NotesUrdu Nazm

روٹی نامہ کی تشریح اور روٹی نامہ کا خلاصہ

Roti Nama Nazeer Akbarabadi ka Khulasa

روٹی نامہ کی تشریح اور روٹی نامہ کا خلاصہ

 

نظم روٹی نامہ کی تشریح کرنے سے پہلے اس نظم کے شاعر نظیر اکبر آبادی کا مختصر تعارف کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔

نظیر اکبرآبادی، محمد شاہ ثانی کے عہد میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ احمد شاہ ابدالی کے حملے کے بعد آگرہ پہنچ کر تاج گنج میں سکونت پذیر ہوئے اور تمام عمر یہیں بسر کی۔ فارسی کے علاوہ تھوڑی بہت عربی بھی جانتے تھے۔ مشغلہ درس وتدریس تھا۔ آخری عمر میں فالج کا شکار ہو گئے۔ اسی مرض میں انتقال کیا۔نظیر ہر طبقے اور مزاج کے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے تھے۔ جوانی میں بڑی رنگین مزاج تھے۔ کھیل کود، پتنگ بازی، تیراکی، ورزش، کبوتر بازی ان کی دلچسپیوں میں شامل تھے۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے تہواروں میں حصہ لیتے اور لطف اندوز ہوتے تھے۔ آزادانہ زندگی کی تصویروں نے ان کے کلام میں غیر معمولی وسعت اور رنگار نگی پیدا کی ہے۔ روایتی شاعری کرنے کے علاوہ نظیر  نے عوامی شاعری بھی کی اور یہی ان کی پہچان بن گئی۔ ان کی عوامی نظموں میں ہندو مسلم روایات اور تہواروں، مختلف مذہبوں کی برگزیدہ ہستیوں، ہندوستان کے مناظر، پرندوں، جانوروں، موسموں، پھلوں، کھانوں وغیرہ کا غیر رسمی انداز میں ذکر ہوا ہے۔ عوامی مسائل اور فلسفیانہ موضوعات پر بھی ان کی نظمیں بہت مقبول ہوئیں جن میں بنجارہ نامہ، روٹیاں، آدمی نامہ نے تاریخی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ نظیر کا ذخیرہ الفاظ بھی حیرت انگیز حد تک وسیع تھا۔

نیچرل شاعری جس کی بنیاد پر آزادؔ اور حالیؔ نے ڈالی تھی۔ اس کے پیش رو بلکہ موجد نظیر اکبر آبادی ہی تھے۔ وہ اپنی نظموں میں اخلاقی تلقین اور سماجی اصلاح کا بار بار ذکر کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے لفظی صناعی کے بجائے ’’خیال‘‘ اور’’ جذبے‘‘ کو شاعری کا معیار قرار دیا اور مبالغہ آرائی اور مضمون آفرینی سے ہٹ کر سادگی ، فکری اورجدت کی نظیر قائم کی۔ انہوں نے اپنی نظموں میں مناظرِ فطرت کے بے مثال مرقع پیش کیے۔

