ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesISLAMIC KNOWLEDGE

ماں کی یادآئی اس کے جانے کے بعد!آخر ایسا کیوں؟؟

ماں کی یادآئی اس کے جانے کے بعد!آخر ایسا کیوں؟؟
والدین کی حیات ہی میں ان سے منسوب دینی،ملی،سماجی اور فلاحی کام کرنے کی ضرورت 
از:عطاءالرحمن نوری ،مالیگاﺅں(ریسرچ اسکالر

ایک مدت سے ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
سواد اعظم اہلسنّت وجماعت کی عالمگیر تحریک سنّی دعوت اسلامی کے زیر اہتمام جاری حراانگلش اسکول وِتھ اسلامک اسٹڈیز کی ساتویں سالانہ گیدرنگ میں 18فروری بروز سنیچر 2017ءکوحاضری ہوئی تھی۔ سالانہ گیدرنگ کے مکمل پروگرامات کائنات کی عظیم ہستی ”ماں“سے منسوب تھے۔ماں کے حوالے سے بچوں نے نظمیں،ڈرامے،مکالمے اوراقوال پیش کیے جسے دیکھ اور سُن کر بے ساختہ ہر ایک کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔پروگرام میں بیٹھے بیٹھے ذہن میں ایک سوال پیداہواکہ والدین کے انتقال کے بعد بچوں میں والدین کے نام سے منسوب فلاحی ورفاہی کام کرنے کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔کبھی چوک چوراہوں اور سڑکوں کو ماں باپ کے نام سے منسوب کیاجاتاہے تو کبھی والدین کے نام سے مساجد و مدارس کی تعمیرہوتی ہیں ۔ الغرض جس بیٹے سے جوکام ممکن ہوتاہے وہ انوکھے اور نرالے طرز پر ماں باپ کے نام کو روشن کرنے کی تگ ودَوکرتاہے اور پھر افتتاحیہ محفل میں والدین کو یاد کرکے آنسو بہائے جاتے ہیں ۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ دینی،ملی،سماجی،سیاسی،فلاحی اور رفاہی کام کرنے کے لیے ماں باپ کا مرنا ضروری ہے؟
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
 جب بولنے لگے تو ہمیں پر برس پڑے 
والدین کے نام سے منسوب تمام کام ان کے انتقال کے بعد ہی کیوں کیے جاتے ہیں؟کہیں ایسا تو نہیں کہ جیتے جی ان کے حقوق کی پامالی کا کفارہ ان کے نام سے منسوب کام کرکے اداکرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔پھر خود ہی دل نے جواب دیاکہ حراانگلش اسکول کے اساتذہ کرام نے شاید اسی سوچ کے خاتمے کے لیے سالانہ گیدرنگ کو ”ماں“سے منسوب کیا گیاتاکہ بچوں کے دلوں میں بچپن ہی سے والدین کی محبت اور اہمیت برقرار رہے اور آگے چل کر جب یہ ماں باپ کا نام روشن کرنا چاہے تو مرنے کے بعد نہیں بلکہ ان کی حیات ہی میں ایسے کارنامے انجام دیں جس سے والدین کوفخروانبساط محسوس ہو۔


