فونیمیات

فونیمیات سے مراد وہ علم ہے جس میں کسی زبان کی امتیازی آوازوں کا مطالعہ کیاجائے یعنی کسی زبان میں استعمال ہونے والی ان امتیازی اصوات کی ساخت کو متعین کرنا فونیمیات کا مقصدہے جن کی وجہ سے لفظوں کے معانی میں تبدیلی پیدا ہو۔مثلا کمر اور قمر تو اس مثال میں صرف پہلے حرف کی آواز سے ہی معنی میں تبدیلی واقع ہورہی ہے اسی چیز کو پہچانے کا نام فونیمیات ہے۔

 

اس میں کسی ایک زبان کے صوتیوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ صوتیات میں آوازوں کی زیادہ سے زیادہ نزاکتیں دریافت کی جاتی ہیں لیکن اس کے برخلاف فونیمیات میں غیر ضروری نزاکتوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ نیز صرف انھیں اختلافات کا جائزہ لیا جاتا ہے جو معنی کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ اس طرح اصوات کی متعدد ’ذریات‘‘ کی گروہ بندی کرکے انھیں کم سے کم صوتیوں میں سمیٹ لیا جاتا ہے اس شاخ کو

Phonology

بھی کہتے ہیں۔


انیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں جب بین الاقوامی صوتیاتی انجمن کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس کا سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ دنیا کی تمام زبانوں کی آواز کو صفحہ قرطاس پر لایا جائے تو اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ یہ ناممکن ہے کیوںکہ محل تلفظ کی رو سے آوازوں کے لئے لامتناہی امکانات ہیں۔ لہٰذا 1920 کے بعد ماہرین لسانیات نے آزادانہ طور پر دریافت کیا کہ آوازوں کی جملہ نزاکتیں اور اقسام روانہ کرنے کا کام اہم نہیں بلکہ عملی حیثیت سے کار آمد کائیاں ہی اہم ہیں۔ جنھیں فونیم کا نام دیا گیا۔ لفظ فونیم کا استعمال سب سے پہلے ہیویت نے 1876 ء کے قریب کیا تھا لیکن اس نے محض اس زبان کی آوازوں کے معنی میں لیا تھا۔ 1920 کے بعد کئی ایک ماہرین صوتیات نے فونیم کا نظریہ پیش کیا جس میں چیکو سلواکیہ کے پرنس نکولس ٹروبیز کوئی اور امریکہ کے پیسر اور بلوم فیلڈ قابل ذکر ہیں۔ بعد میں پائیک نے اس موضوع پر غور کیا تو اس موضوع پر ایک کتاب

Phonemics

کے نام سے لکھ دی۔


فونیمکس یا فونیمیات وہ علم ہے جو کسی زبان کے فونیم دریافت اور متعین کرے اور اس کے ذیلی اقسام کا بھی مطالعہ کرے۔ بعض لکھنے والے فونیمکس کو فونولوجی بھی کہتے ہیں۔


فونیم کی تعریف ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں:
’’کسی زبان کے نظام اصوات میں فونیم صوتی حیثیت سے مماثل آوازوں کا ایسا گروہ ہے جو کسی قسم کے دوسرے گروہوں سے مختلف اور متضاد ہے۔ ‘‘

واضح ہو کہ فو نیم او ر فونیمیات کا تعلق کسی مخصوص زبان یابولی سے ہوتا ہے جب کہ صوتیاتی مطالعہ کسی مخصوص زبان کا بھی ہوسکتا ہے اور عام طور سے نطق انسانی کا یا کئی زبانوں کا ۔


ڈاکٹر گیان چند جین کے مطابق ایک فونیم کی ذیل میں نازک سے نازک فرق کی بنا پر جتنی آواز یں شامل ہوتی ہیں انھیں ہم صوت یا ذیلی صوت کہتے ہیں ۔ ایک قوم کے خلاف ہم صورتوں کا فرق ض صوتیات کی بنا پرکھا جاتا ہے یفرق عملی طور پر ہم اور بامعنی نہیں ہوتا ۔ ہم کسی لفظ میں ایک فونیم کا ایک ہم صوت نہ بول کر دوسرا ہم صوت بول دیں تو معنی میں کوئی فرق نہیں آئے گا ۔ مثل انگریزی میں PIN کو پھنبولا جائے تو کوئی فرق نہیں آئے گالیکن اس کے باوجود کوئی دوسرا فونیم استعمال کیا جائے تو بہت فرق آئے گا اور معنی بدل جائیں گے ۔ لہٰذا کسی بھی زبان کے فونیموں کی شناخت میں سب سے اہم اصول یہ ہے کہ دوفونیم مختلفالفاظ میں یکساں ماحول میں آ سکتے ہیں بلکہ آتے ہیں لیکن ایک فونیم کے دو صورت بھی یکساں ماحول میں نہیں آ سکتے ۔