نظیر کے والد محمد فاروق عظیم آباد کی سرکار میں ملازم تھے۔ نظیر کی ولادت دہلی میں ہوئی جہاں سے وہ اچھی خاصی عمر میں اکبرآباد (آگرہ) منتقل ہوئے، اسی لئے کچھ نقّاد ان کے دہلوی ہونے پر اصرار کرتے ہیں۔ تقریباً انیسویں صدی کے آخر تک تذکرہ نویسوں اور نقّادوں نے نظیر کی طرف سے ایسی بے اعتنائی برتی کہ ان کی زندگی کے حالات پر پردے پڑے رہے۔ آخر 1896ء میں پروفیسر عبد الغفور شہباز نے “زندگانی بے نظیر” مرتب کی جسے نظیر کی زندگی کے حوالہ سے حرف آخر قرار دیا گیا ہے حالانکہ خود پروفیسر شہباز نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی تحقیق میں خیال آرائی کی آمیزش ہے۔ یقینی بات یہ ہے کہ اٹھارویں صدی میں دہلی انتشار اور بربادی سے عبارت تھی۔ مقامی اور اندرونی خلفشار کے علاوہ 1739 میں نادر شاہی سیلابِ بلا آیا پھر 1748، 1751 اور 1756ء میں احمد شاہ ابدالی نے پے در پے حملے کئے۔ ان حالات میں نظیر نےبھی بہت سے دوسروں کی طرح، دہلی چھوڑ کر اکبر آباد کی راہ لی، جہاں ان کے نانا نواب سلطان خاں قلعدار رہتے تھے۔ اس وقت ان کی عمر 22-23 سال بتائی جاتی ہے۔ نظیر کے دہلی کے قیام کے متعلق کوئی تفصیل تذکروں یا خود ان کے کلام میں نہیں ملتی۔ نظیر نے کتنی تعلیم حاصل کی اور کہاں یہ بھی معلوم نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے فارسی کی سبھی متداول کتابیں پڑھی تھیں اور فارسی کی اہم تصانیف ان کے زیر مطالعہ رہی تھیں۔ لیکن عربی نہ جاننے کا اعتراف نظیر نے خود کیا ہے۔ نظیر کئی زبانیں جانتے تھے لیکن ان کو زبان کی بجائے بولیاں کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ جن کا اثر ان کی شاعری میں نمایاں ہے۔ آگرہ میں نظیر کا پیشہ بچّوں کو پڑھانا تھا۔ اس زمانہ کے مکتبوں اور مدرسوں کی طرح ان کا بھی ایک مکتب تھا، جو شہر کے مختلف مقامات پر رہا۔ لیکن سب سے زیادہ شہرت اس مکتب کو ملی جہاں وہ دوسرے بچوں کے علاوہ آگرہ کے ایک تاجر لالہ بلاس رائے کے کئی بیٹوں کو فارسی پڑھاتے تھے۔

نظیر اس معلمی میں قناعت کی زندگی بسر کرتے تھے۔ بھرت پور، حیدرآباد اور اودھ کے شاہی درباروں نے سفر خرچ بھیج کر ان کو بلانا چاہا لیکن انھوں نے آگرہ چھوڑ کر کہیں جانے سے انکار کر دیا۔ نظیر کے متعلق جس نے بھی کچھ لکھا ہے اس نے ان کے اخلاق و عادات، سادگی، حلم اور فروتنی کا تذکرہ بہت اچھے الفاظ میں کیا ہے۔ دربارداری اور وظیفہ خواری کے اس دور میں اس سے بچنا ایک مخصوص کردار کا پتہ دیتا ہے۔ کچھ لوگوں نے نظیر کو قریشی اور کچھ نے سید کہا ہے۔ ان کا مذہب امامیہ معلوم ہوتا ہے لیکن زیادہ صحیح یہ ہے کہ وہ صوفی مشرب اور صلح کل انسان تھے اور کبھی کبھی زندگی کو وحدت الوجودی زاویہ سے دیکھتے نظر آتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے جس خلوص اور جوش کے ساتھ ہندو مذہب کے بعض موضوعات پر جیسی نظمیں لکھی ہیں ویسی خود ہندو شاعر بھی نہیں لکھ سکے۔ پتہ نہیں چلتا کی انہوں نے اپنے دہلی کے قیام میں کس طرح کی شاعری کی یا کس کو استاد بنایا۔ ان کی بعض غزلوں میں میر و مرزا کے دور کا رنگ جھلکتا ہے۔ دہلی کے بعض شاعروں کی غزلوں کی تضمین ان کی ابتدائی شاعری کی یادگار ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کا کوئی واضح اشارہ نہیں ملتا کہ ان کی دہلی کی شاعری کا کیا رنگ تھا۔ انہوں نے زیادہ تر مختلف موضوعات پر نظمیں لکھیں اور وہ ان ہی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپن اپنا کلام جمع نہیں کیا۔

ان کی وفات کے بعد بلاس رائے کے بیٹوں نے متفرق چیزیں جمع کر کے پہلی بار کلّیات نظیر اکبرآبادی کے نام سے شائع کیا جس کا سن اشاعت معلوم نہیں۔ فرانسیسی مستشرق گارسان دی تاسی نے خیال ظاہر کیا ہے کہ نظیر کا پہلا دیوان 1820ء میں دیوناگری رسم الخط میں شائع ہوا تھا۔ آگرہ کے مطبع الٰہی نے بہت سے اضافوں کے ساتھ اردو میں ان کا کلیات 1867 ء میں شائع کیا۔ اس کے بعد مختلف اوقات میں کلیات نظیر نولکشور پریس لکھنؤ سے شائع ہوتا رہا۔ نظیر نے طویل عمر پائی۔ عمر کے آخری حصہ میں فالج ہو گیا تھا۔ اسی حالت میں 1830ء میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کے بہت سے شاگردوں میں میر مہدی ظاہر، قطب الدین باطن، لالہ بد سین صافی، شیخ نبی بخش عاشق، منشی حسن علی محو کے نام ملتے ہیں۔

