ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesISLAMIC KNOWLEDGE
مساجد ، مدارس اورکثرتِ اجلاس کے باوجود منافقت ، عداوت اور اخلاقی برائیاں شباب پر
مساجد ، مدارس اورکثرتِ اجلاس کے باوجود منافقت ، عداوت اور اخلاقی برائیاں شباب پر
کیا علما، ائمہ، حفاظ اور داعیان دین اسباب اوروَجوہات کو تلاش کرکے ختم کر سکتے ہیں؟
از:عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)، مالیگاﺅں
بغض ، حسد، کینہ، کپٹ، جلن ، نفرت ، عداوت اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کا مادّہ دن بہ دن قوم مسلم میں بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔پہلے سے زیادہ مساجد و مدارس کی تعمیر ،اجتماعات واجلاس کا انعقاد ، کتابوں اور لٹریچر کی اشاعت ، قدیم ذرائع ابلاغ کے ساتھ نت نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے مذہبی تعلیمات کی تبلیغ و تشہیر ہو رہی ہے باوجود اس کہ ذہنوں میں دشمنی اور دلوں میں حسد کا جذبہ اس حد تک پروان چڑھ چکا ہے کہ اپنے ہی ہم مذہب کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ اجتماعات اور اجلاس میں دلوں کی کیفیت مختلف ہوتی ہے مگر اجلاس کے اختتام کے بعد کے نظارے کا مشاہدہ کریں تو وہی بد اخلاقیوں کا منظر، حد سے زیادہ ہنسی مذاق ، راہ گیروں کو تکلیف دینا،موٹر سائیکلوں کی بد نظمی ، معمولی معمولی غلطی پر ایک دوسرے سے بد کلامی ، ہوٹلوں پر بیٹھ کر نجی معاملات کو اُچھالناوغیرہ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے اسباب ہیں جن کی بنیاد پر بیانات و خطابات سننے کے بعد بھی زندگیوں میں انقلاب پیدا نہیں ہو پا رہا ہے ۔ یہی صورت نمازِ جمعہ کے خطابات کو سننے کے بعد بھی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ فرض نماز کی ادائیگی کے بعد صفوں کو پھلانگ کر جانا، سنتوں کا اہتمام نہ کرنا اور اپنی چپل یا جوتے کو صاف رکھنے کے لیے دیگر نمازیوں کی چپل جوتوں کو روند کچل کر باہر نکلنا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سلام کو عام کرو۔ سلام سے اُلفت ومحبت پیدا ہوتی ہے مگر قوم مسلم میں جلن حسد کا مادّہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ اپنے ہی ہم مذہب بلکہ ہم مسلک لوگوں کے سلام کوصرف اس سبب سے نظر انداز کیا جارہا ہے کہ وہ کسی دوسری تنظیم یا ادارہ سے وابستہ ہے ۔قوم مسلم کے حالات پر نظر رکھنے والے ایک بزرگ شخص نے راقم سے کہاکہ مساجد کے ذمہ داران نماز تراویح کے لیے ایسے حفاظ کی گذارشات کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو ایک مسلک کے تو ہیں مگر اسی مسلک کی دوسری تنظیم سے وابستہ ہیں ۔ یعنی اگر کسی تنظیم کے زیر اہتمام دس مساجد جاری ہیں تو اوّلیت ایسے حفاظ کو دی جاتی ہے جو ان کی جماعت یا تنظیم سے وابستہ ہے۔ایسی بھی مثالیں آپ کو نظر آئیں گی کہ ایک ادارے سے وابستہ ہونے کے بعد بھی آپسی چپقلش اور اندرونی خلفشار اپنے شباب پر ہے ۔ نفرت وحقارت کی ایسی کائی جمی ہے کہ ہرکوئی ایک دوسرے کو نیچادِکھانے میں اپنی پوری توانائی صرف کررہاہے، خواہ اس کے لیے ملت کاجنازہ نکل جائے یااپنی ہی عظمت داﺅپرلگ جائے۔ہمیں اپنی روِش کو بدلنا ہوگا، سوچ وفکرکے زاویے کوتبدیل کرناہوگا،یہ زندہ قوموں کی علامت نہیں،ہمارے موجودہ حالات مستقبل کی تباہی کے غمازہیں،جس پربند باندھنا ہمارے لیے نہایت ضروری ہے۔ورنہ آنے والی نسل ہمیں معاف نہیں کرسکتی۔
