ArticlesMaharashtra State Eligibility Test (MH-SET)NotesUGC NET URDU

Reportage رپورتاژ

رپورتاژ

رپورتاژ ایک صحافتی صنف ہے ۔
لاطینی زبان میں اسے Reportage اور انگریزی میں اسے Reportکہتے ہیں ۔
کسی واقعے کی خبر یا رپورٹ اس طرح تیار کی جائے کہ اس میں افسانے کا انداز پیدا ہو جائے یا اس میں قلمکار کی شخصیت جھلک اٹھے اسے رپورتاژ کہتے ہیں۔
کسی جلسہ،محفل،کانفرنس،سمپوزیم،مشاعرہ یااس نوعیت کی دیگر تقاریب کی مکمل کاروائی قلم بند کی جائے تو اسے روداد کہتے ہیں۔لیکن کوئی ادیب اسی تفصیل کوادبی چاشنی کے ساتھ چشم دیدواقعات کے طور پر شخصی تاثرات شامل کرکے ،پوری دل چسپیاں پیداکرتے ہوئے بیان کرے تو اسے رپورتاژ کہتے ہیں۔
بنیادی طور پر رپورتاژ ادبی اور فنی خصوصیات سے مالا مال مضمون ہوتاہے۔رپورتاژ نگار علمی وادبی جولانی کے ساتھ ادب کے اہم نکات کو شامل کرکے ایسی دل چسپ رپورٹ تیار کرتاہے جس میں باریک بینی اور بذلہ سنجی کو بھی دخل ہوتاہے۔
اردومیں سب سے پہلے کرشن چندرنے ’’پودے ‘‘لکھ کر رپورتاژ نگاری کی بنیاد رکھی۔
کرشن چندر کے بعد اردوکے بیشتر ترقی پسند تحریک کے قلم کاروں نے اس صنف میں طبع آزمائی کی اور دورِ حاضر میں بھی اس صنف کی اہمیت میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔
بعض محققین کا ماننا ہے کہ حمید اختر رپورتاژ کے موجد ہیں۔
حمید اختر نے سب سے پہلے انجمن ترقی پسند مصنفین کی روداد ادبی زبان اور محاکاتی انداز میں پیش کر کے اُردو داں حلقے کو رپورتاژ سے روشناس کرایا تھا۔

اہم رپورتاژ

۱) قدرت اﷲ شہاب : اے بنی اسرائیل
۲) سجاد حیدر یلدرم : سفر بغداد
۳) سجاد ظہیر : یادیں
۴) رضیہ سجاد ظہیر : امن کا کارواں
۵) کرشن چندر : پودے ،صبح ہوتی ہے
۷) شاہد مہدی : شہر طرب
۸) قرۃ العین حیدر : لندن لیٹر ،دکن ساٹھار نہیںسنسار میں ،کوہِ دماوند، ستمبر کا چاند، گلگشت
۱۳) ابراہیم جلیس : دو ملک کی کہانی ،جیل کے دن جیل کی راتیں، شہر، سپید اور سرخ ستاروں کے درمیان
۱۷) خواجہ احمد عباس : سرخ زمیں اور پانچ ستارے
۱۸) عصمت چغتائی : بمبئی سے بھوپال تک ، یہاں سے وہاں تک
۱۹) فکر تونسوی : چھٹا دریا
۲۰) رام لعل : احساس کی یاترا
۲۱) زہرہ جمال : ۵؍ ستمبر کی رات
۲۲) عتیق اﷲ : خالی ہاتھ
۲۳) جمنا داس اختر : اور خدا دیکھتا ہے
۲۴) عبداﷲ ملک : مستقبل ہمارا ہے
۲۵) خدیجہ مستور : پوپھٹے
۲۶) صفیہ اختر : ایک ہنگامہ
۲۷) پرکاش پنڈت : کہت کبیر
۲۸) انوار عظیم : پھول پتی ہیرے کا جگر
۲۹) علی احمد فاطمی : جڑیں اور کونپلیں
۳۰) تاجور سامری : جب بندھن ٹوٹے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!