تذکرہ نگاروں اور 19ویں صدی کے اکثر نقّادوں نے نظیر کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی شاعری میں بازاریت، ابتذال، فنی اغلاط اور عیوب کا ذکر کیا۔ شیفتہ اسی لئے ان کو شعراء کی صف میں جگہ نہیں دینا چاہتے۔ آزاد، حالی اور شبلی نے ان کے شاعرانہ مرتبہ پر کوئی واضح رائے دینے سے گریز کیا ہے۔ اصل سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ نظیر نے اپنے دور کے معیارِ شاعری اور کمالِ فن کے نازک اور لطیف پہلووں کوزندگی کے عام تجربات کے سادہ اور پر خلوص بیان پر قربان کر دیا۔ درباری شاعری کی فضا سے دور رہ کر، موضوعات کے انتخاب اور ان کے اظہار میں ایک مخصوص طبقہ کے ذوق شعری کو ملحوظ رکھنے کے بجائے انہوں نے عام لوگوں کے فہم اور ذوق پر نگاہ رکھی یہاں تک کہ زندگی اور موت، منازلِ حیات اور مناظر قدرت موسم اور تہوار، امارت اور افلاس، عشق اور مذہب، تفریحات اور مشاغلِ زندگی، خدا شناسی اور صنم آشنائی، ظرافت اور عبرت غرض کہ جس مضمون پر نگاہ ڈالی، وہاں زبان، اندازِ بیان اور تشبیہات اور استعارات کے لحاظ سے پڑھنے والوں کے ایک بڑے دائرہ کو نظر میں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے سیکڑوں پہلووں کے علم، جزئیات سے غیر معمولی واقفیت، وسیع انسانی ہمدردی اور پرخلوص اظہار مطالب کو اہمیت دی جائے تو نظیر کے بلند پایہ شاعر ہونے میں کوئی شک نہیں۔ انہوں نے فن اور اس کےاظہار کے معروف تصورات سے ہٹ کر اپنی نئی راہ نکالی۔ نظیر کی نگاہ میں گہرائی اور فکر میں وزن کی جو کمی نظر آتی ہے اس کی تلافی ان کی وسعتِ نظر، خلوص، تنوع، حقیقت پسندی، سادگی اور عوامی نقطۂ نظر سے ہو جاتی ہے اور یہی باتیں ان کو اردو کا ایک منفرد شاعر بناتی ہیں۔

تخلص نظیر اور شاعر بے نظیر! بے نظیر اس لئے کہ ان جیسا شاعر تو دور، ان کے زمرہ کا شاعر بھی نہ ان سے پہلے کوئی تھا نہ ان کے بعد کوئی پیدا ہوا۔ نظیر اکبر آبادی اردو شاعری کی منفرد آواز ہیں جن کی شاعری اس قدر عجیب اور حیران کن تھی کہ ان کے زمانہ کے شعری شعور نے ان کو شاعر تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ نظیر سے پہلے اردو شاعری غزل کے گرد گھومتی تھی۔ شعراء اپنی غزل گوئی پر ہی فخر کرتے تھے اور شاہی درباروں تک رسائی کے لئے قصیدوں کا سہارا لیتے تھے یا پھر رباعیاں اور مثنویاں کہہ کر شعر کے فن میں اپنی استادی ثابت کرتے تھے۔ ایسے میں ایک ایسا شاعر جو بنیادی طور پر نظم کا شاعر تھا۔ ان کے لئے غیر تھا۔ دوسری طرف نظیر نہ تو شاعروں میں اپنی کوئی جگہ بنانے کے خواہشمند تھے، نہ ان کو نام و نمود، شہرت یا جاہ و منصب سے کوئی غرض تھی، وہ تو خالص شاعر تھے۔ جہاں ان کو کوئی چیز یا بات دلچسپ اور قابل توجہ نظر آئی، اس کا حسن شعر بن کر ان کی زبان پر جاری ہو گیا۔ نظیر کی شاعری میں جو قلندرانہ بانکپن ہےوہ اپنی نظیر آپ ہے۔ موضوع ہو، زبان ہو یا لہجہ نظیر کا کلام ہر اعتبار سے بے نظیر ہے۔

