ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesISLAMIC KNOWLEDGE

مسجد نبوی کی حیثیت عبادت گاہ، کمیونٹی سینٹر، سپریم کورٹ اورپارلیمنٹ ہاﺅس کی تھی

 مسجد نبوی کی حیثیت عبادت گاہ، کمیونٹی سینٹر، سپریم کورٹ اورپارلیمنٹ ہاﺅس کی تھی


از:عطاءالرحمن نوری ،مالیگاﺅں(ریسرچ اسکالر)

    مسجد الحرام کے بعد دنیا کی سب سے اہم مسجد ”مسجد نبوی“ ہے ۔ ریاست مدینہ میں مسجد نبوی کی حیثیت مسلمانوں کے لیے عبادت گاہ، کمیونٹی سینٹر، عدالت اور مدرسے کی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے سنگریزوں پر بیٹھ کر معاشرہ کے تمام مسائل کو قرآن کریم کی روشنی میں حل فرمایا۔ آپ کی تمام اصلاحی اور تعمیری سرگرمیاں یہیں سے انجام پاتی تھیں۔ سینکڑوں مہاجرین کی اس چھوٹی سی بستی میں منتقل ہونے کے نتیجہ میں آبادی کے مسائل تھے اور ان نووارد افراد کو معاشرے میں ضم کرنے کے مسائل تھے۔ اس مسئلہ کو مسجد نبوی کے صحن میں بیٹھ کر مواخات کی شکل میں حل کیا گیا۔ نئی مملکت کے تمام سیاسی مسائل کے حل اور قانون سازی کے لیے اس مسجد نے پارلیمنٹ ہاوس کا کردار ادا کیا۔ عدالتی فیصلوں کے لیے اسی مسجد نے سپریم کورٹ کا کردار ادا کیا۔ ہر قسم کی تعلیمی کارروائیاں اسی مسجد سے سر انجام پانے لگیں۔ تمام رفاہی کاموں کا مرکز یہی مسجد قرار پائی۔ تجارت و زراعت کے مسائل کے لیے یہی کامرس چیمبر اور یہی ایگریکلچر ہاوس قرار دیا گیا۔ دفاعی اقدامات اور جنگی حکمت عملی کے لیے بھی یہی مسجد بطور مرکز استعمال ہونے لگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کسی علاقے میں جہاد کے لیے لشکر روانہ کرنا ہوتا تو اسی مسجد سے اس کی تشکیل کی جاتی اور ایک موقع پر مجاہدین نے جہاد کی تربیت کا مرحلہ بھی اس مسجد کے صحن میں مکمل کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ حبشہ کے کچھ لوگ آئے ہوئے تھے اور عید کے روز مسجد نبوی کے صحن میں وہ نیزہ بازی کی مشق کر رہے تھے جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اوٹ میں کھڑے ہوکر دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ومدرسہ کو مسلم معاشرہ کا محور بنا دیا تھا اور مسجد ومدرسہ کا کردار زندگی کے ہر شعبہ پر محیط تھا، جس کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے صدیوں کے الجھے ہوئے تمام مسائل حل ہو گئے اور مدینہ منورہ کا معاشرہ دنیا کے لیے ایک عظیم الشان مثال بن گیا۔

    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کو صرف عبادت کی جگہ قرار نہیں دیا بلکہ اس سے لوگوں کی سماجی، سیاسی، علمی اور زندگی کے دیگر امور سے متعلق مسائل کے حل کے لیے بھی استفادہ کرتے تھے اسی لیے یہ مسجد مسلمانوں کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ معاشی انصاف قائم کرنے کے ساتھ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی مملکت کی داخلی سیاسی پالیسی کا اعلان فرمایا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ اور اس کے نواحی علاقوں پر مشتمل خطے کو ایک وحدت قرار دیا۔ اس وحدت میں بسنے والے غیر مسلموں کے ساتھ معاہدہ فرمایا اور ان کو مکمل شہری حیثیت دی گئی۔ شہری ریاست کو اندرونی خلفشار سے بچانے، استحکام بخشنے، امن کو فروغ دینے اور اخلاقی اقدار کو پیدا کرنے کے لیے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلسل تدابیر اختیار کیں۔ خارجہ پالیسی کے لیے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امن عامہ اور بین الاقوامی اتحاد کو بنیاد بنایا۔ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی جغرافیائی حدود میں وسعت اور جنگ و جدل پر مبنی نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو حدیبیہ کے مقام پر صلح کا معاہدہ طے نہ پاتا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس وقت مسلمان کم زور تھے اور غیر مسلموں کی قوت سے خوف زدہ تھے۔ اس لئے کہ صحابہ کرام نے تو جانیں قربان کر دینے کی قسمیں کھائی تھیں مگر ہادی کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلموں کی تمام شرائط مان کر صلح کر لینا ہی بہتر سمجھا۔

