر کانت، منی اور امر کانت کی صورت میں دکھانا چاہتے ہیں وہ خود اختیار نہ کر سکے۔ لیکن اس سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ وہ عورت کو مرد کی طرح آزاد اور خودمختار دیکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم وہ اسے اقدار کا پابند بھی بنانا چاہتے ہیں۔ پریم چند بنیادی طور پر مغرب زدگی کے خلاف ہیں۔ ’’گئودان ‘‘ میں پریم چند کی جبر اور سماجی ناانصافی کے خلاف آواز واشگاف ہو کر سامنے آجاتی ہے اس کی ابتداء اس ناول کے ابتدائی صفحات سے ہی ہوجاتی ہے۔ تشدد اور جبر کے ساتھ ساتھ غریب کسانوں کے ساتھ نہ ختم ہونے والا ستم اور ظلم اپنی نمایاں شکل کے ساتھ اس ناول میں نظر آتا ہے۔ گئو دان کا ہیرو ہوری ایک قسمت پرست ، تقدیر کا شاکی رہنے والا پرانی روایات کا قائل ایک بوڑھا کسان ہے۔ گوبر ایک باغی قسم کا نوجوان ہے ، جو بیگار ، ہری بوسا اور زمینداروں کے دیگر قسم کے حقوق سوائے لگان کے نہیں دینا چاہتا اور اپنی ساری عمر زمینداری اور سرمایہ داری کے خلاف اپنی وسعت بھربغاوت کر کے بسر کردیتا ہے۔ اس طرح ہوری طبقاتی مفاہمت اور گوبر طبقاتی آویزش کی مثال کے طورپر سامنے آتے ہیں۔ اس ناول میں برصغیر کے دیہی معاشرے اور اس کے اندر موجود کرداروں اور واقعات کی عکس بندی بہت خوبصورتی سے کی گئی ہے۔ سماجی و معاشرتی جبر اور سماجی ناہمواری کے رویے بھرپور طور پر اس ناول میں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ناول ہندوستانی دیہی معاشرے میں جبر اور استبداد کی ایک واضح جھلک دکھاتا ہے۔
ازقلم: اکرام الحق