نظیر اکبر آبادی، میر و سودا کے ہم عصر تھے اور جن معاشی و سماجی مسائل سے میر و سودا دوچار رہے، ان سے قدرے ملتے جلتے حالات میں نظیر اکبر آبادی بھی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ میر وسودا نے دہلی کی غارت گری سے اثر لیا جبکہ نظیر آگرہ میں موجود ہونے کی وجہ سے براہ راست غارت گری سے محفوظ رہے، البتہ دہلی کے حملوں کے سیاسی و سماجی اور معاشی اثرات سے بالواسطہ متاثر ہوتے رہے۔ شہر آشوب کے جعفر زٹلی سے سودا تک کے معاصر شعرا نے معاشی بدحالی کا ذکر اپنی شاعری کےذریعےکیا ہے۔

نظیر اکبر آبادی نے عام نظموں میں بھی روپے، پیسے اور مادی وسائل کے انسانی زندگی اور سماج میں انسانی مقام و مرتبہ پر اثرات کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ نظیر اکبر آبادی کی مختلف نظمیں مثلاً ’’ کوڑی کی فلاسفی‘‘،’’پیسے کی فلاسفی‘‘،’’مفلسی کی فلاسفی‘‘،’’ آٹے دال کی فلاسفی‘‘،’’ روٹی کی فلاسفی‘‘ اور ’’پیٹ کی فلاسفی‘‘ براِہ راست معاشی نظمیں ہیں۔ اس طرز کی نظموں میں معاشی نظریات جزوی طور پر بیان ہوئے ہیں۔ نظیر پیشے کے اعتبار سے مدرس تھے، میلوں ٹھیلوں کے شوقین تھے اور قلندرانہ وضع کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے، غریبوں، مفلسوں، بیکسوں اور مصیبت زدوں کی زندگیوں کا مشاہدہ عمیق کرتے تھے۔ ان کی طبیعت میں بے پناہ استغنا تھا۔

روٹی نامہ کے شاعر نظیر اکبرآبادی کے متعلق چند باتیں جان لینے کے بعد اب آئیے پڑھتے ہیں نظیر اکبر آبادی کی نظم روٹی نامہ مکمل طور پر پھر اس کے بعد اس کی تشریح کی جائے گی اور اس کے ہر اک بند کا خلاصہ بھی تحریر کیا جائے گا۔

نظم روٹی نامہ (روٹیاں) از: نظیر اکبرآبادی

جب آدمی کے پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں
پھولی نہیں بدن میں سماتی ہیں روٹیاں
آنکھیں پری رخوں سے لڑاتی ہیں روٹیاں
سینے اپر بھی ہاتھ چلاتی ہیں روٹیاں
جتنے مزے ہیں سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں

روٹی سے جس کا ناک تلک پیٹ ہے بھرا
کرتا پرے ہے کیا وہ اچھل کود جا بہ جا
دیوار پھاند کر کوئی کوٹھا اچھل گیا
ٹھٹھا ہنسی شراب صنم ساقی اس سوا
سو سو طرح کی دھوم مچاتی ہیں روٹیاں

جس جا پہ ہانڈی چولہا توا اور تنور ہے
خالق کی قدرتوں کا اسی جا ظہور ہے
چولھے کے آگے آنچ جو چلتی حضور ہے
جتنے ہیں نور سب میں یہی خاص نور ہے
اس نور کے سبب نظر آتی ہیں روٹیاں

آوے توے تنور کا جس جا زباں پہ نام
یا چکی چولھے کے جہاں گل زار ہوں تمام
واں سر جھکا کے کیجے ڈنڈوت اور سلام
اس واسطے کہ خاص یہ روٹی کے ہیں مقام
پہلے انہیں مکانوں میں آتی ہیں روٹیاں

ان روٹیوں کے نور سے سب دل ہیں بور بور
آٹا نہیں ہے چھلنی سے چھن چھن گرے ہے نور
پیڑا ہر ایک اس کا ہے برفی و موتی چور
ہرگز کسی طرح نہ بجھے پیٹ کا تنور
اس آگ کو مگر یہ بجھاتی ہیں روٹیاں

پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں

پھر پوچھا اس نے کہیے یہ ہے دل کا طور کیا
اس کے مشاہدے میں ہے کھلتا ظہور کیا
وہ بولا سن کے تیرا گیا ہے شعور کیا
کشف القلوب اور یہ کشف القبور کیا
جتنے ہیں کشف سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں

روٹی جب آئی پیٹ میں سو قند گھل گئے
گلزار پھولے آنکھوں میں اور عیش تل گئے
دو تر نوالے پیٹ میں جب آ کے ڈھل گئے
چودہ طبق کے جتنے تھے سب بھید کھل گئے
یہ کشف یہ کمال دکھاتی ہیں روٹیاں

روٹی نہ پیٹ میں ہو تو پھر کچھ جتن نہ ہو
میلے کی سیر خواہش باغ و چمن نہ ہو
بھوکے غریب دل کی خدا سے لگن نہ ہو
سچ ہے کہا کسی نے کہ بھوکے بھجن نہ ہو
اللہ کی بھی یاد دلاتی ہیں روٹیاں

اب آگے جس کے مال پوے بھر کے تھال ہیں
پورے بھگت انہیں کہو صاحب کے لال ہیں
اور جن کے آگے روغنی اور شیرمال ہیں
عارف وہی ہیں اور وہی صاحب کمال ہیں
پکی پکائی اب جنہیں آتی ہیں روٹیاں

کپڑے کسی کے لال ہیں روٹی کے واسطے
لمبے کسی کے بال ہیں روٹی کے واسطے
باندھے کوئی رومال ہیں روٹی کے واسطے
سب کشف اور کمال ہیں روٹی کے واسطے
جتنے ہیں روپ سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں

روٹی سے ناچے پیادہ قواعد دکھا دکھا
اسوار ناچے گھوڑے کو کاوہ لگا لگا
گھنگھرو کو باندھے پیک بھی پھرتا ہے ناچتا
اور اس سوا جو غور سے دیکھا تو جا بہ جا
سو سو طرح کے ناچ دکھاتی ہیں روٹیاں

روٹی کے ناچ تو ہیں سبھی خلق میں پڑے
کچھ بھانڈ بھیگتے یہ نہیں پھرتے ناچتے
یہ رنڈیاں جو ناچے ہیں گھونگھٹ کو منہ پہ لے
گھونگھٹ نہ جانو دوستو تم زینہار اسے
اس پردے میں یہ اپنے کماتی ہیں روٹیاں

اشرافوں نے جو اپنی یہ ذاتیں چھپائی ہیں
سچ پوچھئے تو اپنی یہ شانیں بڑھائی ہیں
کہئے انہوں کی روٹیاں کس کس نے کھائی ہیں
اشراف سب میں کہئے تو اب نان بائی ہیں
جن کی دکاں سے ہر کہیں جاتی ہیں روٹیاں

دنیا میں اب بدی نہ کہیں اور نکوئی ہے
یا دشمنی و دوستی یا تند خوئی ہے
کوئی کسی کا اور کسی کا نہ کوئی ہے
سب کوئی ہے اسی کا کہ جس ہاتھ ڈوئی ہے
نوکر نفر غلام بناتی ہیں روٹیاں

روٹی کا اب ازل سے ہمارا تو ہے خمیر
روکھی ہی روٹی حق میں ہمارے ہے شہد و شیر
یا پتلی ہووے موٹی خمیری ہو یا فطیر
گیہوں جوار باجرے کی جیسی ہو نظیرؔ
ہم کو تو سب طرح کی خوش آتی ہیں روٹیاں

