فن مقالہ نگاری

ہندوستان میں اردو مقالہ نگاری کی عمر تقریباً دوسوبرس ہے۔گزشتہ دوصدیوں سے جاری مقالہ نگاری کے اس عمل میں کچھ سالوں سے تیزی آئی ہے اور دینی وعصری جامعات کے طلبا کا تحقیق وتدقیق کی جانب کافی حد تک طبعی میلان ہوا ہے۔ مقالہ نگاری کا تعلق علم ومطالعہ، تحقیق وتدقیق اور فکروفن سے گہرے طور پر ہے، جس میں ایک مقالہ نگار کو اپنے اندر ان تمام خوبیوں کو پیدا کرنا ہوتا ہے، تب جا کر وہ مقالہ نگاری کے مراحل کو طے کرنے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔ مقالہ نگاری کرنا کتنا آسان اور کتنا مشکل ہے، اس کا اندازہ بھی وہی کرسکتا ہے، جو اس کے مراحل طے کر رہا ہو۔

مقالہ دراصل عربی زبان کا ایک لفظ ہے، جس کے معانی ’’قول، مقولہ، کہی ہوئی بات اور کلام‘‘ کے آتے ہیں ۔

اُردو زبان میں یہ لفظ1874ء کو خواجہ الطاف حسین حالی کی ایک کتاب’’ مجالس النساء‘‘میں مستعمل ملتاہے۔چناں چہ حالی اپنی کتاب کی پانچویں مجلس میں زبیدہ خاتون کے تذکرہ میں لکھتے ہیں:’’جب مجھے تیرہواں سال لگا اور فارسی میں گل ستاں،بو ستاں ،اخلاقِ محسنی،عیاردانش اور عربی صرف ونحو کے ضروری ضروری رسالے پڑھ چکی اور حساب میں کسورِ عام اور کسور اعشاری تک سیکھ چکی اور تحریر اقلیدس کے دومقالے دیکھ لیے‘‘۔(مجالس النساء،ص:102)

اسی طرح کسی موضوع پر علمی،تحقیقی،فکری اور ادبی تحریر یا کسی اور نوعیت کا تفصیلی مضمون ،کسی خاص موضوع پر علمی وتحقیقی انداز میں تحریری اظہار خیال جو کسی سند حاصل کرنے کے لیے طالبِ علم کی جانب سے پیش کیا جائے وہ مقالہ کہلاتاہے۔

ویسے تو مقالہ کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں،تاہم اتنا ضرور ہے کہ مقالہ کا معنیٰ ومفہوم سب کے نزدیک یہی ہے ،جواوپر ذکر کیا گیا۔مقالے کئی طرح کے ہوتے ہیں ۔مثلاً: ایم اے اور ایم فل کے لیے لکھے جانے والے علمی وتحقیقی مقالے کو Dissertationکہتے ہیں،جو تقریباًسویا ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ہوتاہے۔ اور پی ایچ ڈی یعنی ڈاکٹریٹ کے لیے لکھے جانے والے علمی وتحقیقی مقالے کو Thesisکہتے ہیں،جو کئی سوصفحات پر محیط ہوتاہے۔بہت سے مقالات ایسے بھی ہوتے ہیں ،جو بغیر کسی سند (Degree)کے لیے لکھے جاتے ہیں، ان کی نوعیت بھی ان متذکرہ بالامقالات سے قدرے مختلف نہیں ہوتی ہے،فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ کسی ادارے سے ایم اے ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے لکھے جانے والے مقالے سندی ہوتے ہیں اور بغیر کسی ادارے کے اپنی قلمی ،ادبی اورتحقیقی صلاحیت ومہارت سے لکھے جانے والے مقالے غیر سندی ہوتے ہیں۔ دوسری قسم کے مقالے ہمیں عام طور پر رسائل وجرائداوراخبارات میں بکثرت پڑھنے کو ملنے ہیں۔ لیکن دونوں طرح کے مقالات تحقیق کے زمرے میں آتے ہیں ۔جیساکہ ڈاکٹر گیان چند اپنی شہرتِ زمانہ تصنیف’’تحقیق کا فن‘‘ میں تحقیقی مقالے کی تعریف لکھتے ہیں:

