رباعی
رباعی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی چار چار کے ہیں۔
شاعرانہ مضمون میں رباعی اس صنف کا نام ہے جس میں چار مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جاتا ہے۔
رباعی کے پہلے ،دوسرے اور چوتھے مصرعے میں قافیہ لانا ضروری ہے، تیسرے مصرعے میں اگر قافیہ لایا جائے تو کوئی عیب نہیں۔
رباعی کے آخری دو مصرعے خاص کر چوتھے مصرع پر ساری رباعی کا حسن و اثر اور زور کا انحصار ہے۔
رباعی کے مختلف نام ہیں: رباعی ، ترانہ اور دو بیتی بعض نے چہار مصرعی ، خفتی اور خصی بھی لکھا ہے۔
مولانااحمدرضا کی ایک رباعی ملاحظہ فرمائیں
اللہ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ
اِن سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قران تو ایمان بتاتا ہے انہیں
ایمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ
ایسی رباعی کو جس کاتیسرا مصرع غیر مقفع ہو ،اسے خصی کہا جاتا ہے ۔
ایسی رباعی کو جس کے چاروں مصرعے مقفع ہو ، اسے غیر خصی کہا جاتا ہے ۔
رباعی کے لیے صرف ایک بحر اور چوبیس اوزان مختص ہیں۔
رباعی کے لیے صرف ایک بحر “بحر ہزج ”مختص ہے ۔ (نیٹ : جون 2019ء)
رباعی فارسی سے اُردو میں آئی ہے ۔
فارسی کا پہلا رباعی گو شاعر “رودکی ” کو قرار دیا جاتا ہے ۔
اُردو کے پہلے رباعی گو شاعر محمد قلی قطب شاہ ہے ۔
دکنی شاعر میر عبدالقادرنے 1700ءمیں اُردو کی پہلی رباعی کہی تھی۔
اُردو کے اہم رباعی گو شعرا :
محمد قلی قطب شاہ ، میر عبدالقادر ، امجد حیدرآبادی ، انیس ، جگت موہن لال رواں ، فراق ، امیر مینائی ، حالی ، شاد ، فضل حق آزاد ، اکبر۔