ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesBiographyISLAMIC KNOWLEDGESHAKHSIYAAT

مفتی محمد قاسم جبل پوری علیہ الرحمہ کی منفردالمثال شخصیت

Maulana Qasim Jabalpuri

مادۂ تاریخ کے ماہر،محقق،عالم باعمل ، اسلام کے عظیم مبلغ، دیڑھ سو کتابوں اورتاج الفتاویٰ کے مصنف

شہیدالقادری حضرت علامہ مفتی محمد قاسم جبل پوری علیہ الرحمہ کی منفردالمثال شخصیت

شہید القادری کے خلیفہ و جانشین مفتی محمد امتیاز القادری صاحب کی مالیگاؤں آمد، 17 تا 22 نومبر تک قیام ۔

از:عطاء الرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)مالیگاؤں

شہید القادری حضرت علامہ مفتی محمد قاسم جبل پوری علیہ الرحمہ کے جدمحترم 1857ء میں جبل پور تشریف لائے۔ آپ کی پیدائش 19؍جنوری1943ء محلہ گوہل پور جبل پور میں ہوئی۔ آپ کے والد تاج محمد عبدالکریم سلسلۂ قادریہ سے وابستہ تھے اور والدہ کلثو م بی رضویہ قادریہ تھی۔آپ نے 12؍سال کی عمر میں صرف ایک ہفتے میں ناظرہ قرآن مکمل کیا اور 14؍سال کی عمر تک 14؍پاروں کے حافظ ہوگئے۔ آپ بچپن ہی سے شب بیداری ، صوم و صلوٰۃ کی پابندی،ذکر و اذکار کااہتمام اور نوافل کی کثرت کرتے تھے۔1960ء میں آپ نے جامعہ عربیہ، ناگپور میں داخلہ لیا۔ جامعہ عربیہ ناگپور میں مفتی مجیب اشرف اعظمی ، مولانامحمود کچھوچھوی اور بھی کئی جیدوممتاز علماء سے علم دین سیکھا۔اسی دوران مدرسے میں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی آمد پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ مزید علمی تشنگی بجھانے کے لیے علامہ نظامی صاحب کے توسط سے مبارک پور اشرفیہ میں داخل ہوکر حضور حافظ ملت ، حضرت رؤف العلماء ، بحر العلوم عبدالمنان صاحب اورحضرت حسینی میاں وغیرہ سے علمی و روحانی فیض حاصل کیا ۔ بعد ازاں بہ نیت حصول ِ دستار فضیلت بدست سیّدی و مرشدی مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ مظہرِ اسلام بریلی شریف روانہ ہوئے، جہاں علامہ تحسین رضا ، حضرت بہاؤالمصطفیٰ صاحبان سے تعلیم لی ، ساتھ ہی اپنے پیر و مرشد مفتی اعظم ہند کی بارگاہ میں زانوے تلمذ بھی طے کیااورمزار اعلیٰ حضرت پر خدمت گذاری بھی کرتے رہے۔ 1968ء میں آپ کے علمی و روحانی مقامات کو دیکھ کر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے خلافت و اجازت سے نوازا۔ 1974ء میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے آخری خلیفہ حضرت برہانِ ملّت حافظ عبدالباقی صاحب اور اُستاذ الاساتذہ حسینی میاں نے بھی خلافت و اجازت سے نوازا۔ ان بزرگان دین سے آپ کو 14؍سلاسل کی خلافت و اجازت حاصل تھی۔ 1968ء میںآپ کی جبل پور واپسی ہوئی۔