’’تحقیقی مقالہ وہ تحریر ہے،جس میں زیرِ تحقیق موضوع کے متعلق جملہ مواد کو پیش کیا جاتاہے اور اس کے بعد مناسب نتائج اخذ کیے جاتے ہیں‘‘۔(تحقیق کا فن،ص:67)یہ تعریف دونوں طرح(سندی وغیر سندی)کے مقالات کو شامل ہے۔

آج مقالہ نگاری کے حوالے سے کالجیز،یونی ورسیٹیز اور مدارس میں کافی حد تک احساس وشعور بیدار ہوا ہے،جہاں بکثرت کانفرنسز،سیمنارز اوردیگر مسابقاتی پروگرامات منعقد ہورہے ہیں اور طلبا میں اس کو لے ایک طرح کا رجحان بھی دیکھنے کو مل رہاہے ،جو ان کو زبان وادب ،اس کے طرق واسالیب ،علم ومطالعہ اورتحقیق وتدقیق سے قریب کرنے میں بہت زیادہ ممدومعاون ثابت ہورہے ہیں۔یقیناً اس طرح کے پروگرامات طلبا کے اندر ذوق واشتیاق پیداکرنے کے لیے ایک اچھی پیش رفت ہے،جس سے نہ صرف طلبا کے اندر علم میں پختگی وبالیدگی،ذہن میں وسعت وکشادگی،مطالعے میں گہرائی اور تحقیق وتدقیق کا مادہ پیدا ہوگا،بل کہ وہ اچھے نکتہ داں،محقق،قلم کار اور غیر معمولی صلاحیت وقابلیت کے مالک بنیں گے۔

یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ ہمارے یہاں ہندوستان میں مذہبی ،سماجی اور سیاسی شخصیات پر تحقیقی مقالات لکھنے کا رواج بہت زیادہ عام ہے ،حالاں کہ اس کے بر عکس مغربی ممالک میں مذہبی،تاریخی،سماجی،اقتصادی اور سیاسی علوم پر مقالات لکھنے کا رجحان زیادہ ہے،یہی وجہ ہے کہ وہاں ان تمام علوم وفنون کے ماہرین اور تجزیہ نگاروافر تعدادمیںپایے جاتے ہیں ،اس کے علاوہ بڑے بڑے مذہبی اسکالر،تاریخ نویس،سماجی خدمت گزار،ماہرِ معاشیات اور وسیع فکر رکھنے والے سیاست دانوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ محققین اور مقالہ نگاران کواس جانب اپنی عنانِ توجہ منعطف کرنے کی ضرورت ہے۔

مقالہ نگار کو تحقیقی مقالے کے لیے انتخابِ موضوع،خاکۂ تحقیق کی تیاری،مصادرومراجع کی تحدید،علمی مواد کی ذخیرہ اندوزی،مقالے کی تسویدوتبیض،قواعد واصول کی پابندی اور مقالے کی حوالہ بندی وغیرہ جیسے کئی ایک مراحل اور مشکل گزار راستوں سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے،اس کے بعد وہ ایک علمی وتحقیقی مقالہ تیار کرنے میں کامیاب ہوتاہے۔
یہاں مقالہ نگاران اور طلبا کے لیے چند باتیں پیش کی جارہی ہیں،جنہیں ذہن میں رکھنا ضروری ہے،جس سے ایک تحقیقی مقالہ تیار کرنے میں مدد ملے گی:

٭ مقالہ نگار کو اپنی دل چسپی اورمیلانِ طبع کے مطابق ہی موضوعِ تحقیق کا انتخاب کرنا چاہیے۔بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مقالہ نگار اپنی طبیعت کے میلان سے ہٹ کو موضوع کا انتخاب کربیٹھتاہے اور پھر اس موضوع میں دل چسپی نہ ہونے کے باعث وہ مقالہ تحقیق کے معیارومنہج پر کھرانہیں اُترپاتاہے۔لہٰذا اپنی طبیعت کے میلان اورعلمی وفنی دل چسپی ہی کے مطابق موضوعِ تحقیق کا انتخاب کرے۔بہتر تو یہ ہے کہ موضوعِ تحقیق انسانی ومعاشرتی زندگی اورعلوم وفنون کے کسی ایک شعبے کو بنانا چاہیے۔

