مالیگاؤں بمقابلہ ہڑپہ و موہن جودڑو : ایک تجزیاتی مطالعہ
ہزاروں سال پہلے موجود شہر ہڑپہ اور موہن جودڑو، مالیگاوں سے زیادہ ترقی یافتہ تھے
مالیگاؤں بمقابلہ ہڑپہ و موہن جودڑو : ایک تجزیاتی مطالعہ
انتظامیہ سستی، سیاسی لیڈران کرپشن، اربابِ علم خاموشی، عوام اندھ بھکتی اور شہر مالیگاوں خستہ حالی کا شکار
از: عطاءالرحمن نوری، ریسرچ اسکالر
ہڑپہ( پنجاب، پاکستان) کا ایک قدیم شہر ہے جس کی تاریخی حیثیت کا اندازہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے تقریباً 1200 سال پہلے لکھی جانے والی کتاب ”رگ وید“ سے لگایا گیا ہے۔ اسی طرح ”موہن جو دڑو“ وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا ایک مرکز تھا جو 2600 قبل مسیح موجود تھا اور 1700 قبل مسیح میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر ختم ہو گیا۔ اسے قدیم مصر اور بین النہرین کی تہذیبوں کا ہم عصر سمجھا جاتا ہے۔ 1980ء میں یونیسکو نے اسے یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔
ہم جب موہن جو دڑو جیسا عالی شان شہر دیکھتے ہیں جس کے مکانات پختہ اور مضبوط، دو دو تین تین منزلہ اونچے ہیں۔ ان میں سڑکیں ہیں، بازار ہیں، ان کے باشندوں کی زندگی و رواج اور عادات سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ موہن جو دڑو کے وہ آثار جو سب سے زیادہ گہرائی میں ہیں سب سے زیادہ ترقی کا پتہ دیتے ہیں۔ ان شہروں کی کھدائی سرجان مارشل کے زیر نگرانی 1920ء میں آثارِ قدیمہ کی سروے سوسائٹی آف انڈیا نے کرائی۔ اس سے پرانے زمانے کے شہروں کے جو آثار و کھنڈرات دستیاب ہوئے ہیں انھوں نے ہندوستان کے مورخین کی سوچ کا رُخ بدل دیا ہے۔ ایسی ناقابل تردید شہادتیں ملی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج سے پانچ ہزار سال قبل کم از کم ان علاقوں میں جو سینکڑوں مربع میل کے رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں، ایسی تہذیب موجود تھی جو آج کل کی جدید ترین تہذیب اور تمدن کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ گرولیئر انسائیکلوپیڈیا (GROLIER ENCYCLOPEDIA) مطبوعہ امریکہ کے مصنفین نے انڈیا کے عنوان کے تحت اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جس کا ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔
”متعدد مٹی میں مدفون شہروں کی دریافت جو سندھ میں موہن جودڑو اور پنجاب میں ہڑپہ کے مقام پر ہوئی اس نے ہندوستان کی تاریخ کو 2750 ق م پر پہنچا دیا ہے۔ یہ یقین سے کہا جاتا ہے کہ وادیِ سندھ کے وسیع و عریض خطہ میں پانچ ہزار سال پہلے سے تہذیب کی روشنی پھیلی ہوئی تھی جو مصر، سومر (نینوا) کی تہذیبوں کے ہم عصر تھی۔“
سرجان مارشل جن کی نگرانی میں ان شہروں کی کھدائی کی مہم تکمیل کو پہنچی وہ لکھتے ہیں:
”بہت سے گھروں میں کنوئیں اور غسل خانوں کے آثار ملے ہیں اور اس کے ساتھ گندے پانی کے نکاس کا بہترین نظام دریافت ہوا ہے، جس سے وہاں کے باشندوں کے معاشرتی حالات کا علم ہوتا ہے جو یقینا ان کی معاصر تہذیبوں، بابل اور مصر میں پائے جاتے تھے۔ موہن جودڑو میں گھریلو استعمال کے برتن، رنگ دار نقوش والے ظروف، شطرنج کے مہرے اور سکّے جو آج تک دریافت ہونے والے سکوں میں قدیم ترین ہیں۔ بہترین قسم کے ایسے برتن جن پر اعلیٰ قسم کے نقش و نگار بنے ہوئے ہیں۔ دو پہیوں والی گاڑی، سونے چاندی اور جواہرات کے زیورات جنھیں اس عمدگی سے بنایا گیا ہے اور ان پر بہترین پالش کی گئی ہے جو موجودہ دور کے بہترین زیورات میں پائی جاسکتی ہیں۔ ان کی ساخت اور چمک دمک کو دیکھ کر معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کا تعلق پانچ ہزار سال قبل از زمانہ تاریخ سے ہے۔ زراعت وادیِ سندھ کے باشندوں کا اہم پیشہ تھا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آبپاشی کا بہترین نظام رائج تھا۔ موہن جودڑو صنعت کا سب سے بڑا مرکز تھا، یہاں کی مصنوعات برآمد کی جاتی تھیں، ان دست کاروں کے آلات ِصنعت دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ یہاں کے پارچہ باف بہترین قسم کا کپڑا تیار کرتے تھے، جو بابل اور ایشیا کے دوسرے معروف شہروں میں برآمد کیا جاتا تھا۔ نظام بلدیہ کی عمدگی کا ثبوت ان منصوبوں سے ملتا ہے جن کے مطابق شہر آباد کیے جاتے تھے، صفائی اور حفظان صحت کے لیے جو انتظامات کیے گئے تھے انھیں دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔ موہن جودڑو مستطیل شکل پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی گلیاں بہت وسیع اور سیدھی تھیں۔ جو شمال سے جنوب کی طرف جاتی تھیں اور دوسری بڑی گلیوں کے ساتھ متوازی تھیں۔ چھوٹی گلیاں جب بڑی سڑک سے نکالی جاتیں تو نوے درجہ کے زاویہ کے مطابق متوازی نکالی جاتیں بالکل اِسی طرح جیسے جدید امریکہ کے شہروں کا حال ہے۔ بڑی گلیاں تینتیس فٹ چوڑی ہوتیں اور چھوٹی گلیاں اٹھارہ فٹ چوڑی۔ ہر گلی کوچہ میں فالتو پانی کے اخراج کی نالیاں بنی ہوئی تھیں جن کو بڑی مہارت سے بہترین اینٹوں سے چھت دیا گیا تھا۔ مناسب مقامات پر سوراخ رکھے گئے تھے تاکہ ان کی صفائی کی جاسکے۔ موہن جودڑو میں پانی کا اخراج کا جو نظام تھا وہ انیسویں صدی میں یورپ کے تمام نظاموں سے بہترین تھا۔
(گرولیئر انسائیکلو پیڈیا خلاصہ ،صفحات A 110 ، B 110، جلد گیارہ )
محققین کے ذریعے قلمبند کیے گئے مذکورہ حقائق کی روشنی میں مالیگاوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم اکیسویں صدی میں ہونے کے باوجود انتہائی خستہ حال زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ ہڑپہ و موہن جودڑو میں انتظامی اُمور پر موجود افراد کس قدر ماہر تھے اور ٹیکنالوجی کی صدی میں کس قدر ناکارہ اور نااہل افراد انتظامی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سڑکیں خستہ حال ہیں، صنعتیں بحران کا شکار ہیں، صاف صفائی اور حفظان صحت کا نظام مردہ ہوچکا ہے۔ اس زمانے میں تینتیس فٹ چوڑی سڑکیں ہوا کرتی تھیں، آج سڑکیں تو ہیں مگر اَتی کرمن نے انھیں پگڈنڈی بنا دیا ہے جس کا کسی کو احساس نہیں۔ انتظامیہ سستی، سیاسی لیڈران کرپشن، اربابِ علم خاموشی اور عوام اَندھ بھکتی کا شکار ہے۔ قدیم زمانے میں عالیشان مکان، کشادہ سڑکیں، پانی کی نکاسی کا بہترین نظم اور صاف صفائی کا عمدہ انتظام ہوا کرتا تھا اور آج بارہ بائے پچیس کے پلاٹ فروخت کرنے والے پورے شہر کو جھونپڑ پٹی میں تبدیل کر رہے ہیں۔ وال کمپاﺅنڈ بن شیتی خریدی کے نام پر غریب عوام کو ٹھگا جا رہا ہے، مقام ِافسوس! اس بدعنوانی کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی ہے۔ قدیم زمانے میں انڈر گراﺅنڈ گٹر کا نظام موجود تھا اور آج کے پانی نکاسی کا انتظام کیسا ہے شاید اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج پانی کی نکاسی کا کیا حال ہے پورا شہر دیکھ رہا ہے مگر ایسی بے حسی طاری ہے کہ اپنے حقوق کے مطالبے کی جسارت بھی ختم ہو چکی ہے۔ برائی کو بزور طاقت روکنا تو دور برائی کہنا یا سمجھنا بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اللہ پاک ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے ۔ آمین