مالیگاﺅں کے حالیہ پس منظر پر ایک بزرگ نے بتایاکہ جو لیڈرحضرات قوم کی ہمدردی اور دردمندی کے نام پرآج اہلیان مالیگاﺅں کی خدمت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ان کے خود کے گھر میں بوڑھے ماں باپ سسک رہے ہیں ،بیوی کسمپرسی کی زندگی گذاررہی ہے اور بچے باپ کے پیار سے محروم ہیں۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ محض مفاد کی غرض سے دوسروں کی خدمت کرکے اور والدین کونظرانداز کرکے کیااللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جاسکتی ہے ؟جب کہ اسلام ایسا پاکیزہ مذہب ہے جووالدین کودردر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ نہیں دیتابلکہ ان کی تعظیم کو اللہ کی تعظیم قراردیا۔حضرت ابوموسیٰ اشعری سے مروی ہے رسول اللہﷺ کاارشاد خوشبودار ہے:بے شک اللہ کی تعظیم سے ہے بوڑھے مسلمان کی عزت کرنااورحافظ قرآن کی،کہ نہ اس میں حد سے بڑھے اور نہ اس سے دوری کرے اور حاکم عادل کی(فتاوی رضویہ 311/6 )مگر افسوس صد افسوس!آج بوڑھے ماں باپ کے ساتھ بچے کیاکچھ کررہے ہیں یہ امرکسی سے مخفی نہیںہے ۔ آج کے بچے والدین کوبات بات پر ڈانٹنے،جھڑکنے اوربلند آواز سے بات کرنے میں بھی ذرہ برابر شرم محسوس نہیں کرتے۔ماں باپ کسی چیزکودو سے تین مرتبہ پوچھ لیں تو بھنویں تن جاتی ہے مگر انہی ماں باپ سے بچپن میںیہی بچہ جب ہکلاتے ہوئے کسی چیز کوباربار پوچھتاتووالدین خوشی خوشی بتاتے۔بچوں کو سوچناچاہیے کہ ماں باپ کے آگے صرف دووقت کی روٹی رکھ دیناہی سب کچھ نہیںہے بلکہ موت کی آخری ہچکی تک ان کا ادب بجالاناانتہائی ضروری ہے۔مگر آج مسجدومدرسوں کی چوکھٹ پرگلی محلوں میں بھیک مانگتے والدین ہرروز دیکھے جاسکتے ہیں کوئی پیٹ بھرنے کے لیے ایک وقت کاکھانادے دیتاہے توکوئی جھڑک دیتا ہے ۔کیابھیک مانگنے والے والدین کواولاد نہیں ہے؟اگر ہے تو کیوں وہ دردربھٹکنے پر مجبور ہوئے ؟دینی وملی تنظیموں کے پاس ایسے ماں باپ کے لیے کوئی منصوبہ کیوں نہیں ہے ؟جس طرح رہائشی دارالعلوم اور یتیم خانے بنائے جاتے ہیں اسی طرح ہماری سوسائٹی میں اولڈ ہاﺅسیس کا تصور کیوں نہیں ہے ؟ایسا بھی نہیں کہ ان کاقیام از حدضروری ہے مگرحالات اور صورت حال ہی ایسی ہے کہ بے سہاراوبے مددماں باپ کے تئیں قوم کا تو کچھ فریضہ بنتاہے ؟اگر سگے بیٹے حقوق کو پامال کررہے ہیں تو قوم کے ہزاوں بیٹے ان کے لیے کیوں کچھ نہیں کررہے ہیں؟ 
اس ضمن میں دو افسانوی حکایت یاد آتی ہے کہ باپ کے مرنے کے بعد بیٹے نے ماں کو اولڈ ہاﺅس میں ایڈمٹ کروادیااور سال میں ایک مرتبہ دیکھ آتا۔ایک دن اولڈ ہاﺅس سے بیٹے کو فون آیاکہ آپ کی ماں کی طبیعت بہت خراب ہے ۔بیٹاملاقات کے لیے گیاتودیکھاکہ ماں کی حالت واقعی بہت خراب تھی،آخری سانسیں چل رہی تھیں،بیٹے نے پوچھا ماںمیں تیرے لیے کیاکرسکتاہوں؟ماں نے کہابیٹا!اس اولڈ ہاﺅس میں پنکھے لگوادو۔بیٹاحیران ہوکربولا:ماں اتنے سالوں تم یہاں تھی اب آخری وقت یہ فرمائش کیوں؟ماں بولی بیٹامیں نے تو جیسے تیسے گذاراکرلیا،ڈرتی ہوں کہ کل تیرے بچے تجھے یہاں چھوڑجائیں گے تو بیٹاتو گرمی برداشت نہیں کرسکے گا۔پنکھے اپنے لیے نہیں بیٹاتیرے مستقبل کے لیے لگوارہی ہوں۔دوسری یہ کہ ایک ماں سے سوال کیاگیا:آپ اپنے بچوں میں سے کس بچے سے زیادہ پیارکرتی ہوں؟ماں کے لیے یہ سوال بڑاپریشان کُن تھالیکن ماں نے بہت سوچ کر جواب دیا:”بیمار بچے سے زیادہ پیارکرتی ہوںجب تک وہ صحت یاب نہ ہوجائے،چھوٹے بچے سے پیارکرتی ہوں جب تک وہ بڑانہ ہوجائے،جو بچہ میری آنکھوں سے دور ہواس سے زیادہ پیارکرتی ہوں جب تک وہ واپس نہ لوٹ آئے ،پھر جھنجھلاتے ہوئے ماں نے کہا”اپنے سب بچوں سے زیادہ پیارکرتی ہوں جب تک کہ میں مرنہ جاﺅں۔“کاش!کہ آج کے بیٹے ماں کی اہمیت جانتے اور ان کے حقوق اداکرتے۔(الاماشآاللہ)اللہ پاک توفیق عطا فرمائے۔آمین 
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!