٭ موضوعِ تحقیق کے بعددوسرا مرحلہ خاکہ بندی کا ہوتاہے،جو مقررہ مدت میں تیار کرنا پڑتا ہے۔یہ ایک طرح سے علمی وتحقیقی مقالے کا خلاصہ ہوتاہے ،جسے ہندوستانی عصری اداروں میں سناپسس(Synopsis)کہاجاتاہے۔اورمغربی ممالک میں آؤٹ-لائن (OUT-LINE)کہاجاتاہے۔اسے یو بھی سمجھا جاسکتاہے کہ جس طرح ایک معمار یا انجینئر مکان کی تعمیر سے پہلے اس کاایک ڈھانچا(Structure)تیار کرتاہے ،جس کو سامنے رکھ کر وہ مکان کی تعمیر کرتاہے ،کچھ اسی طرح علمی،تحقیقی اور تفصیلی مقالے کے لیے ایک خاکہ ہوتاہے ،جس کو سامنے رکھ کر مقالہ تیار کیا جاتاہے۔اس میں کوشش یہ ہونی چاہیے کہ خاکہ بندی علمی ،تحقیقی اورمستند مواد پر کی جائے۔

٭ ایک مقالہ نگار کے لیے زبان وبیان کی رعایت اورمبالغہ و غیر ضروری الفاظ سے حزم واحتیاط بہت ہی ضروری ہے۔اسی طرح ایجازواطناب کا خیال بھی نہایت ہی ضروری ہے،مقالہ اتنا مختصر بھی نہ کہ مفہوم غیر واضح ہواور قاری کو سمجھنے اور نتیجہ اخذ کرنے میں دشواری در پیش ہو اور اتنا طویل بھی نہ ہو کہ ایک قاری اس سے اکتاہٹ اوربیزاری محسوس کرے۔بل کہ تحریر وتحقیق کا اسلوب ایسا ہونا چاہیے کہ مختصر الفاظ میں اپنے مافی الضمیر کی دائیگی کما حقہ‘ ہوجائے۔اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ عمدہ اسلوب ،نت نئی اصطلاحات وتراکیب اور الفاظ وجُمل کی بہتر رعایت تحریر میں حسن ونکھار اور کشش وجاذبیت پیدا کردیتی ہے۔

٭ مقالہ نگاری کے لیے سب سے بڑا مرحلہ مواد کی فراہمی ہے،جو موضوعِ تحقیق کے لیے بنیادی حیثیت رکھتاہے۔ایک مقالہ نگاراور تحقیق کے طالبِ علم کو ذاتی کتب خانوں اورعوامی لائبریریوں سے خوب استفادہ کرنا چاہیے ،اور وہاں اپنی ضرورت اور موضوع سے متعلق کتب ورسائل، مخطوطات ومکتوبات اور لغات ومعاجم سے رشتہ استواررکھنا چاہیے،تاکہ مقالے کی تسوید وتحریر میں کافی حد تک مددمل سکے۔ان کے علاوہ اور بھی بہت سے نکات ہیں ،جو تفصیل کا تقاضا کرتے ہیں ،ہم نے یہاں صرف ان ہی نکات کو بیان کیا،جوتحقیقی مقالہ نگاری کے لیے بنیادی درجہ رکھتے ہیں۔

اسی طرح آج بہت سے مقالہ نگاران کو دیکھا جاتاہے کہ وہ مقالے کا ایک اچھا عنوان منتخب کرلیتے ہیں،اس کے لیے خاطر خواہ مواد بھی جمع کرلیتے ہیں ،لیکن وہ تحقیقی مقالے کے اصول ومبادیات اور خاکے سے ناواقف رہتے ہیں ،جس کے سبب وہ متأثر کن، جامع اور تحقیقی مقالہ تیار نہیں کر پاتے ہیں ۔ایسے مقالہ نگاروں کے لیے محب محترم جناب عطاء الرحمٰن نوری کی یہ کتاب ایک مسیحا ثابت ہوگی ،جس پر موصوف نے نہایت ہی عرق ریزی ،جاں فشانی اورانتھک محنت وکوشش سے کام کیا ہے۔

