ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesISLAMIC KNOWLEDGEMalegaon Special

Malagaon Corporation ki School ka band hona

مالیگاﺅں میں25 اُردو اسکولوں کا بند ہونا ایک ناقابل تلافی نقصان

شامنامہ کی رپورٹ سے متاثر ہوکر نوری اکیڈمی یوٹیوب چینل پر دستاویزی فلم ریلیز

مالیگاﺅں میں 25 اُردو اسکولوں کا بند ہونا ایک ناقابل تلافی نقصان

از:عطاءالرحمن نوری ،مالیگاﺅں(ریسرچ اسکالر)

    15
جولائی 2018ء کو مالیگاﺅں کے موقر اخبار شامنامہ میں کارپوریشن اسکولوں کے متعلق ایک تجزیاتی رپورٹ پڑھاجو انتہائی تشویشناک اور پُر درد تھی جسے اخبار نے اسکول بورڈ کے توسط سے حاصل ہونے والی رپورٹ کی بنیاد پر شہ سرخی میں شائع کیا۔اس رپورٹ کے مطابق مالیگاﺅں شہر میں اُردو کی 25اسکولیں بند ہوگئی ہیں اور 8اسکولیں ایسی ہےں جنہوں نے ابھی تک اپنی رپورٹ جمع نہیں کرائی ہے۔ جن اسکولوں نے رپورٹ جمع کرائی بھی ہے تو ان کی رپورٹس دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بقیہ اسکولیں بھی بند ہونے کے دہانے پر ہے۔آج کے مضمون میں اس پر کلام نہیں کرنا ہے کہ ٹیچرس بچوں سے ذاتی کام کاج کرواتے ہیں یا نہیں؟اس پر بھی گفتگو نہیں کرناہے کہ طلبہ وطالبات کو بنیادی سہولیات حاصل ہے یا نہیں؟اس پربھی لب کشائی نہیں کرنا ہے کہ اسکول کی چھت سے پانی گرتا ہے یا چھت گر کر بچوں کو زخمی کردیتی ہے ۔آج کی رپورٹ کا مقصد صرف ۵۲اسکولوں کا بند ہو کر شہرکااور قوم کا جوناتلافی نقصان ہوا ہے اس پر مثبت انداز میں اپنی بات پہنچا ناہے تاکہ مستقبل میں پھر کبھی اس طرح کا نقصان نہ ہو۔براے کرم کوئی بھی شخص اس تجزیاتی مثبت رپورٹ کو سیاسی یا کسی بھی قسم کا رنگ دینے کی کوشش ہرگز نہ کریں۔


مالیگاﺅں میںآج بھی والدین اور سرپرستوں کی ایک بڑی تعداد پرائیویٹ اسکولوں سے لَو لگائے ہوئے ہیں،پرائیویٹ اسکولوں کا حال یہ ہے کہ جونیئر کے جی میں سات تا دس کلاسیس بن گئی ہیں اورا بھی بھی درجنوں ایسے بچے ہیں جنھیں داخلہ نہیں مل پایا ہے اور والدین کبھی اثر ورسوخ،پالی ٹیکل پریشر اور کبھی ڈونیشن کے ذریعے اپنے بچے کو وہی داخل کروانا چاہتے ہیں۔اگر کارپوریشن کی اسکولوں کے باصلاحیت اساتذہ چھٹیوں میں گھروں گھر جا کر والدین کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے،مختلف علاقوں میں کیمپس کا انعقاد کرتے،سوشل میڈیا یا پرنٹ میڈیا کے ذریعے آگاہی کی کوشش کرتے یا ہر ٹیچر دس ایڈمیشن کی ذمہ داری اپنے سر لے لیتا تو آج یہ صورت حال نہیں دیکھنی پڑتی۔


