پروفیسر خورشید الاسلام کی تنقید نگاری


پروفیسر خورشید الاسلام کو عام طور پر جمالیاتی یا تاثراتی نقاد خیال کیا جاتا ہے بلکہ بعض اصحاب نے تو ان کے تنقیدی مضامین کو تنقیدی انشائیے کہا ہے۔یہ بات بس کسی حد تک ہی درست ہے۔اس میں شک نہیں کہ وہ ہمارے زمانے کے بہترین انشا پرداز ہیں اُن کی انشاءپردازی نے نامور علمائے ادب سے داد تحسین حاصل کی ہے مگر اردو تنقید میں انکا مقام صرف اس انشاپردازی کی بدولت نہیں۔انھوں نے شعر وادب کے مسائل پر غور کیا ہے، ان پر اپنی جچی تلی رائے دی ہے اور اپنے تنقیدی تصورات کی روشنی میں فن پاروں اور فنکاروں کو پرکھا ہے۔
خورشید الاسلام کی تنقید ارتقاء کے مختلف مراحل سے گزری ہے۔ترقی پسند تحریک نے جب اپنا سفر شروع کیا تو خوشید الاسلام نے اسے ایک مبارک سفر قرار دیا اور اس سے زندگی اور ادب دونوں کے فروغ کی امیدیں وابستہ کیں۔انہیں اعتراف ہے کہ ترقی پسند تحریک نے ادیبوں کو اپنے ماحول اور ملکی فضا کی آگہی بخشی اور ادیبوں کو دنیا کا شہری ہونے کا احساس دلایا۔لیکن جب ترقی پسند ادب پر فارمولوں کی گرفت سخت ہوتی چلی گئی تو اس سے مایوس ہوگئے۔ انہوں نے کہا ہے کہ:
 “فارمولوں کی گرفت سخت ہوتی گئی، اور وہ جتنی سخت ہوتی گئی اتنی ہی جھوٹے ادیبوں پر سہل ہوتی گئی۔اس سے زیادہ آسان بات اور کیا ہو سکتی تھی کہ کوریا پر نظم لکھ دی جائے،اس کے لئے اخبار کا اداریہ کافی تھا۔جتنی دیر گیارہ بار اللہ شافعی کہنے میں لگتی ہے اتنی دیر میں نظم تیار ہوجاتی تھی۔نظم جس چوک میں سنائی جاتی تھی وہاں دو لاکھ کا مجمع داددینے کو حاضر ہوتا تھا۔
طرفہ تماشہ یہ کہ مجمع کو یونانیوں کا مجمع بتایا جاتا تھا جس نے یونانی المیہ پر جو رائے دے دی ہے اسے بڑے سے بڑا اہل نظر آج تک مسترد نہ کرسکا۔چناچہ اس مجمع نے کئی بڑے شاعر پیدا کیے جو مجمع میں یوں آتے تھے جیسے عوج بن عنق سمندر میں اپنی پنڈ یاں دھونے کے لیے اتر رہا ہو۔کئی ایسے نقاد بھی پیدا ہوئے جن کی متاع ادبی ذوق کے علاوہ شاید بہت کچھ تھی ان نقادوں نے بے شمار لوگوں کے ساتھ یہ سلوک کیا کہ ان سے ادبی لطیف اندوزی کا جوہر چھین لیا۔”
خوشید الاسلام آخر کار اس نتیجے پر پہنچے کہ اشتراکی حقیقت نگاری کا تصور ناقص و نا کافی ہے،بنیادی قدر شحصی آزادی ہے، ضرورت ہے کہ قوت متخیلہ خارجی دباؤ سے آزاد ہو،موضوع کی تخصیص ادب کے لیے مہلک ہے،ادیب کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی خاص نقطہ نظر کو اختیار کرے،ادیبوں کی تنظیم کے ہمیشہ برے نتیجے نکلے ہیں اور ادب کے سلسلے میں پہلی شرط یہ ہے کہ وہ ادب ہو۔
یہ ہے ادب کے سلسلے میں خورشید اسلام کا نقطہ نظر۔ان کے تمام مضامین و تصانیف کا مطالعہ کیے بغیر یہ غلط فیصلہ صادر کردیا گیا کہ وہ محض تاثراتی نقاد ہیں۔انہوں نے دو جگہ اپنی تنقید کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے جس سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی۔انہوں نے لکھا ہے:
“میرا نصب العین یہ رہتا ہے کہ ایک فن پارے کو دوبارہ تخلیق کیا جائے ۔اس طور سے کہ اس میں شخص،فن اور زمانہ ہم آہنگ نظر آئیں”
فن اور فنکار کو پرکھنے کے لیے انہوں نے نفسیات کا بھی سہارا لیا اور شعر و ادب میں جمالیاتی اقدار کی بھی تلاش کی۔فنکار سے ان کا پہلا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی تخلیق میں فنی تکمیل موجود ہو۔فن اور فنکار کو وہ ایک مکمل اکائی مانتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ:
“فن ایک آزاد مملکت ہے۔ اس میں سب کچھ شامل ہوتا ہے لیکن جب وہ تکمیل کو پہنچ کر ظہور میں آتا ہے تو یہ سب کچھ یعنی فلسفہ، مذہب، سائنس اور سیاست اس میں حل ہوچکے ہوتے ہیں کہ ان میں علیحدہ علیحدہ نہ کسی کی صورت پہچانی جاسکتی ہے اور نہ ان کا ذائقہ چکھا جا سکتا ہے اور اسی لیے ادب کو فارمولوں سے نہیں جانچا جاسکتا”
مرزا ہادی کی کفایت لفظی انہیں عزیز ہے،فغانی کے کلام کو اس لیے پسند کرتے ہیں کہ وہ وسیع مضمون کو مختصر لفظوں میں ادا کردیتا ہے،غالب کے تلازمات، تشبیہات و استعارات اور ان کی رنگارنگی پروفیسر خورشید اسلام کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔وہ ہر لفظ کی اپنی جداگانہ حیثیت اور منفرد کردار کے قائل ہیں کہ یہ پڑھے جانے کے ساتھ ساتھ دیکھا بھی جاتا ہے اور یوں ایک بصری حیثیت بھی رکھتا ہے ان کی تنقید کا کینوس وسیع ہے۔وہ ادب کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں اور جمالیات بھی ان میں سے ایک اہم زاویہ ہے۔

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!