نظم روٹی نامہ (روٹیاں) کی تشریح

روٹیاں نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظموں میں سے ایک ہے۔ نظیر اکبر آبادی کی نظم روٹیاں کو کہیں کہیں روٹی نامہ کے عنوان سے بھی بھی پیش کیا جاتا رہا ہے ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ اس نظم کا دوسرا عنوان روٹی نامہ ہے۔ اس طرح سے یہ بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ روٹیاں اور روٹی نامہ دونوں ہی نظیر اکبر آبادی کی نظم کا عنوان ہے۔ اس نظم کا مرکزی خیال بھی مفلسی سے کافی کچھ ملتا جلتا ہے جس طرح مفلسی انسان کو ذلیل و خوار بنا دیتی ہے اُسی طرح سے پیٹ بھر روٹی کھا کر انسان دیوانہ اور بے خود بھی ہوجاتا ہے۔ روٹی کھا کر انسان تھوڑی دیر کے لیے اپنی اوقات بھول جاتا ہے۔ پیٹ بڑے ہونے پر وہ ہنستا ہے اور زور زور سے قہقہے لگاتا ہے۔ ایک فقیر کو یہی روٹیاں چاند سورج کی طرح گول دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی آنکھیوں میں عیش کی عجیب و غریب سرمتی آ جاتی ہے۔

اگر کسی آدمی کے پیٹ میں روٹی نہیں ہو اور وہ بھوک سے تڑپ رہا ہو تو کسی بھی چیز میں اس کا دل نہیں لگتا ہے۔ خواہ وہ روکھی سوکھی ہوئی روٹی ہی کیوں نہ ہو اسی سے اس کی زندگی میں بہار ہے۔

روٹی وہ چیز ہے جو ہر انسان کو ہر حال میں مست رکھتی ہے۔ روٹی کمانے کے لئے کوئی کوئی آدمی اپنے کپڑے لال کیے ہوے رہتا ہے اور کسی کسی کے بال بڑھے ہوے ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے طرح طرح کے کمال صرف اس روٹی کو حاصل کرنے کے لئے دکھاے جاتے ہیں۔ روٹی کے لئے آدمی کا جدو جہد ازل سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔

یہ بند نظیر اکبرآبادی کی نظم روٹیاں سے ماخوذ ہے۔ اس نظم روٹی نامہ میں شاعر نے روٹی کی اہمیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اشعار قلمبند کئے ہیں۔

روٹی سے جس کا ناک تلک پیٹ ہے بھرا
کرتا پرے ہے کیا وہ اچھل کود جا بہ جا
دیوار پھاند کر کوئی کوٹھا اچھل گیا
ٹھٹھا ہنسی شراب صنم ساقی اس سوا
سو سو طرح کی دھوم مچاتی ہیں روٹیاں

روٹی نامہ کے اس بند میں نظیر اکبر آبادی کہتے ہیں کہ جب انسان کا پیٹ روٹیوں سے خوب بھرا ہو تو اس کو کسی بات کی فکر نہیں رہتی وہ خوشی کے مارے اچھلتا کودتا پھرتا ہے۔ آدمی کا پیٹ بھرا ہونے پر ہی اسے ہنسی مزاق سوجھتا ہے اور اسی وقت محبوب، شراب، ساقی بھی یاد آتی ہیں۔ اور یہ روٹیاں ہیں جو ہم انسانوں کی زندگی میں سو سو طرح سے دھوم مچاتی ہے۔ مطلب آدمی خوشی کے عالم میں طرح طرح کے کام کرتا رہتا ہے۔

جس جا پہ ہانڈی چولہا توا اور تنور ہے
خالق کی قدرتوں کا اسی جا ظہور ہے
چولھے کے آگے آنچ جو چلتی حضور ہے
جتنے ہیں نور سب میں یہی خاص نور ہے
اس نور کے سبب نظر آتی ہیں روٹیاں!

نظیر فرماتے ہیں کہ بھولے انسان کے سامنے جب ہانڈی، چولہا، توا، ہو تو اسے وہاں خالق کی قدرت نظر آنے لگتی ہے۔ اور جب چولہے میں آگ جلتی ہے تو بھوکے آدمی کو وہ آگ میں نور ہی نور نظر آتی ہے کیونکہ اس آگ پر روٹی پکائی جاۓ گی اور بھوک میں آدمی کو روٹی کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا اس کو تو ہر چیز میں روٹی نظر آنے لگتی ہے۔

آوے توے تنور کا جس جا زباں پہ نام
یا چکی چولھے کے جہاں گل زار ہوں تمام
واں سر جھکا کے کیجے ڈنڈوت اور سلام
اس واسطے کہ خاص یہ روٹی کے ہیں مقام
پہلے انہیں مکانوں میں آتی ہیں روٹیاں!