حضرت علامہ مفتی محمد قاسم جبل پوری علیہ الرحمہ کی حیات کا ہر گوشہ اورہر پہلوتابندہ اورتابناک ہے۔مختلف اعتبار سے آپ کی حیات نمایاںاور گوناگوں خصوصیات کی حامل ہیں۔دین پر استقامت ،شریعت مطہرہ پر ثابت قدمی،علم میں اعلیٰ مقام،فن خطابت میں مہارت اورشعبۂ تصنیف وتالیف میں دسترس وغیرہ غرضیکہ ہر پہلو اچھوتااور منفرد ہے۔آپ کی حیات میں داعیانہ تڑپ ،تبلیغی بصیرت ، قوت اجتہادی اور مشن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکمیل کے لیے بے پناہ جدوجہد کے نمونے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں ۔آپ کی تبلیغی مساعی جمیلہ سے گائوں، قصبوں اور شہروںکے مکینوں کے ایمان وعقیدے کو تحفظ ملاہے۔ دنیا وی مفاد کی خاطردین میں بے جامداخلت علماے کرام نے نہ کل برداشت کی تھی اور نہ آج۔بیسویں صدی میں اسلام کے روحانی نظام کو مسخ کر نے کی مسلسل کوششیں ہورہی تھیں، ایسے نازک وقت میں حضرت قاسم جبل پوری علیہ الرحمہ نے اسلام کے روحانی نظام اور خانقاہی مراسم کو نئی زندگی دینے کی کوششیں کیں۔ آپ کی ایمانی جرأت کسی بھی قسم کی مصلحت کو شی اور چشم پوشی سے مبرا ہیں ، خلاف شرع کام دیکھ کر فوراً اس کے ازالے کی کوشش فرماتے ۔ آپ معرفت الٰہی کے لیے فکرسازی اور عملی زندگی میں دینی احکام کی جلوہ گری پر زوردیتے تھے۔آپ کی ذات حسن اخلاق کا جوہر اور فرائض و واجبات و سنن پر عمل میں منفرد المثال تھی ۔

تبلیغ دین اوررشد و ہدایت کے لیے آپ نے بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کیں ۔ ملک ہندوستان کے کئی مقامات کا آپ نے تبلیغی دورہ کیا۔ دیہاتی،مضافاتی اور سہولت سے محروم علاقوں کابھی آپ نے دورہ کیا۔آپ نے طالب علمی کے زمانہ ہی سے تصنیف وتالیف کاآغاز فرمادیاتھا۔آپ نے اپنا قلمی نام ’’شہید القادری‘‘پسند فرمایا۔ 28؍سال کی عمر میں 300؍سے زائد صفحات پرمشتمل اپنی پہلی تصوف کی شاہکار کتاب بنام ’’ شریعت برنگ طریقت ‘‘ لکھی اور اِس میں طریقت کی راہ ِ دشوار کی حقیقت کو اپنے تلخ تجربات ، احساسات اور مشاہدات کی روشنی میں آسان انداز میں قلمبند کیا ۔آپ نے تقریباًایک سوپچاس سے زائد کتابیں تحریرکیں۔جن میں سے اکثر الجمیعۃ الغوثیہ کے زیر اہتمام طبع ہوکر دادوتحسین قبول کررہی ہیں۔طرز تحریر سادہ، سلیس ، عمدہ اور رواں دواں ہے۔ آپ اپنا موقف قرآن و حدیث کی روشنی میں تحقیق کرکے مبرھن کرتے ہیں۔آپ نے 1984ء میں اپنے آبائی مکان کو تین منزل تعمیرکرواکر خانقاہ ،مدرسہ برکاتیہ رضویہ اوردارالافتاء رضویہ برہانیہ بنالیا۔جہاں سے آپ نے ہزاروں کی تعداد میں فتاوے تحریر کیے جو ’’تاج الفتاویٰ‘‘کے نام سے چودہ رجسٹروں میں درج ہیںاور جلد ہی منظرعام پر آنے والے ہیں۔