اگر ہمیں لفظوں کا ایسا جوڑ مل جائے جس کے دونوں الفاظ میں محض ایک ایک آواز مختلف ہو بقیہ سب یکساں ہوں اور ان الفاظ کے معنیٰ میں فرق ہو تو قطعی طور پر طے ہوجاتا ہے کہ یہ مختلف آوازیں مختلف فونیم ہیں کیونکہ محض انھی کی بنا پر لفظ کے معنی بدل جاتے ہیںلہٰذا ایسے جوڑوں کو اقلی جوڑا کہتے ہیں۔ جیسے بار، پار، کل، کیل، آب ، آپ، وغیرہ۔ یہ سب اس قسم کے اقلی جوڑے ہیں جس سے ب اور ا ای ، ز اور ژ کی علاحدہ فونیمی حیثیت طے ہوجاتی ہے۔


اگر ہمیں دو آوازوں کا اقلی جوڑا دستیاب نہ ہو تو یہ کافی ہے کہ ایک ایسا جوڑا تلاش کرلیا جائے جس کے دونوں الفاظ جزوی طور پر مشترک ہوں اور یہ مشترک حصہ زیر غور آوازوں کو اپنے بیچ پر رکھتا ہو یعنی یہ ثابت ہوجائے کہ دونوں آوازیں یکساں ماحول میں واقع ہوئی ہیں یعنی ایسا کوئی جوڑا ہاتھ آجائے جس کے ان اجزا میںمطابقت ہو جہاں یہ آوازیں واقع ہوتی ہیں اور بقیہ میں اختلاف ہو تو بھی کام چل سکتا ہے ایسے جوڑے کو مماثل جوڑا کہتے ہیں۔مثال کے طور پر ن۔ن کے تضاد کے لیے منکا، ڈنکا، سنکی، بھینگی ایسے ہی دو مماثل جوڑے ہیں۔


جو آوازیں ایک دوسرے کے ساتھ یکساں ماحول میں واقع ہوتی ہیں انھیں تضاد کی حالت کہا جاتا ہے، جب وہ معنی کا فرق بھی کردیتی ہیں تو ان کی حیثیت جداگانہ فونیم کی ہوجاتی ہے تضاد کے لئے محض ایک قلی یا محض ایک مماثل جوڑا کافی ہے۔ فونیم کے ادراک کے لئے مندرجہ ذیل اصول پیش نظر رکھنے چاہئے:
(1) صوتی مماثلث
(2) نظام اصوات میں باضابطگی
(3) کفایت کا اصول
اس کے علاوہ اردو فونیم میں ستائیس (27) مصمتے اور آٹھ(8) مصوتے پائے جاتے ہیں جو اس طرح ہیں:
اکتالیس(41) مصمتے
ب پ ت ٹ ج چ ح خ د ڈ ر ڑز ژ س ش ع غ ف ق ک گ ل م ن ن بھ پھ تھ ٹھ جھ چھ دھ ڈھ رھ ڑھ کھ گھ لھ مھ نھ
دس(10) مصوتے
و، وو، و، اَ، ئ، ے، آ، اَے، اَو
ہر زبان کا رسم الخط اس کی آوازوں اور تلفظ کو صحت سے ادا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ کوئی اس تلفظ کو نہایت ناقص طریقہ سے ادا کرتا ہے تو کوئی اچھے طریقہ سے۔ جسے دیکھ کر انیسویں صدی کے درمیان میں بین الاقوامی صوتیاتی لہجہ

(International Phonetic Alphabet)

کو ایجاد کیا گیا جس میں مختلف زبانوں کی جملہ آوازوں کو صحت کے ساتھ ادا کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ دنیا بھر کی زبانوں کا کام تو مشکل تھا البتہ اہم مغربی زبانوں کی آوازوں کو ضرور لیا گیا۔ اس مین اس بات پر زور دیا گیا کہ جس آواز کے لیے علامت نہ ہو اسے کسی نئی علامت یا مروجہ علامتوں میں سے کسی پر خصوصی نشانات کا اضافہ کرکے ظاہر کیا جائے۔
فونیم کا تصور ابھرنے پر سب سے سادہ تحریر وہ مانی گئی جو فونیم کے لیے ایک نشان اور ایک نشان سے ایک فونیم ظاہر کرے۔

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!