کارپوریشن ہو یا دیگر سرکاری محکمے ،یہاں بھرتی میرٹ لسٹ کی بنیاد پر ہوتی ہے یعنی کچھ حد تک یہ کہاجا سکتا ہے کہ ذہین اور باصلاحیت اساتذہ کا تقرر حکومتی اداروں میں ہوتا ہے اور یہ بات حقیقت سے تعلق بھی رکھتی ہے ،ایسے اسکولوں میں سروس کرنے والے اساتذہ نے ادبی محفلوں کی زینت بن کر اس بات کو ثابت بھی کیا ہے ،آپ خود شہر بھر کی اسکولوں پر نظر دوڑائیں عام طورپر سرکاری اسکولوں کے اساتذہ ہی لٹریچر کے ذریعے، اخباروںکے ذریعے ،سوشل ایکٹی ویٹیز کے ذریعے اور مختلف محفلوں اور انجمنوں کی سرگرمیوں کے ذریعے اپنی موجود گی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔اگر یہ ٹیچرس والدین کو یہ یقین دلا دیں کہ ہمارے یہاں پرائیوٹ انسٹی ٹیوٹس سے زیادہ معیاری یا کم از کم ان کے مقابل پڑھائی کا اسٹینڈرڈ ہوگا تو آج بھی سرپرست حضرات ان اسکولوں کا رُخ کرسکتے ہیں۔اس رپورٹ پر نوری اکیڈمی یوٹیوب چینل نے ایک دستاویزی فلم تیار کی ہے جسے یوٹیوب پر نوری اکیڈمی کے چینل پر دیکھا جاسکتا ہے ۔اس ویڈیو میںآپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان اسکولوں میں کتنے ایڈمیشن ہوئے ہیں ،ٹوٹل اسٹوڈنٹس کی تعداد کتنی ہے اور کل اساتذہ کتنے ہیں؟اس ویڈیو کی ریلیز پر کئی ارباب علم وفن نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے جسے ناموںکے تحفظ کے ساتھ ذیل میں قلم بند کیا جا رہاہے۔

 
٭ہر کوئی اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ اسکولوں میں تعلیم دلوانا چاہتا ہے۔ ایسے میں میونسپل پرائمری اسکولیں جہاں پڑھائی چاہے کتنی بھی اچھی ہو، انہیں غیر معیاری ہی سمجھا جاتا ہے۔ وہاں ایڈمیشن کم ہونے ہی ہیں۔
٭میونسپل کارپوریشن کی پرائمری اسکولوں میں طلباءو طالبات کی تعداد بڑھانے کے لیے سخت محنت درکار ہے ۔ان اسکولوں میں جہاں معیار تعلیم کو وسعت دینے کی ضرورت ہے وہیں انفراسٹرکچر کو سدھارنے کی اشد ضرورت ہے ۔تعفن خیز ماحول کو خوشگوار ماحول میں تبدیل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے جس کی بدولت لوگوں کی توجہ حاصل کی جا سکتی ہے ۔پرائمری اسکولوں کے اساتذہ میں بھی صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے آج بیشتر میونسپل کارپوریشن پرائمری کے اساتذہ کے نام کیساتھ لفظ ”ڈاکٹر“ جڑ چکا ہے یہ خوش آئند بات ہے۔
٭آج کے سیاست داں صرف سیاست کررہے ہیں،انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسکول بند ہوجائے یا کالج۔ابھی تک کسی نے آگے بڑھ کر اس کے لیے کوئی کاروائی نہیں کی ہے۔دیکھا جائے تو غلطی ہماری بھی ہے کیوں کہ ہم اپنے بچوں کو پرائیوٹ اسکول میں پڑھانا چاہتے ہیں۔
٭کارپوریشن پر مالی بوجھ کم ہوگا اور جو کنواں پرائمری ٹیچرز نے اپنے فرائض کی ادائیگی سے چشم پوشی کا کھودا ہے ،اس کا بھگتان تو بھگتنا پڑے گا،اب جاگے کیا ہوت، جب چڑیا چگ گئی کھیت ۔
٭اس طرف سبھی کو بہت زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔
٭اگر کارپوریشن کی اسکولوں میں بچوں کی تعداد کم ہے تو اسے خوش آئند سمجھنا چاہیے کیوں کہ کم بچے ہوں گے تو ٹیچرس زیادہ فوکس کریں گے،ایسا میں ضروری ہوجاتا ہے کہ یہاںسے نکلنے والا ہر اسٹوڈنٹس یوپی ایس سی اور دیگر معروضی امتحانات کو کامیاب کرنے والے ہوں،اگر ایسا نہیں ہے تو ذمہ داران اور ٹیچرس پر لگام کسنی چاہیے۔
٭اسی بے ایمانی کی وجہ سے ”سرپلس ٹیچرس“کا مسئلہ پروان چڑھا ہے ۔
٭صرف اُردو نہیں بلکہ دوسری زبانوں کی اسکولوں کا بھی یہی حال ہے سر۔
٭حکومت کو چاہیے کہ ہر وہ شخص جو گورنمنٹ سروس کرتا ہے اس کے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھیں،شاہد ہی مالیگاو ں میں کوئی ایسا سرکاری ملازم ہوںگا جو اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں پڑھانے کے لیے بھیجتا ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!