زیرِ نظر کتاب ’’مقالہ نگاری کے مراحل‘‘محبِ محترم جناب عطاء الرحمٰن نوری کی ایک علمی و تحقیقی کاوش ہے، جو اپنے موضوع پر ایک گراں قدر تحفہ کی حیثیت رکھتی ہے ،جس کے لیے آں جناب نے بھرپور مطالعے سے کام لیاہے۔ان کا اسلوبِ تحریر شفاف اور طریقِ مطالعہ معروضی ہے۔ سچ کہوں تو یہ کتاب اپنے موضوع کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔یہ اپنے موضوع پر مختصر مگر جامع اور تحقیقی کتاب ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس سے پہلے اس گراں بہا موضوع پر کئی ایک کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ،جن میں ’’تحقیق کا فن‘‘،’’تحقیق وتدوین کا طریقۂ کار‘‘اوراصولِ تحقیق وترتیبِ متن وغیرہ قابلِ ذکر ہیں،جو اس موضوع پر مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں،لیکن ماضی قریب کی تاریخ میں میرے مطالعہ میںمنظر عام پر آنے والی یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے،جس کے لیے مؤلف مبارک باد کے مستحق ہیں۔

گوناگوں مصروفیات کے باوجود موضوع کی افادیت کے پیش نظر موصوف کی اس کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا،کتاب کو درست اور تحقیقی معلومات پر مبنی پایا۔مؤلف نے تحقیق کے تمام اصول وقواعد اور مناہج واسالیب کو سہل اور آسان طریقے سے مکمل اور بہتر انداز میں پیش کیا ہے۔انتخابِ موضوع سے لے کر مقالہ کی جلد بندی تک تمام مراحل کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔یقیناًیہ مدارس وجامعات اور ایم اے،ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبا کے لیے باالخصوص بہترین راہ نما اصول کتاب ہے۔
یہ بات اور بھی زیادہ توجہ طلب اور باعثِ مسرت ہے کہ یہ کتاب مالیگاؤں کے ’’ اُردو کتاب میلہ‘‘ کے اہم اورسنہرے موقع پر رحمانی پبلی کیشن ،مالیگاؤںکے تعاون سے منظرِ عام پر آرہی ہے۔

اس کتاب کے مؤلف صدیقِ محترم عطاء الرحمٰن نوری علم وادب کے شناور،صاحب ِ طرز ادیب،مایہ ناز قلم کار،بلند پایہ صحافی، سنی دعوتِ اسلامی کے عالمی میڈیا انچارج،دین کے عظیم مبلغ ،سنجیدہ فکر،اخلاق وکردار کے پیکراور ان سب پر مستزاد یہ کہ ایک محنتی طالب علم ہیں۔اس کے علاوہ موصوف نصف درجن سے زائداہم اوروقیع کتابوں کے مصنف ہیں اورموصوف کے تقریباً ایک ہزار دینی،علمی،فکری،اصلاحی،اور سماجی مضامین ملک وبیرون ملک کے جرائد ورسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔گوناگوں خوبیوں کے مالک عطاء الرحمٰن نوری اپنے نام کی طرح اسمِ بامسمیٰ شخصیت ہیں۔عطاء الرحمٰن کے لغوی معنیٰ ہیں،’’رحمٰن کی عطا ‘‘اور واقعی اتنی کم عمری میں بڑے سے بڑا کارنامہ انجام دینے والے کو رحمٰن کی عطا ہی کہا جائے گا۔مولیٰ تعالیٰ موصوف کے علم وعمل اور عمر میں برکتیں عطافرمائے اور اس کاوش کوبھی دیگر کتب کی طرح قبولِ عام بخشے۔

ایں دعاازمن وازجملہ جہاں آمین باد
محمد محسن رضا ضیائی
مدیرِ اعلیٰ ‘ماہ نامہ انوارِ ہاشمی،بیجاپور/مترجم وکالم نگار ،پونہ سٹی،مہاراشٹر
۲۷؍محرم الحرام۱۴۳۹ھ/۱۸؍اکتوبر۲۰۱۷ء بروز بدھ

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!