بھوکے انسان کے سامنے جب توے تنور کا ذکر آتا ہے یا چکی چولہا جہاں ہو بس اس پر وہ سب خوشیاں قربان کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس جگہ جھک کر سلام کرتا ہے کیونکہ یہی وہ خاص مقامات ہوتے ہیں۔ جہاں روٹیاں پکائی جاتی ہیں اور روٹی ہی تو سب کچھ ہے۔
مطلب روٹی کے آگے انسان سب خوشیاں قربان کرنے کو تیار ہو جاتا ہے اور بڑے سے بڑے کام کو بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔

ان روٹیوں کے نور سے سب دل ہیں بور بور
آٹا نہیں ہے چھلنی سے چھن چھن گرے ہے نور
پیڑا ہر ایک اس کا ہے برفی و موتی چور
ہرگز کسی طرح نہ بجھے پیٹ کا تنور
اس آگ کو مگر یہ بجھاتی ہیں روٹیاں!

نظیر کہتے ہیں کہ ان روٹیوں کے نور سے سب دل خوش ہیں۔ جب چھلنی میں آٹا چھانا جاتا ہے تو بھوکے آدمی کو وہ آٹا چھنتا ہوا نور نظر آتا ہے۔ اور جب روٹی پکانے کے لیے پیڑا بنایا جاتا ہے تو وہ اسے برفی اور لڈّو نظر آتا ہے۔ پیٹ کی آگ کو صرف روٹی ہی بجھا سکتی ہے کوئی اور چیز نہیں۔

پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں!

نظیر کہتے ہیں کہ جب کسی نے ایک کامل فقیر (بزرگ) سے یہ پوچھا کہ خدا نے یہ چاند اور سورج کس لیے بناۓ ہیں۔ یہ سُن کر بزرگ نے کہا خدا تجھے سلامت رکھے ہم تو نہ چاند سمجھتے ہیں نہ سورج، ہمیں تو یہ سب روٹیاں ہی نظر آتی ہیں۔ یعنی بھوکے انسان کو ہر چیز روٹی ہی لگتی ہے۔

پھر پوچھا اس نے کہیے یہ ہے دل کا طور کیا
اس کے مشاہدے میں ہے کھلتا ظہور کیا
وہ بولا سن کے تیرا گیا ہے شعور کیا
کشف القلوب اور یہ کشف القبور کیا
جتنے ہیں کشف سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں!

نظیر کہتے ہیں کہ اس شخص نے کامل فقیر سے پوچھا کہ یہ بتاؤ! دل کا نور کیا ہے اور جب اسکو دیکھا جاتا ہے تو کیا ظاہر ہوتا ہے۔ یہ بات سُن کر بزرگ نے جواب دیا کہ تمہاری عقل کو کیا ہوا، دل پر کسی بات کا ظاہر ہونا، قبر میں مردے پر کیا گزر رہی ہے یہ کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اصل کشف/غیب کی بات کا ظاہر ہونا ہے۔

روٹی نہ پیٹ میں ہو تو پھر کچھ جتن نہ ہو
میلے کی سیر خواہش باغ و چمن نہ ہو
بھوکے غریب دل کی خدا سے لگن نہ ہو
سچ ہے کہا کسی نے کہ بھوکے بھجن نہ ہو
اللہ کی بھی یاد دلاتی ہیں روٹیاں!

اس بند میں نظیر کہتے ہیں کہ اگر انسان کے پیٹ میں روٹی نہ ہو یعنی بھوکا ہو تو پھر اس سے کوئی کام نہیں ہوتا اور نہ کہیں گھومنے کا من کرتا ہے اور نہ ہی خدا کی عبادت کرنے کا من کرتا ہے اور کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ “بھوکے پیٹ بھجن” نہیں ہوتے یعنی عبادت نہیں ہوتی۔ روٹیاں ہی اللّٰہ کی یاد دلاتی ہیں کیونکہ بھوکا انسان اللّٰہ کو زیادہ یاد کرتا ہے۔

کپڑے کسی کے لال ہیں روٹی کے واسطے
لمبے کسی کے بال ہیں روٹی کے واسطے
باندھے کوئی رومال ہیں روٹی کے واسطے
سب کشف اور کمال ہیں روٹی کے واسطے
جتنے ہیں روپ سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں!