آپ تاریخی مادّے نکالنے میں بہت ماہر تھے۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؔ رحمۃ اللہ علیہ پر ایک منقبت لکھی جس کہ ہر مصرعے سے اعلیٰ حضرت کا سنِ وفات اخذ ہوتا ہے۔ اُنھوں نے پیر و مرشد کے احترام و عقیدت کا ایسا نمونہ پیش کیا جس کی نظیر ملنا مشکل ہے ۔ایک مرتبہ آپ کے پیر و مرشد حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی مولانا کی خانقاہ میں آمد ہوئی ،جس جگہ حضور مفتی اعظم ہند بیٹھے تھے، ٹھیک اُسی مقام کو آپ نے تاعمر پاکیزہ خوشبوؤں سے معطّر رکھا،ساتھ ہی اپناتمام تصنیفی و تالیفی کام اسی مقام پر کیااور اکثراس جگہ اوراد و وظائف اور عبادات کا اہتمام کرتے بلکہ اُسی جگہ اپنا مدفن بناکراپنے پیرومرشد کی بارگاہ میں اپنی عقیدتوں کاخراج پیش کیا۔

طلبِ علم کے بعد آپ کا اکثر وقت اپنی خانقاہ میں گذرتا ،حسبِ ضرورت خلقت سے ملتے ، سفر کرتے، روزآنہ کے معمولات میں صوم و صلوٰۃ کی پابندی اورذکر و اذکار کااہتمام تھا۔ دیر رات گئے تک تصنیفی وتالیفی کام کرتے، مطالعہ اور فتویٰ نویسی میں مشغول رہتے۔ آپ سے بے شمار کرامات ظاہر ہوئی۔آپ کی آمد کے لیے شہر مالیگائوں کے عقیدت مند اپنی نگاہوں کو فرش راہ کیے رہتے تھے ۔ مالیگاؤں کے مریدین و محبین کی محبت کی وجہ سے کئی کئی دنوں تک حضرت مالیگائوں میں قیام کیا کرتے تھے۔ آپ کے ہاتھوں پر بے شمار افراد نے بیعت کی اورسینکڑوں افراد حلقہ بگوش ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ نے اپنی 70؍سالہ زندگی تطہیر قلوب اور اصلاحِ معاشرہ نیز اشاعتِ دین میں لگا دی ۔ اپنے وصال سے 4؍مہینے قبل اپنے خانقاہ سے متصل زمین و مکان خرید کر مسجد و مدرسہ اور خانقاہ کی جدید عمارت بنام’’ دربارِ عظیم‘‘ کا کام جاری کروایا اور خود بھی کاموں میں لگے رہے ۔دوران تعمیر ایک دن نمازِ فجرسے قبل آپ کی طبیعت نا ساز ہوگئی اور 8جمادی الآخر 1433ھ بمطابق 30؍ اپریل 2012ء پیر کی شب میں مولانا قاسم جبل پوری علیہ الرحمہ اس عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرگئے اور واصلِ الیٰ اللہ ہوئے ۔

آپ کے خلیفہ و جانشین حضرت مولانا مفتی محمد امتیاز القادری صاحب کی اقتداء میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور آپ کی وصیت کے مطابق آ پ کو خانقاہ میں اسی جگہ سپردخاک کیا گیا۔ ہر سال 8؍ جمادی الآخر کوآپ کا عرس شریف نہایت تزک و احتشام سے رسم خرافات سے پاک طریقے سے منایا جارہا ہے۔ جس میں ہندوستان کے نامور علمائے کرام کی آمد ہوتی ہے۔ بعد وصال بھی محبین و مریدین پرآپ کا فیض جاری ہے ؎

نہیں ہے پیر میخانہ مگر فیضان باقی ہے
ابھی تک میکدے سے بوئے عرفانی نہیں جاتی

حضرت مولانا مفتی محمد امتیاز القادری صاحب17نومبر کو مالیگائوں تشریف لا رہے ہیں۔ مالیگائوں میںآپ کا قیام 22 نومبر تک رہے گا۔ پروگرام کی تفصیلات کا مکمل شیڈول جلد ہی قارئین کے روبرو پیش کیا جائےگا۔ ان شاء اللہ۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!