اس تحریر سے کسی کی برائی کرنا مقصود نہیں بلکہ قوم میں پنپنے والی برائیوں کی نشاندہی اور ان کے خاتمے کی کوشش کرنا مقصد ہے ۔ ممکن ہے ان باتوں سے کسی کی دل آزاری ہو مگر مذکورہ برائیوںکا سد باب کیا جانا از حد ضروری ہے کیوں کہ مساجد ومدارس ہی دعوت وتبلیغ کے اہم ذرائع ہیں اگر ان کے ذمہ داران ہی کے قول و فعل میں تضاد پایا جائے گا تو نئی نسل کا اعتماد مجروح ہو سکتا ہے ۔دینی تنظیم سے وابستہ افراد سماج میں رہنے والے دوسروں مسلمانوں کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں اس لیے دینی حلقے میںاُٹھنے بیٹھنے والوں کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ ویسے بھی آج جس اعتبار سے دنیا اور ملک کے حالات تبدیل ہو رہے ہیں ایسے پس منظر میں لازمی اور ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم سب ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر متحد ہوجائیں ۔ آپسی جھگڑوں اور تنازعات کو فراموش کردیں، سوچ وفکر کو وسعت دیں، کشادہ قلبی کا مظاہرہ کریں ،اقوال واعمال میں یگانت قائم رہے، منفی باتوں سے پرہیز کریں اور مثبت رویوں کے ساتھ اعمال وافعال کو سنوارنے کی کوشش کریں۔
سچے خداکاسچادین پوری دنیامیں اپنی سچائی خودمنوارہاہے۔مگرافسوس صد افسوس! سچے دین کوماننے والے اس کی سچی تعلیمات سے کوسوں دور نظرآتے ہیں۔ہماری زندگی کااٹھنے والاہر قدم اسلامی تعلیمات کی دھجیاں اُڑارہاہے۔آج جتنا نقصان اسلام کو غیروں سے نہیں پہنچ رہاہے اس سے کہیں زیادہ مسلمانوں سے ہو رہاہے۔ (الاماشاءاللہ) ہماری شادی بیاہ کی تقریبات اسلام کی بدنامی کاباعث، ہمارے شب وروز اسلامی تعلیمات کے خلاف، کرداروعمل میں یہودونصاریٰ کاطرز، زبان وبیان جھوٹ سے مزین، شریعت سے کھلواڑ محبوب مشغلہ، لعن طعن فتنہ وفساد پیداکرنا فرض منصبی،اختلافات کوہوادیناضروری امر، گروپ بندی کرنا دعوت و تبلیغ سے بھی زیادہ اہم کام۔آخرکہاں جارہے ہیں ہم؟ہمیں چاہیے کہ ماضی سے درس حاصل کریں نہ کہ مستقبل کے لیے عبرت کانمونہ بنیں۔ ہلاکو،چنگیز اورتاتاریوں کی شورش ہماری بدعملی،بے علمی اور اتحاد میں کمی کاسبب تھی اور آج پھرہم اسی ڈگرپر چل پڑے ہیں۔
آج پوری دنیااپنے آپسی اور فروعی اختلاف تودرکناریہودیت اور عیسائیت، شوشلزم اور کمیونزم اپنے مذہبی اور بنیادی اختلافات کوبالائے طاق رکھ کر ”الکفرملة واحدہ“ کا عملی نمونہ پیش کررہے ہیں۔ساری دنیاایک مرکز پر یکجا ہو کراپنی اپنی حکمت عملی تبدیل کررہی ہے مگر یہ قوم مسلم ہے جو احوال زمانہ سے بے خبر خود اپنی ہی جڑیں کاٹنے میں لگی ہے۔آج ہمیں پھر ہمیں اپنا بھولا ہوا سبق یادکرکے اپنی عظمت رفتہ کوحاصل کرناہے،ہمیں اپنے ماضی کوسامنے رکھ کرحال کی تعمیر کرنی ہے اور مستقبل کے لیے اطمینان بخش لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔ محمد عربی ﷺکادرِپاک ہی وہ واحد جگہ ہے جس سے وابستگی کی بناء پر ہماراماضی روشن ہوا اور مستقبل بھی ان کے در پر لوٹنے ہی میں منور ہوگااور یہی وہ مرکز روحانیت ہے جہاں ہم متحد ہوسکتے ہیں۔اس لیے آ جاﺅاپنے آقاکی غلامی میں،انہی کی اطاعت واتباع میں ہماری کامیابی وکامرانی کاراز پوشیدہ ہے۔