ArticlesAtaurrahman Noori Articles
Teacher’s Day
اساتذۂ کرام معلم کائنات ﷺکی سیرت سے
طریقۂ درس وتدریس حاصل کرتے ہوئے اپنے منصب سے انصاف کریں
از: عطاء الرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)، مالیگاؤں
نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ قیامت تک انسانیت کے لیے پیشوائی و رہنمائی کا نمونہ ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔ ترجمہ: ’’بے شک تمھیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے‘‘ ۔ (سورۂ احزاب) زندگی کے جملہ پہلوؤں کی طرح معلم کی حیثیت سے بھی نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس ایک منفرد اور بے مثل مقام رکھتی ہے۔ نبوت اور تعلیم و تربیت آپس میں لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے آپ نے اپنے منصب سے متعلق ارشاد فرمایا، ترجمہ:’’بے شک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘۔ آپ ﷺ ایسے معلم تھے جن کی تعلیم و تدریس نے صحرا کے بدوؤں کو پورے عالم کی قیادت کے لیے ایسے شاندار اوصاف اور اعلیٰ اخلاق سے مزین کیا جس کی مثال تاریخ انسانیت میں کہیں نہیں ملتی۔ آپ ﷺ کی تعلیم و تربیت، کردار، قول و فعل میں ہم آہنگی، راست بازی، تحمل و برداشت، ایثار، عدل و استقامت اور ان جیسی بے شمار خوبیوں نے کفر و جہالت کی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اسلام کی شمع روشن کی۔
اس درخشاں حقیقت سے کون ذی علم و شعور انکار کر سکتا ہے کہ معلم کائنات ﷺ کی ولادت باسعادت سے قبل انسانیت کے ساتھ جو کھیل کھیلا جا رہا تھا وہ کتنا بہیمانہ و سفاکانہ تھا۔ آپ کی بعثت مبارکہ کا اوّلین مقصداخلاق اور اعمال حسنہ کی تعلیمات کو عام کرنا تھا۔ تمام اعلیٰ اخلاقی اقدار جن میں صداقت وعدالت، امانت ودیانت، صبرو تحمل، عفوو درگزر، عد ل و احسان، سخاوت و شجاعت، صبرو استقلال، انسانی حقوق کی امور و اسرار کی تعلیم، انسانوں کے ساتھ ہمدردی، خیرخواہی، صلہ رحمی، احسان و بھلائی اور رواداری جیسی درخشاں و جاوید تعلیم شامل ہیں۔ یہ آپ کی معلمانہ صلاحیتوں کا ہی کرشمہ ہے کہ آپ نے جہالت، تعصب، تفاخر اور ہوسِ اقتدار کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں غرق دنیا کو بقعۂ نور بنا دیا۔ دنیا کے ہر حصے میں طبقات کا فرق تھا لیکن آپ ہی وہ معلم مساوات تھے جنھوں نے درس مساوات کے ذریعے ببانگ دہل دنیا کو بتادیا کہ عربی و عجمی، کالے و گورے اور آقا و غلام میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ اگر کوئی تمیز ہے تو وہ تقویٰ و طہارت اور علم و حکمت کا ہے۔
حضور ﷺ نے مکہ سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین کو مدینہ میں رہنے والے انصار کا بھائی بنا دیا اور یہ بھائی چارہ قائم کر کے اسلامی مواخات کی وہ مثال قائم کی جو آج تک دنیا نہ پیش کر سکی۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے مسجد کے ساتھ بنے ایک بڑے سے چبوترے پر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا جس میں وہ اصحاب جو مجرد تھے، شامل تھے، وہ اسی چبوترے پر رہا کرتے تھے اور تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ چبوترے کو عربی میں ’’صفہ‘‘ کہتے ہیں چنانچہ یہ ’’اصحاب صفہ‘‘ کہلائے اور اس طرح اسلامی تاریخ کا پہلا اسکول ’’دارِ ارقم‘‘ کے نام سے اصحاب صفہ کا قائم ہوا۔ یہاں درس و تدریس کا سلسلہ روایتی نہ تھا بلکہ طالب علم پیغمبر اسلام ﷺ سے درس لیتے، ادب سے سنتے اور ذہن نشین کرتے۔ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ ’’ہم اس طرح خاموش مؤدب بیٹھا کرتے تھے گویا ہمارے سروں پر پرندہ بیٹھا ہو اور ہمارے حرکت کرنے پر وہ اُڑ جائے گا۔‘‘
یہاں پیچیدہ نکات پر بحث ہوتی، علمی مسائل بیان کیے جاتے، ذہن کی گتھیوں کو سلجھایا جاتا، تاریخ کے حوالوں پر بحث ہوتی، ماضی کے قصے بیان کیے جاتے، حال کی مثالیں سامنے لائی جاتیں، مستقبل کے خوش آئند امکانات کا ذکر ہوتا، قرآنی قصص پڑھے جاتے، عقائد کا بیان ہوتا، عذاب کا، دوزخ کا ذکر ہوتا، حشر کے ہولناک دن کی حشر سامانیوں سے ڈرایا جاتا، جنت کی نعمتوں کی خوش خبری دی جاتی، نیت کے خالص ہونے پر جزا و سزا کا تعین، نتائج سے بے پروا عمل، سعی مطلوب کا تذکرہ ہوتا۔ یہ روایتی مدرسہ تو تھا نہیں بلکہ یہ تو پیارے نبی ﷺ کی محفل تھی، یہاں سب کچھ تھا، یہ قومی لیکچر ہال بھی تھا، یہ سرکاری مہمان خانہ بھی تھا، یہ جمہوری دارالعلوم بھی تھا، یہ حکومت کا دربار بھی تھا اور یہ مشورے کا ایوان بھی تھا۔ معلم کائناتﷺ کا مقصد تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو پہچانیں۔ آج کے معلمین اور اساتذہ ٔکرام کو بھی چاہیے کہ وہ آپ ﷺ کے اوصاف کو اپناتے ہوئے اپنے معلمانہ پیشے کے فرائض کو بخوبی ادا کر سکتے ہیں اور لوگوں کی رہنمائی اور بھلائی کا فریضہ بہترین طریقہ سے سرانجام دے سکتے ہیں۔