ArticlesISLAMIC KNOWLEDGENEWS/REPORTS/PROGRAMMESScience/G.K./Days

Babri Masjid Case

بابری مسجد اراضی تنازعہ کیس فیصلے کے اُنیس اہم نکات

بابری مسجد اراضی تنازعہ کیس فیصلے کے اُنیس اہم نکات

رپورٹ: عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر) 

    سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کے آئینی بینچ نے9 نومبر بروز سنیچر2019ءکو صبح ساڑھے دس بجے کئی دہائی پرانے بابری مسجد اراضی تنازعہ کیس میں متفقہ فیصلہ سنایاہے۔ فیصلے کی اصل کاپی اب تک دستیاب نہیں ہو سکی ہے البتہ ثانوی ذرائع سے درج ذیل باتیں منظر عام پر آئی ہیں

(1)    سنی وقف بورڈ اپنا مالکانہ حق ثابت کرنے میں ناکام ہو چکا ہے جس کے سبب متنازعہ زمین مندر بنانے کے لیے دے دی گئی ہے۔
 
(2)    سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو مندر بنانے کے لیے ٹرسٹ قائم کرنے کا حکم دیا ہے جب کہ مسجد کی تعمیر کے لئے متبادل پانچ ایکڑ اراضی مختص کی گئی ہے۔
 
(3)    سپریم کورٹ نے مرکز کو حکم دیا ہے کہ وہ متنازعہ ڈھانچے پر ایک مندر کی تعمیر کے لئے ٹرسٹی بورڈ تشکیل دینے کے لئے تین مہینوں میں ایک اسکیم تشکیل دے۔
 
(4)    متنازعہ جگہ پر رام مندر کی تعمیر کے لئے ٹرسٹ قائم کرنے کی سپریم کورٹ کی ہدایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وشو ہندو پریشد کے حمایت یافتہ رام جنم استھان نیاس کو مندر کی تعمیراتی سرگرمیوں سے عملی طور پر بے دخل کردیا گیاہے۔
 
(5)    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ کورٹ کے لیے Theologyیعنی مذہب، دینیات اور آستھا کی بنیاد پر فیصلہ دینا مناسب نہیں ہے ۔
 
(6)    قانونی و تاریخی نکات کی روشنی میں فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس نے نرموہی اکھاڑہ کے دعویٰ کو خارج کر دیا ہے ۔
 
(7)     سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ نرموہی اکھاڑا کے پاس کوئی بھی پجاری حقوق نہیں ہیں۔ تاہم عدالت نے یہ ہدایت بھی کی ہے کہ جو بورڈ آف ٹرسٹی تشکیل دیا جائے گا اس میں نرموہی اکھاڑہ کو مناسب نمائندگی دی جائے۔
 
(8)    سپریم کورٹ نے کہا کہ آثار قدیمہ کے ثبوت کو قیاس کے طور پر ایک طرف نہیں رکھا جاسکتا۔ آثار قدیمہ کے ثبوت اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ بابری مسجد خالی زمین پر نہیں بلکہ ہندو ساخت پر تعمیر کی گئی تھی۔ تاہم ہندوستان کی آرکیولوجیکل سروے نے یہ نہیں بتایا ہے کہ آیا کسی ہندو مندر کو کسی مسجد کی تعمیر کے لئے مسمار کیا گیا تھایا نہیں۔
 
(9)     سپریم کورٹ نے پوری 2.77 ایکڑزمین مندر کی تعمیر کے لئے الاٹ کردی ہے۔
 
(10)    عدالت نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ مسجد کے قیام کے لئے پانچ ایکڑ رقبے کے لئے موزوں متبادل زمین مختص کی جائے گی اوریہ زمین سنی وقف بورڈ کو دی جائے گی۔
 
(11)     الٰہ آباد ہائی کورٹ نے سن 2010 ءمیںاس کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے زمین کو تین حصوں میں تقسیم کیا تھا، اس فیصلے پر ریمارک دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے ججیس نے کہا کہ وہ فیصلہ نظر ثانی کے قابل تھایعنی اس میں اصلاح کی گنجائش تھی۔
 
(12)    سپریم کورٹ نے بابری مسجد سے سنی وقف بورڈ کے خلاف شیعہ وقف بورڈ کے دعوے کو خارج کردیا ہے۔ شیعہ وقف بورڈ نے سال 2017ءمیں سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی تھی کہ سنی وقف بورڈ کے پاس جو زمین ہے وہ در اصل شیعہ وقف بورڈ کی ملکیت ہے مگر سپریم کورٹ کے پانچوں ججوں نے متفقہ طور پر اسے خارج کر دیا ہے ۔ آزادی ہند سے پہلے بھی برٹش گورنمنٹ نے اس اپیل کو خارج کر دیا تھا ۔
 
(13)     عدالت نے یہ بھی کہا کہ 1992ءمیں مسجد کی تباہی کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی پر ہوئی۔
 
(14)     سپریم کورٹ نے کہا کہ 1949ءمیں بت رکھ کر مسجد کی بے حرمتی کرنا اور اس کو مسمار کرنا قانون کے خلاف تھا۔
 
(15)    چیف جسٹس نے کہا کہ رام جنم بھومی قانونی شخص نہیں ہے ۔
 
(16)    چیف جسٹس نے کہا کہ سنی وقف بورڈ کے لیے امن کے ساتھ قبضہ بتانا ممکن نہیں ہے ۔
 
(17)    1856-57ءسے پہلے بابری مسجد کے باہری چبوترے پر کئی برسوں تک پوجا ہوتی رہی ہے اور اس پر کوئی روک نہیں تھی ۔
 
(18)    فیصلے کے فوراً بعد طرفین کے سیاسی اور مذہبی رہنماں کی جانب سے مسلسل بیان بازیوں کا سلسلہ دراز ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اب تک کسی نے بھی کوئی متنازعہ بیان نہیں دیا ہے ۔
 
(19)     سپریم کورٹ کے فیصلے کے اعلان کے چند منٹ بعد ہی سنی وقف بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی نے کہا کہ بورڈ سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتا ہے مگر بورڈ اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہے، مکمل فیصلہ پڑھنے کے بعد اس فیصلہ پر نظر ثانی کی اپیل داخل کی جائے گی۔
ان نکات پر مبنی ویڈیو دیکھنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!