    اسلامی ریاست میں نظام تعلیم کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت سے قبل ہی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو معلم بنا کر مدینہ بھیج دیا تھا اور ہجرت کے بعد مسجد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باقاعدہ درس گاہ کا درجہ حاصل ہو گیا۔ غیر مقامی طلبہ کی تدریس و رہائش کے لیے صفہ چبوترہ بنایا گیا۔ عرب میں چوں کہ لکھنے کا رواج نہیں تھا اس لیے مسجد نبوی میں ہی حضرت عبد اللہ بن سعید بن العاص اور حضرت عبادہ بن صامت کو لکھنا سکھانے پر مامور کیا گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مختلف زبانیں سکھائی گئیں اور فنون جنگ کی تعلیم ہر جوان کے لیے ضروری قرار دی گئی۔ خواتین گھریلوں صنعتوں کے ساتھ علاج معالجے کا انتظام بھی کرتی تھیں، حتیٰ کہ ایک صحابیہ نے مسجد نبوی ہی میں خیمہ لگا دیا تھا جہاں زخمیوں کی مرہم پٹی کی جاتی تھی۔ دنیاوی علوم سیکھنے کے لیے قیدیوں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ انھیں اپنی رہائی کے بدلے مسلمانوں کو پڑھانا ہوگا۔

    ریاست مدینہ کی ایک اور شانداربنیادمشاورت تھی۔ آج صدیوں کے بعد جمہوریت کے نام پر اکثریت کی بات کو تسلیم کرنے کا رواج پیداہوا جبکہ ریاست مدینہ کے حکمران محسن انسانیت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاریخ انسانی میں سب سے پہلے اپنی رائے کی قربانی دے کر اور اکثریت کی رائے پر فیصلہ کر کے ثابت کیا کہ جمہور کا فیصلہ قابل اقتداءہوا کرتا ہے جبکہ یہ وہ دور تھا جب دنیائے انسانیت میں سرداری و بادشاہی نظام نے پنجے گاڑھ رکھے تھے اور حکمران سے اختلاف تو بڑی دور کی بات تھی اس کے سامنے بولنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ گویا اس وقت کے بادشاہوں کی تلوارآج کے سیکولرممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی مانند تھی کہ جس نے اختلاف کیا اس کا وجود ہی دنیا سے ختم کردو اور جمہوریت، آزادی رائے، بے باک صحافت کاراگ الاپ کر دنیاکو خوب بے وقوف بناتے رہو۔ ریاست مدینہ کا وجود صحیح آزادی رائے کا مجسم نمونہ تھاجس میں معاشرے کے ہر طبقے خواہ وہ غلام ہوں، خواتین ہوں یا دیگر شہری سب کو اپنے مافی الضمیرکے اظہارکے مکمل مواقع میسرتھے اور ان پر کوئی قدغن نہیں تھی۔ فجرکی نماز کے بعد محسن انسانیت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ جاتے اور مردوخواتین میں سے جو بھی جو پوچھنا چاہتا اسے ادب و احترام کی حدود کے اندر مکمل آزادی تھی۔ افسوس! آج ہماری مساجد اور ائمہ مساجد معاشرے کی بہتری کے لیے کوئی قابل ذکر کردار ادا کرنے سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔(الا ماشاءاللہ)


٭٭٭
عطا ءالرحمن نوری(ایم اے،بی ایڈ،نیٹ جے آر یف، سیٹ،جرنلسٹ)         مالیگاﺅں،ضلع ناسک ۔۳۰۲۳۲۴،مہاراشٹر(انڈیا)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!