نظیر روٹی کی اہمیت بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان روٹی کے واسطے طرح طرح کے جتن کرتے ہیں۔ کوئی روٹی حاصل کرنے کے لیے لال کپڑے پہنے ہوئے تو کسی نے بال لمبے کیے ہوئے ہیں۔ کوئی سر پر رومال باندھے ہوے ہے یعنی روٹی پانے کے لیے انسان طرح طرح کے روپ اختیار کر لیتا ہے۔

دنیا میں اب بدی نہ کہیں اور نکوئی ہے
یا دشمنی و دوستی یا تند خوئی ہے
کوئی کسی کا اور کسی کا نہ کوئی ہے
سب کوئی ہے اسی کا کہ جس ہاتھ ڈوئی ہے
نوکر نفر غلام بناتی ہیں روٹیاں!

نظیر کہتے ہیں کہ دنیا میں اب نہ برائی ہے نہ دشمنی ہے، یہاں کوئی کسی کا نہیں، سب لوگ اس کے ارد گرد گھومتے ہیں جس کے ہاتھ میں روٹی ہو۔ یہ ایک کہاوت ہے کہ جس کے ہاتھ روٹی اس کا سب کوئی، مطلب یہ کہ لوگ اسی کی باتیں مانتے ہیں جس سے ضرورت پوری ہو۔ نظیر کا کہنا ہے کہ دوستی، دشمنی، اچھائی، برائی، تلخی اور تیزی جو بھی ہے سب روٹی کی وجہ سے ہے۔

روٹی کا اب ازل سے ہمارا تو ہے خمیر
روکھی ہی روٹی حق میں ہمارے ہے شہد و شیر
یا پتلی ہووے موٹی خمیری ہو یا فطیر
گیہوں جوار باجرے کی جیسی ہو نظیرؔ
ہم کو تو سب طرح کی خوش آتی ہیں روٹیاں!

نظم کے آخری بند میں نظیر اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ روٹی کا انسان سے ازل (شروع) سے تعلق رہا ہے۔ بھوکے انسان کو سوکھی روٹی بھی دودھ اور شہد کی طرح معلوم ہوتی ہے۔ چاہے وہ روٹی موٹی ہو یا پتلی، خمیری ہو یا چپاتی، گیہوں کی ہو یا جوار کی، کسی سے بھی بنی ہو، ہمیں تو ہر طرح کی روٹی اچھی لگتی ہے کیونکہ پیٹ بھرنے کے لیے روٹی چاہیے پھر وہ کسی کی بھی بنی ہو۔ بھوک میں انسان کو ہر طرح کی روٹی اچھی لگتی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ تازہ ہے یا باسی۔ ہمیں تو بس روٹی چاہیے۔

سوال (۱) روٹی کے تعلق سے نظم کا پہلا بند تمام بندوں سے مختلف ہے کیسے؟
جواب: نظم کا پہلا بند دوسرے بندوں سے اس طرح مختلف ہے کہ اس بند میں روٹی ہونے کے فائدے بتاۓ ہیں کہ جب انسان کو بھر پیٹ روٹی مل جاتی ہے تو اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا۔ جبکہ نظم کے باقی بندوں میں یہ سچائی بیان کی گئی ہے کہ روٹی نہ ہو تو آدمی کو روٹی کے لیے سو سو جتن کرنے پڑتے ہیں اس کے علاوہ دوسرے بندوں میں انسانوں کے ساتھ ہمدردی اور ان کی مجبوری کا بھی احساس کرایا ہے۔

سوال (۲) نظیر کو کس لقب سے یاد کیا جاتا ہے؟
جواب : عوامی شاعر کے لقب سے۔

سوال(۳) اردو نظم کا شیکسپئر کسے کہا جاتا ہے؟
جواب: نظیر اکبر آبادی کو۔

سوال (۴) نظیر کا اصل نام کیا ہے؟
جواب: شیخ ولی محمد

سوال (۵) نظم روٹیاں کا مرکزی خیال لکھئے۔
جواب: نظم روٹیاں نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم ہے۔ اس نظم میں نظیر نے روٹی کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ روٹی انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے انسان کو کئی طرح کے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ روٹی نہ ملے تو انسان بھوکا مر جاتا ہے۔ روٹی کے لیے انسان طرح طرح کے پیشے اختیار کرتا ہے۔ روٹی کے لیے چوری چکاری اور غنڈہ گردی جیسا کام بھی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہیں اور جب روٹی پیٹ میں جاتی ہے تو وہ خوشی سے ناچنے لگتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!