ArticlesISLAMIC KNOWLEDGE
Masajid ki Hifazat Aur Hamari Rawish مسجدوں کے تحفظ کا مسئلہ اور ہماری روش
مسجدوں کے تحفظ کا مسئلہ اور ہماری روش
تحریر:۔ خالد ایوب مصباحی شیرانی
اب تو آئے دن ملک کے الگ الگ حصوں سے ائمہ اور مؤذنوں کے پٹنے بلکہ قتل ہونے کی واردات سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ کئی جگہ مسجدوں میں گندی اور غلیظ اشیا بکھیر دی جاتی ہیں۔ کچھ مسجدوں میں حرام و حلال متنازع جانوروں کا گوشت ڈال کر دنگا بھڑکانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ کچھ مسجدیں پہلے سے متنازع ہوتی ہیں اور کچھ مسجدیں اغیار سے گھری ہوتی ہیں۔ غرض کئی درجن مسائل ہیں جن کی زد میں آنے کی وجہ سے کوئی ہزاروں مسجدیں، ان کے ائمہ اور ان کے مصلی کبھی بھی ایک مخصوص ٹولی کا نشانہ بن سکتے ہیں لیکن اسے وقت کا المیہ کہا جائے کہ یہ طبقہ اپنے تحفظ کے تعلق سے اتنا فکر مند نہیں جتنا ہونا چاہیے۔
اس موقع پر افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ فی الوقت ملک کی باگ ڈور پوری طرح ایک مخصوص نظریہ والی ٹولی کے حوالے ہے اور عملاً ملک انارکی کا شکار ہے۔ آئے دن ایسے قانون بھی مرتب ہو رہے ہیں جن کی براہ راست مسجدوں پر زد پڑے۔ پچھلے کچھ سالوں سے بشمول دیگر مذہبی عبادت گاہوں کے نئی مسجدوں کی تعمیر موقوف ہے۔ تاہم اگر کہیں سخت ضرورت محسوس ہو اور علاقے کے باشندے حکومت کو اپنی ضرورت باور کروانے میں کام یاب ہو جائیں ، یا پرانی مسجدوں کی معقول توسیع کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ اس لیے ہر مسجد کمیٹی کو اس طرح کے اصول و ضوابط سے آگاہی ضروری ہے تاکہ کوئی پریشانی نہ ہو۔
البتہ اس سلسلے میں سب سے زیادہ قابل اہتمام پہلو یہ ہونا چاہیے کہ پہلے سے تعمیر شدہ مسجدوں کا رجسٹریشن ضرور ہوکیوں کہ جیسے نئی مسجدوں کی تعمیر ایک مسئلہ ہے، اسی طرح متنازع ہونے یا نیا تنازع کھڑا ہونے کی صورت میں سب سے زیادہ مشکل کام رجسٹریشن کا ہی ہوتا ہے۔ غیر طبقہ ان مسجدوں کو بالخصوص ٹارگیٹ کرتا ہے جن کا رجسٹریشن نہیں ہوتا اور یہ بھی اتفاق ہے کہ بالعموم سادہ لوح مسلمان جیسے کاغذی کاروائی میں کچے ہوتے ہیں، غیر اتنے ہی پختہ کار اور سازشی ہوتے ہیں۔ لیکن بہر حال ان کی سازشوں کو دخل اندازی کا موقع اسی وقت ملتا ہے، جب ہماری کم زوریاں غالب ہوتی ہیں۔
نئی مسجدوں کی طرح پرانی مسجدوں کے ناپ تول کا ریکارڈ بھی پوری طرح مین ٹین ہونا چاہیے کیوں کہ ہر چند سال کے بعد حکومت کی طرف سے پرانی مسجدوں کی ناپ چوکڑی ہوتی ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہیں مسجدوں کی تنگی اوروسعت کے ساتھ چھیڑ خانی تو نہیں ہو رہی ہے۔ اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ کمیٹیاں اپنا ریکارڈ مین ٹین کرنے میں ذرا بھی تساہلی سے کام نہ لیں۔
حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر سنگھ پریوار سے متعلق کوئی دو درجن تنظیموں کے ایسے لیٹر ہیڈ گشت کر رہے تھے جن کی تحریروں میں ضلع اجمیر کی مسجدوں کے انہدام کے مطالبات تھے۔ یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی کہ ضلع اجمیر اور مضافات میں فرقہ اہل حدیث نے غیر ملکی امداد سے بڑی تعداد میں مسجدوں کا تعمیراتی کام کیا لیکن اسے خدا کی مار کہا جائے یا سلفی عقل کا دیوالیہ پن کہ دیہاتوں میں قطر، دوبئی اور ابو ظہبی کے اسٹائل کی مسجدیں تعمیر کرنے والوں نے جوش وہابیت میں ان مسجدوں کے کاغذات کچھ ایسے نہ بنائے جن سے ان کا مستقبل محفوظ رہتا اورآج اغیار کی نظر میں وہی بلند مسجدیں کھٹک رہی ہیں اور تمام اسلامیان ہند کے لیے باعث تشویش بنی ہوئی ہیں۔
یوگی راج کی یوپی گورنمنٹ نے پچھلے سالوں میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ۔ مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر سے ہٹائے جائیں یا ان کا ایک مخصوص عہد کے ساتھ استعمال ہو۔ یہ قانون در اصل فضائی آلودگی سے حفاظت کے لیے ہے جس کی بنیاد سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے لیکن نہ یہ کوئی انوکھا فیصلہ ہے اور نہ عجیب قانون لیکن اسے بھی ہماری غفلت کہا جائے کہ ہم اس سلسلے میں موروثی لا قانونیت کے شکار ہیں اور ملکی قوانین سے بے پرواہ جیسے تیسے اپنی مسجدوں کا نظم قائم رکھے ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے اس حکم کے نفاذ کے ساتھ ہماری صفوں میں ایک کھلبلی سی مچ گئی اور کئی مسجدوں کے لیے اذان کی آواز یں پہنچانا بھی مشکل ہو گیا۔
ظاہر ہے اس مسئلے کا حل بھی پریشان ہوئے بنا قانونی دائرے میں رہتے ہوئے لاؤڈ اسپیکرز کا محدود اور معقول استعمال ہے۔ اس موقع پر یہ خیال بھی ضروری ہے کہ ہمارے ہاں بارہا لاؤڈ اسپیکرز کا نہایت غیر معقول استعمال ہوتا ہے جیسے ماہ رمضان میں سحری کے وقت تیز آوازوں کے ساتھ نعتوں اور تقریروں کا سلسلہ، جمعہ کے دن حاضرین جمعہ کے لیے ہونے والے خطابات کی آواز بھی دور تک پہنچانے کی ناکام کوشش، اذان سے پہلے یا بعد دیر تک اوراد و وظائف یا لمبی چوڑی اذانیں وغیرہ۔
ہونا یہ چاہیے کہ لاؤڈ اسپیکر استعمال کرتے ہوئے ہر وقت ہمارے خیال میں یہ بات رہے کہ ہم جس ملک میں زندگی گزار رہے ہیں، اس میں اکثریت ان کی ہے جو ہمارے مذہب، ہمارے نظریات اور ہمارے اعمال سے خوش نہیں، اس لیے ہماری زندگی کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں ہونا چاہیے، جس سے ان کو ایذا پہنچے یا شکایت کا موقع ملے۔
ضمناً یہ بات ذکر کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے علاقوں میں ہونے والے آئے دن کے خطبات اور اسی طرح جمعہ کے خطبات میں بھی ہمیں یہ کبھی نہیں فراموش کرنا چاہیےکہ ہمارا ایک ایک لفظ ہمارے مذہب و ملت کا ترجمان مانا جا سکتا ہے۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ کہی جانے والی بات چاہے مسجد کے اندر ہو یا باہر، بہر حال معقول، نفسیاتی اور اوپر بیان کردہ مخصوص بیک گراؤنڈ میں ہونی چاہیے ورنہ بارہا ہماری گفتگو بہت ساری غلط فہمیوں اور نفرتوں کا باعث بن سکتی ہے۔
مسجدوں کے تحفظ کے سلسلے میں آخری طریقہ یہ اپنایا جانا چاہیے کہ کمیٹی میں چند لوگ ایسے ہوں جو قانون کی مکمل معلومات رکھتے ہوں اور اپ ڈیٹ رہتے ہوں کیوں کہ بارہا عدالتوں کے فیصلوں کی وجہ سے بھی قوانین میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں اور اس طرح ممکن ہے کچھ ایسے پہلو سامنے آئیں جن میں مسجدوں کے مفادات مضمرہوں، یا ان کو ممکنہ نقصانات سے بچایا جا سکے۔